ہوم << چاغی کی گواہی: جب ڈاکٹر عبدالقدیر نے تاریخ رقم کی - نصیب باچا یوسفزئی

چاغی کی گواہی: جب ڈاکٹر عبدالقدیر نے تاریخ رقم کی - نصیب باچا یوسفزئی

پاکستان کی تاریخ میں چند ایام ایسے ہیں جو قوم کی تقدیر کا تعین کرتے ہیں۔ 28 مئی 1998ء کا دن، جسے ہم یومِ تکبیر کے نام سے یاد کرتے ہیں، انہی میں سے ایک ہے۔ یہ دن صرف ایٹمی تجربہ نہیں تھا بلکہ ایک مکمل فکری، سائنسی، عسکری اور قومی جدوجہد کا عملی اظہار تھا۔ مگر اگر اس دن کی کوئی آواز ہے، تو وہ سب سے پہلے ڈاکٹر عبد القدیر خان کی ہے، جنہوں نے علم، عزم اور عشقِ وطن کے امتزاج سے وہ کارنامہ سرانجام دیا جو آج بھی ہر پاکستانی کا فخر ہے۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ ایک قومی شعور کا نتیجہ تھا۔ 1974ء میں بھارت کے ایٹمی تجربے نے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑا اور پاکستان کے لیے دفاعی خودمختاری ایک ناگزیر ضرورت بن گئی۔ 18 مئی 1974ء کو بھارت نے راجستھان کے پوکھران کے مقام پر "سمائلنگ بدھا" کے نام سے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا، جو خطے کے لیے ایک خطرناک موڑ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی جملہ، "ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے"، قومی مزاج کا مظہر بن گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا نے ہمیں روکا، تنہا کیا، مگر ہمارے کچھ سائنسدانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ علم، غیرت اور خودی مل جائیں تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام درحقیقت 1950ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا جب پاکستان نے ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کے لیے اقدامات اٹھانے شروع کیے۔ 1956ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر نذیر احمد تھے۔ 1960ء کی دہائی میں ڈاکٹر عبدالسلام کی قیادت میں نظریاتی اور سائنسی میدان میں کچھ بنیادیں رکھی گئیں۔ 1965ء کی جنگ اور بھارت کی جارحیت نے پاکستان کو اس بات پر مزید قائل کیا کہ پرامن مقاصد کے ساتھ ساتھ دفاعی میدان میں بھی ایٹمی صلاحیت ناگزیر ہے۔

1965ء کے بعد، ڈاکٹر منیر احمد خان نے PAEC کی قیادت سنبھالی اور فرانس، کینیڈا اور دیگر ممالک کے تعاون سے مختلف تحقیقی منصوبے شروع کیے۔ 1972ء میں بھٹو حکومت نے باقاعدہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کے فیصلے کی منظوری دی اور اسی سال مری میں سائنسدانوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اس پروگرام کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی عرصے میں کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ اور دیگر تجرباتی مراکز قائم کیے گئے۔

1974ء میں بھارت کے تجربے کے بعد پاکستان کے لیے یہ ایک دو ٹوک فیصلہ بن گیا کہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا لازم ہے۔ اسی موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جو ہالینڈ میں یورینیم کی افزودگی کے شعبے میں کام کر رہے تھے، نے وطن واپس آنے کی پیشکش کی۔ 1976ء میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (کے آر ایل) کا قیام عمل میں آیا جہاں یورینیم کی افزودگی کا خفیہ اور مربوط کام شروع ہوا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان، یورپ کی علمی فضاؤں سے علم لے کر وطن واپس آئے، اور اپنی زندگی پاکستان کی سلامتی کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے یورینیم کی افزودگی میں وہ مہارت حاصل کی جو دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں کے پاس تھی۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کا قیام، ایندھن کی افزودگی کا عمل، اور پھر تجرباتی سطح پر کام کو خفیہ اور محفوظ طریقے سے جاری رکھنا، یہ سب کچھ ایک ایسے سائنسدان کے ہاتھ میں تھا جس نے کبھی اپنی ذات کو مقدم نہیں رکھا۔

ایٹمی پروگرام میں صرف ڈاکٹر عبدالقدیر ہی نہیں بلکہ کئی محققین اور انجینیئرز نے بھی ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ڈاکٹر انور علی، ڈاکٹر اشفاق احمد، اور ڈاکٹر عبدالماجد سمیت کئی افراد نے چاغی کی پہاڑیوں میں ہونے والے ان تجربات کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایک اجتماعی قومی جدوجہد تھی، مگر قیادت اور روح رواں کی حیثیت صرف ڈاکٹر قدیر کو حاصل رہی۔

28 مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں نے جو دھماکہ محسوس کیا، وہ صرف ایک ایٹمی ردِعمل نہیں تھا۔ وہ ایک صدی کے خواب، قربانی اور عزم کی تکمیل تھی۔ جب زمین کانپی تو دشمن کو خبر ہوئی کہ پاکستان اب ناقابلِ تسخیر ہے۔ اور تاریخ لکھتا ہے کہ جب کیمرے نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دکھایا، تو ان کی آنکھوں میں نمی اور چہرے پر عاجزی نے قوم کو ایک پیغام دیا، کہ یہ طاقت، یہ عظمت، یہ کامیابی، سب اللہ کی عطا اور قوم کی امانت ہے۔

یہ دن اسلامی کیلنڈر کے مطابق 2 صفر 1419ھ کو وقوع پذیر ہوا، یہ مہینہ بھی اسلامی تاریخ میں آزمائش، صبر اور قربانی سے منسوب ہے۔ یوں گویا جیسا پاکستان ویسا اس کا ایٹمی سفر بھی تاریخ اور روحانیت دونوں کا سنگم بن گیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1947-48ء کی پہلی جنگ کشمیر کے مسئلے پر ہوئی، جس نے قبائل کی بہادری کے ثبوت اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد رکھی۔ 1965ء کی جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ کے محاذ پر شدید لڑائی ہوئی، جہاں پاکستانی قوم اور افواج نے جرأت اور قربانی کی عظیم مثالیں قائم کیں۔ 1971ء کی جنگ کا اختتام سقوطِ ڈھاکہ پر ہوا، جو پاکستان کی تاریخ کا ایک کڑا موڑ تھا۔ انہی تلخ تجربات نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیت کو ناقابلِ تسخیر بنائے۔

ایٹمی پروگرام ان ہی جنگوں اور بھارت کی مسلسل جارحیت کا نتیجہ تھا۔ ان جنگوں نے یہ سبق دیا کہ صرف روایتی افواج سے سلامتی ممکن نہیں بلکہ ایک مکمل دفاعی نظام کی ضرورت ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کا کردار مرکزی ہو۔

بدقسمتی سے وہی ڈاکٹر عبد القدیر خان سا ہیرو بعد کے برسوں میں الزامات، قید اور تنہائی کا شکار بنا۔ حکومتوں نے بیانات دیے، دنیا نے دباؤ ڈالا، اور ایک عظیم سائنسدان کو تنہا کر دیا گیا۔ مگر قوم نے کبھی دل سے انہیں تنہا نہیں چھوڑا۔ ہر 28 مئی کو جب قوم یومِ تکبیر مناتی ہے، تو اس کے دل کی دھڑکن میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام شامل ہوتا ہے۔

ایٹمی طاقت ایک ذمہ داری ہے، صرف ہتھیار نہیں۔ یہ بازدار قوت ہے، جارحیت کا ہتھیار نہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ اسے دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ رکھا ہے۔ کبھی کسی قوم کو دھمکایا نہیں، کبھی بلاوجہ استعمال کی بات نہیں کی۔ یہی وہ سوچ ہے جو اس طاقت کو باوقار بناتی ہے۔

حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری کشیدگی نے ایک بار پھر یاد دلایا کہ یہ ایٹمی صلاحیت محض دھات اور بارود نہیں، بلکہ ایک نظریاتی توازن کی علامت ہے۔ دشمن کی زبان جب تیز ہوئی، تو پاکستان کے تحمل، بردباری اور دانشمندانہ خاموشی نے ثابت کیا کہ ہماری طاقت ہماری خاموشی میں ہے، ہماری حکمت میں ہے، اور ہماری تیاری میں ہے۔

ایٹم بم کے نقصانات سے دنیا آگاہ ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی آج بھی ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ یہ صلاحیت تباہی بھی لا سکتی ہے اگر عقل اور انسانیت اس کی راہنمائی نہ کرے۔ مگر پاکستان نے کبھی بھی اس طاقت کو ہلاکت کا ذریعہ نہیں بنایا۔ بلکہ یہ ایک ڈھال ہے، وہ ڈھال جو دشمن کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

یومِ تکبیر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اگر قوم متحد ہو، سائنسدان مخلص ہوں، قیادت وفادار ہو، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں جھکا نہیں سکتی۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے جو فصل بوئی، وہ آج بھی ہمیں سایہ دیتی ہے۔ چاغی کی پہاڑیاں خاموش سہی، مگر ان کے اندر وہ گواہی ہمیشہ گونجتی رہے گی۔

پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے اور یہ ذمہ داری صرف سائنس یا ٹیکنالوجی سے نہیں، ایک خواب، ایک قربانی، اور ایک مردِ مومن کے اخلاص سے مکمل ہوئی۔

یومِ تکبیر مبارک۔۔۔۔۔ یہ دن ماضی کا افتخار نہیں، بلکہ مستقبل کی روشنی ہے۔