ہوم << مطالعہ،غمِ روزگار،زندگی - سراجی تھلوی

مطالعہ،غمِ روزگار،زندگی - سراجی تھلوی

"کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے ۔۔۔۔!
اور ہم کاروبار کی زلف ہائے دراز میں یوں الجھ گئے ہیں کہ چاہ کر بھی مطالعہ کی فرصت نہیں پاتے، نیند سے اٹھ کر کام ۔۔۔اور کام سے اٹھ کر نیند۔۔۔۔ایک گھن چکر میں پڑ گئے ہیں۔

اے فتنۂ روزگار! کتاب پڑھنے کی فرصت دے!"
مذکورہ بالا سطور کس کا ہے مجھے نہیں معلوم ۔
لیکن پڑھ کر میں انہیں سطور میں کھو گیا۔

کراچی میں شدید گرمی ہے۔میں نماز عصر سے فراغت پا کر اپنے حجرے میں تقی امینی صاحب کی کتاب"فقہ اسلامی کی تاریخ اور اُصولِ فقہ" مطالعہ کر رہا تھا۔اتنے میں لائٹ چلی گئی۔میں مطالعے کی تسلسل کو قطع کیے بغیر کمرے سے باہر چلا گیا۔اور صحن میں کھڑا کھڑا مطالعہ کرتا رہا۔اتنے میں جنریٹر اسٹارٹ ہوئی۔لائٹ آگئی تو میں کمرے میں واپس آگیا۔کتاب ٹیبل پر رکھ کر یہی سطور پڑھنے لگا.
دل و دماغ کے دریچے وا ہوئے۔اور ایک انجان ہوا آنے لگی۔
میں سوچوں میں گم رہا ۔
کتابوں سے دوستی ،کتابوں کو وقت دینا ۔کتنا حسین وقت ہے۔

ابھی غمِ روزگار سے آزاد گھنٹوں کتابوں کی ورق گردانی کرتا رہوں تو بھی کوئی فکر نہیں ۔
لیکن وقت نے رکنا تھوڑی ہے۔اچانک اک ایسا وقت آجاتا ہے کہ غم روز گار انسان کو ایسا جکڑ لیتا ہے ۔صبح کی سپیدی پھیلتے ہی گھر سے نکلو ڈھلتے شام ،رات گئے گھر واپسی پھر "کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے"
کتنی ازیت ناک ہے نا؟یہ سوچ کر دل و دماغ ٹھہر جاتے ہیں۔کہ کہیں کتابوں سے ناطہ نہ ٹوٹ جاے۔
زمانہ طالب علمی اللہ کی طرف سے عطا کردہ اک نعمت،غنیمت،عطا ہے۔
اگر اس فرصت سے کماحقہ ہم فائدہ نہ اٹھائے تو پیشمانی و ندامت تادم مرگ ہمارا پیچھا کرے گی۔

اک الجھن ،اک خلش ،ان کہی باتوں کا بوجھ دل پر ہے۔
بوجھ یعنی احساسات و جذبات کا اک کاروان ،اک سمندر،اک بحر بیکراں۔
کتابوں کے سطر سطر ،ورق ورق ،نقطہ بہ نقطہ ،سینے قرطاس پر پھیلے ہوئے نقوش در نقوش یہی تو اثاثہ ہے زندگی کا۔
اگر غمِ روزگار یہی اثاثہ چھین لے تو زندگی چی معنی دارد؟

پھر کاروان حیات سے دور ،گاوں ،شہر سے کہیں پرے فطرت کے دلفریب وادیوں،سنگلاخ گھاٹیوں، میں بے زبان حیوانوں کے ساتھ قدرت کے دلنشین صداوں کو سنتے باقی ماندہ حیات بتانا چاہیے۔
کتاب وہ رفیق ہے۔جو آپ کو صدیوں پہلے کے چنیدہ و برجستہ شخصیات،سالاروں،مفکروں،معلموں،جنگجوں ،پادشاہوں،وزیروں،اتالیقوں،فلسفیوں سے بالمشافہ ملاقات کرواتی ہے۔
جو آپ کو صدیوں پہلے کے تمدن ،تہذیب و ثقافت ،بود و باش ،انداز زندگی،طعام و قیام کے طریقوں سے آشنا کردیتی ہے۔
بعض وقت ایسا لگتا ہے کہ ہم اسی دور میں ہی جیتے جاگتے سفر کر رہے ہیں۔
مطالعہ کےلیے فارغ البالی،خاموشی،سکون ،فرصت کی فراوانی ناگزیر ہے۔
ورنہ مطالعے میں لذت کہاں،جب فارغ البالی کی نعمت چھِن جاے تو مطالعے کی خواہش حسرتِ لاحاصل بن جاتی ہے۔

ہم مدارس کے طلبہ غمِ روز گار کے زلفوں میں پھسنے سے پہلے ایام تعطیلات میں،فرصت کے لمحوں میں،زبان و ادب کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔جب تک زبانِ خلق سے آشنا نہ ہو تب تک تبلیغ اثر نہیں کرے گی۔دلوں میں اترنے کےلیے زبان و بیان،تقریر و تحریر میں چاشنی و روانی نہایت ضروری ہے۔اور زبان و بیان،تحریرو تقریر میں چاشنی ادبی کتابوں کے مطالعے کے بغیر ممکن نہیں۔ نہیں تو عملی میدان میں قدم رکھنے کے بعد کہاں کتابوں سے لو لگانے،ورق گردانی کرنے،کتب خانوں کے خاک چھاننے،مکتبوں پر کتابیں خریدنے جانے کا وقت ملے گا۔پھر صرف کاش ہی کہہ سکتے ہیں۔

Comments

Avatar photo

سراجی تھلوی

سراجی تھلوی ایران کی المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ اصول فقہ و فقہ مقارن میں زیر تعلیم ہیں۔ گلگت بلتستان سے تعلق ہے۔ علوم عربیہ میں فاضل درس نظامی اور عصری علوم میں اسلامیات وعربی میں ماسٹر کیا ہے۔ اردو، فارسی اور عربی ادب سے شدید محبت کرتے ہیں۔ شعر و نثر دونوں میں خامہ فرسائی کرتے ہیں۔

Click here to post a comment