قربانی ایک ایسا عمل ہے جو محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عظیم الشان روحانی، سماجی اور اخلاقی پیغام کا مظہر ہے۔ یہ شعور بندگی کی تجدید اور اطاعتِ الٰہی کے امتحان کا مظہر ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام و ملل میں کوئی نہ کوئی علامتی یا عملی قربانی موجود رہی ہے، لیکن جس انداز سے اسلام نے قربانی کو عقیدہ، عبادت، فلسفہ، مقصد اور نظامِ حیات کے ایک جامع اور ہم آہنگ عمل میں ڈھالا ہے، اس کی مثال کسی اور تہذیب یا مذہب میں نہیں ملتی۔
اسلام میں قربانی کی بنیادیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بے مثال آزمائش سے جاملتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلا چون و چرافقط اللہ کی رضا کے لیے اس حکم پر عمل کرنے کا عزم کر لیا۔ یہ واقعہ محض تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بندۂ مومن جب خالص نیت، اخلاص اور اللہ کی رضا کے لیے کچھ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول بھی فرماتا ہے اور اس میں برکت بھی عطا کرتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کی تیاری قربانی کی روح کو زندہ کر دیتی ہے اور یہی جذبہ ہر سال مسلمان اپنے عمل سے تازہ کرتے ہیں۔
قربانی دراصل ''تسلیم و رضا'' کی علامت ہے۔ جب بندہ اپنے سب سے محبوب مال کو اللہ کی راہ میں نچھاور کرتا ہے تو وہ دنیا سے اپنے تعلقات میں توازن قائم کرتا ہے۔ انسان کی فطرت میں مال و دولت، جائیداد، عزت، اولاد اور آسائش کی محبت رکھی گئی ہے۔ قربانی اسی محبت کے دائرے میں ایک آزمائش ہے کہ آیا بندہ ان چیزوں کو اللہ کی رضا پر قربان کر سکتا ہے یا نہیں۔ یہ جذبہ انسان کو مادیت سے روحانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ جس شخص کے لیے مال و متاع ہی سب کچھ ہو‘وہ کبھی کسی بڑے نظریے، عظیم مقصد یا اعلیٰ اخلاق کے لیے قربانی نہیں دے سکتا۔ قربانی اس مادہ پرستی کے خلاف ایک اعلان ہے کہ میرا رب میری ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔
قربانی محض ایک سالانہ رسم نہیں بلکہ یہ پورے اسلامی نظامِ حیات کی علامت ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ صرف جانور کا خون بہانا مقصود نہیں بلکہ ہمارے دل، جذبات، ارادے، خواہشات اور عمل بھی اللہ کی رضا کے تابع ہونے چاہئیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:ترجمہ: ''اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ وہ تقویٰ پہنچتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے۔'' (سورۃ الحج: 37) یہ آیت اس عمل کے روحانی پہلو کو مکمل طور پر واضح کرتی ہے کہ اللہ کے ہاں نیت، اخلاص اور پرہیزگاری ہی اصل قدر ہے۔آج کی دنیا میں جہاں خودغرضی، مادہ پرستی اور نفس پرستی کا طوفان برپا ہے، قربانی ایک اعلیٰ اخلاقی اور سماجی پیغام ہے۔ مغربی دنیا میں فرد واحد کی آزادی کا تصور اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ رشتے، خاندان اور دوسروں کے حقوق کی قربانی دی جاتی ہے۔ جب کہ اسلام کا پیغام ہے کہ اگر اپنی خواہش، آرام اور مال کی قربانی دے کر کسی کی بھلائی ہو سکتی ہے تو یہ قربانی قابلِ فخر ہے۔ یہ فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم نہ صرف جانور قربان کریں بلکہ اپنی ''انا''، ''غرور''، ''نفرت''، ''لالچ'' اور ''بخل'' کو بھی قربان کریں۔
قربانی کا سماجی پہلو بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جب ایک مسلمان جانور ذبح کرتا ہے تو اس کا گوشت خود بھی کھاتا ہے، عزیز و اقارب میں بھی تقسیم کرتا ہے اور غرباء و مساکین کو بھی دیتا ہے۔ اس سے معاشرے میں ہمدردی، مساوات، اخوت اور انصاف کی فضا قائم ہوتی ہے جو غریب سارا سال گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتا، اسے بھی اس موقع پر عزت و احترام سے گوشت ملتا ہے۔ یہ قربانی صرف جانور کی نہیں بلکہ اپنے مفاد پر دوسروں کی بھلائی کو ترجیح دینے کی قربانی بھی ہے۔
قربانی کے معاشی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عمل ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کرتا ہے۔ جانور پالنے والے، چارہ فراہم کرنے والے، جانوروں کے بیوپاری، قصاب، چمڑے کی صنعت، گوشت کی پیکنگ اور نقل و حمل کا شعبہ وغیرہ سب اس عمل سے جُڑے ہوتے ہیں۔ دنیا کی کئی معیشتوں میں عید قربان کے موقع پر معقول معاشی سرگرمی دیکھی جاتی ہے۔ ایسے میں قربانی پر بے بے جا اعتراضات اور اسے غیر ضروری قرار دینا نہ صرف دینی شعائر سے تصادم ہے بلکہ معاشی نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔
قربانی کا ایک بین الاقوامی اور عالمی پہلو بھی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان ایک ہی وقت میں ایک ہی عمل انجام دیتے ہیں۔ یہ اتحاد، اجتماعیت اور امتِ مسلمہ کی وحدت کی علامت ہے۔ جب دنیا کے کروڑوں مسلمان ایک وقت میں اپنے اپنے علاقوں میں اللہ کے حضور جانور ذبح کرتے ہیں تو یہ ایک روحانی یگانگت کا منظر ہوتا ہے۔ یہ تصور انسان کو یاد دلاتا ہے کہ ہم صرف انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی امت ہیں۔ اس قربانی کے ذریعے ہم نہ صرف اپنے رب کے حضور جھکتے ہیں بلکہ اپنے نبی ﷺ کی سنت کو بھی زندہ کرتے ہیں اور اپنے دینی رشتوں کی تجدید کرتے ہیں۔
موجودہ دور میں جب قربانی کو جانوروں کے ''حقوق'' کی خلاف ورزی کہہ کر طنز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ درحقیقت جدید الحادی فلسفے کا حملہ ہے جو انسان کو رب سے کاٹ کر مخلوق کے پجاری بنانا چاہتا ہے۔ جو تہذیب انسانی جنین کو مارنے کو ''حق'' کہے، وہی تہذیب جانور ذبح کرنے پر ''ظلم'' کا لیبل لگاتی ہے۔ قربانی کا عمل اس الحاد اور انسان دشمن نظریے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو ہر چیز کو صرف دنیاوی فائدے کے ترازو میں تولنا چاہتا ہے۔ قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم محض حیوان ناطق نہیں بلکہ رب کے بندے ہیں اور ہمارا ہر عمل اس کی رضا کے تابع ہونا چاہیے۔
کئی مغربی ممالک میں جانوروں کے ذبح پر پابندی کی آڑ میں مسلمانوں کی دینی آزادی پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ اگرچہ وہی ممالک گوشت کھاتے ہیں، چمڑے کی صنعت سے کماتے ہیںمگر مسلمانوں کی ''ذبیحہ'' کو مذہبی شدت پسندی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ یہ واضح امتیاز ہے۔ قربانی کا نظام ایسے تمام تہذیبی تعصبات کا جواب ہے۔ یہ ہمیں باور کراتا ہے کہ ہم فقط اپنے رب کے حکم پر عمل کرتے ہیں، چاہے وہ عمل دنیا کی نظر میں غیر ضروری یا دقیانوسی کیوں نہ لگے۔
قربانی ہمیں اپنی داخلی اصلاح کی دعوت بھی دیتی ہے۔ جس طرح ہم جانور کو قبلہ رخ کر کے اس پر اللہ کا نام لے کر اسے ذبح کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنی زندگی کے ہر عمل کو بھی اللہ کے حکم کے تابع کرنا چاہیے۔ یہ محض ایک عبادت نہیں بلکہ ایک مسلسل پیغام ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر بندہ، خواہشات کی قربانی دے کر رب کی رضا کو ترجیح دے۔ خواہ وہ جھوٹ بولنے کی خواہش ہو، سود کمانے کی لالچ ہو، یا حرام تعلقات کی کشش ۔ قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اللہ کی رضا ہر شے سے برتر ہے۔
عالمی سطح پر جب انسانیت اخلاقی پستی، خاندانی نظام کی تباہی اور نفسانفسی کے دور سے گزر رہی ہے، قربانی کا فلسفہ ایک مکمل حل پیش کرتا ہے۔ یہ انسان کو سکھاتا ہے کہ صرف لینا نہیں، دینا بھی سیکھو۔ صرف اپنی ذات نہیں، دوسروں کا بھی سوچو۔ صرف جسمانی تسکین نہیں، روحانی تقویٰ بھی ضروری ہے۔ اگر دنیا اس پیغام کو سمجھ لے تو نہ صرف انفرادی سطح پر اخلاقی اصلاح آئے گی بلکہ معاشرتی طور پر بھی امن، ہمدردی اور محبت کو فروغ ملے گا۔
آخر میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے اور عبادات میں عقل، منطق یا سائنسی تجزیے کا عمل دخل محدود ہوتا ہے۔ اس کا اصل جوہر ''اطاعت'' ہے۔ اللہ نے جس چیز کو محبوب قرار دیا، وہ بندے کے لیے بھی محبوب بن جاتی ہے۔ قربانی خواہ کسی کو کتنی ہی بے معنی لگے، مومن کے لیے یہ حکمِ الٰہی ہے اور اس پر عمل کرنا باعثِ سعادت ہے۔ جو قومیں اپنے مقدس شعائر پر سمجھوتہ کر تی ہیں، وہ تاریخ کے طوفان میں اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ قربانی نہ صرف ایمان کی علامت ہے بلکہ ملت کے وجود اور بقا کی ضمانت بھی ہے۔
تبصرہ لکھیے