ہوم << سیاسی کارکنوں کے لیے اجنبی تصورات - محمد قاسم مغیرہ

سیاسی کارکنوں کے لیے اجنبی تصورات - محمد قاسم مغیرہ

سیاسی کارکنوں کی تربیت نہ ہونے کے سبب ان کے لیے بہت سے تصورات اجنبی رہ گئے ہیں۔ انہیں ایک محدود سوچ کا اسیر بنایا گیا، شعور کے دروازے ان پر بند رکھے گئے اور ان کی گردنوں کے گرد طوق غلامی ایسا کسا گیا کہ سیاسی کارکن اپنی مفتوح ذہنیت کے سبب "فلاں زندہ باد" اور "فلاں مردہ باد" کے نعرے تو لگا سکتے ہیں لیکن سیاست کے حقیقی مفہوم ، جمہوریت کے صحیح معانی اور ریاست کی ذمہ داریوں پر بات نہیں کرسکتے۔

سیاسی کارکنوں کی اکثریت کو انٹرا پارٹی الیکشنز کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ تصور ناقابل فہم ہے کہ کسی جماعت کے اندر انتخابات ہوں اور اس کے نتیجے میں بہتر قیادت سامنے آئے۔ انہیں اگر کسی تصور سے آشنائی ہے تو وہ " بلا مقابلہ انتخاب " ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا قتل برسوں سے جاری ہے اور سیاسی کارکنوں کو اس حقیقت کا ادراک بھی نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں جماعتوں میں جمہوریت پروان چڑھائے بغیر ملک میں جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔

بلدیاتی انتخابات بھی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جن کی افادیت سے سیاسی کارکن لاعلم ہیں۔ ان کی محدود سوچ میں یہ بات نہیں سما سکتی کہ بلدیاتی انتخابات سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوتے ہیں اور متبادل قیادت سامنے آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں پر قابض ٹولے نے متبادل قیادت کے خوف کے سبب اپنے کارکنوں کو ان خطوط پر سوچنا اکسایا ہی نہیں۔ اس لیے سیاسی کارکن بلدیاتی انتخابات کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے۔

سیاسی کارکنوں کو غلامی کی ایسی ویکسینیشن دی گئی ہے کہ انہیں سٹوڈنٹ یونینز کی بحالی سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ اگر کچھ دل چسپی ہے تو اس حد تک کہ اس پلیٹ فارم سے غنڈہ گردی، رسہ گیری اور بھتہ خوری کے مواقع میسر آتے ہیں۔ جمہوریت کی سیڑھی کے طور سٹوڈنٹ یونین کی بحالی میں سیاسی جماعتیں دل چسپی رکھتی ہیں نہ سیاسی کارکن۔

سیاسی کارکنوں کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ کوئی سیاسی کارکن محض اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنی جماعت کا سربراہ بن سکتا یے۔ انہیں یہ اسیری فکر گھٹی میں ملی ہے کہ جماعت کی سربراہی صرف ایک خاندان کا حق ہے۔ اس کے بر عکس کوئی تصور قبول کرنا ان کی فکری استعداد سے بہت پرے کی چیز ہے۔
سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کے موضوع پر کسی سیاسی کارکن سے گفت گو کرکے دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ اس پر سیاست کے فہم کا یہ در بھی وا نہیں ہوا کہ کسی جماعت میں داخلی جمہوریت ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے۔

سیاسی کارکن عموماً چند نعروں کے اسیر ہوتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاست ریاست کے نظم و نسق چلانے کا نام ہے۔ گورننس ہی سیاست ہے۔ ایسا سیاسی کارکن ایک طرف اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی حمایت جاری رکھے گا تو دوسری طرف یہ سمجھنے سے قاصر ہوگا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سرکاری سکولوں اور کالجوں میں معیاری تعلیم کا فروغ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے بچوں تعلیم کے لیے کو نجی اداروں میں بھیج کر بھی سیاسی جماعتوں کا مقدمہ لڑتا رہے گا۔ یہ سوال نہیں اٹھاسکے گا کہ ریاست نے یہ ذمہ داری پوری کیوں نہیں کی۔

سیاسی کارکنوں کے لیے یہ تصور بھی اجنبی ہے کہ علاج معالجہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ جماعت کو مسند اقتدار تک پہنچانے کے بعد نجی ہسپتالوں سے علاج کرائے گا لیکن جرآت سوال نہیں کرسکے گا۔

کسی سیاسی کارکن کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وہ عدالتی اصلاحات کی بات نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح افسر شاہی کے ہاتھوں رسوا ہوکر بھی وہ اپنی جماعت کے سامنے انتظامی اصلاحات کا مطالبہ نہیں رکھ سکے گا۔

سیاسی کارکن وطن عزیز کے قانونی ڈھانچے کے پس منظر سے ناواقف ہیں۔ یہ کارکن دور غلامی کی اس یادگار کے انہدام میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔

سیاسی کارکن " زندہ باد" اور " مردہ باد" کے نعروں میں اتنا مگن ہے کہ اس نے فراموش کردیا ہے کہ پولیس اصلاحات بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وہ پولیس کے ہاتھوں اپنے سیاسی مخالفین کی تذلیل پر خوش ہوتا ہے۔ ایک غیر سیاسی اور قانونی ضابطوں کی پابند پولیس کا تصور اس کے احاطہ فہم سے باہر ہے۔

سیاسی کارکن شاہ پرستی کی خماری میں ایسے سرشار ہوتے ہیں کہ عام آدمی کا وقار ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس نشہ کاسہ لیسی میں اس نے اپنی عزت نفس بھی فراموش کردی ہے۔ وہ یونین کونسل سے لے کر ہائی کورٹ تک پامال ہوگا لیکن سوال کی جسارت نہیں کرسکے گا۔ اس کے سکون کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کی پسندیدہ جماعت برسرِ اقتدار ہے۔ بقیہ سب امور غیر متعلق ہیں۔

ایک سیاسی کارکن اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے برسر اقتدار آنے پر انتظامی و دفتری امور کی کجیاں دیکھ کر بھی سوال نہیں اٹھاتا بل کہ رشوت سے کام نکلواتا ہے اور " زندہ باد" کے نعرے لگاتے لگاتے بے خود ہوجاتا ہے۔

سیاسی کارکنوں کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ سیاست صرف وڈیروں ، جاگیر داروں ، سرمایہ داروں، ذخیرہ اندوزوں اور رسہ گیروں کا ہی حق ہے۔ اپنی ذہنی ناپختگی اور فکری کجی کی بنا پر وہ اسلحے کی نمائش ، بڑی بڑی گاڑیوں اور خدم و حشم سے مرعوب ہوتا ہے۔ اس کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ سیاسی جماعتیں اس قماش کے لوگوں کی زنجیروں سے آزاد ہونی چاہییں۔

سیاسی کارکنوں کی ایک غالب اکثریت کے لیے پائیدار ترقی ایک اجنبی اصطلاح ہے۔ ان کے نزدیک قومی وسائل کی بندر بانٹ ہی ترقی ہے۔ آٹے اور رقوم کی تقسیم پر یہ ترقی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس قسم کے حکومتی فیصلوں سے لوگوں کی معاشی حالت میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ چند پکی سڑکیں دیکھ کر فرط مسرت سے سرشار ہو جانے والے یہ کارکن بے شعوری کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سیاسی کارکن اپنے مخالفین کو جیل میں دیکھ کر خوش ہوتے اور نادیدہ قوتوں کو مخاطب کرتے ہیں کہ " تن کے رکھو۔" ان کے نزدیک عدل و انصاف کچھ معانی نہیں رکھتے۔

کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ کے حصول کے لیے اہلیت ، معیار اور قابلیت ایسے الفاظ ہیں کہ اگر آپ کسی سیاسی کارکن کے سامنے یہ لفظ ادا کریں تو اس کے سر سے گزر جائیں گے۔ بڑی بڑی گاڑیوں اور اسلحے کی نمائش سے متاثر ہوکر گماشتوں میں گھرے ہوئے ایک بدقماش شخص کو ووٹ دینے والے کیا جانیں کہ اہلیت ، معیار اور قابلیت کس چڑیا کا نام ہے۔

کچھ ممالک میں بیلٹ پیپر پر ایک خالی خانہ بھی ہوتا ہے۔ یہ ان ووٹرز کے لیے ہے جو اپنے حلقے کے تمام اُمیدواروں کو مسترد کرنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بیلٹ پیپر پر خالی خانہ نہ ہونے کے سبب عوام کی اکثریت ووٹنگ کے عمل سے لاتعلق رہتی ہے۔ اس کے نتیجے میں حلقے کے عوام کی اکثریت کا رد کردہ شخص فاتح قرار پاتا ہے۔ کسی سیاسی کارکن کے لیے یہ تصور ناقابل قبول اور ناقابل فہم ہے کہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے تمام اُمیدواروں کو رد کرنے کا اختیار بھی استعمال کرسکتا ہے۔

ایک سیاسی کارکن سے سینیٹر مشتاق کی پارلیمانی کارکردگی پر گفت گو ہورہی تھی۔ اس نے بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا " باتوں سے کیا ہوتا ہے؟" یعنی ایک سیاسی کارکن کے نزدیک کسی منتخب سیاست دان کی پارلیمانی کارکردگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو " تجربہ کار" سیاسی جماعتوں نے برس ہا برس کی محنت سے تشکیل دی ہے۔

کسی سیاسی کارکن کے لیے اداروں میں با اثر سیاسی شخصیات کی مداخلت ہر گز ایک قابلِ اعتراض شے نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں ملازمتوں کے معاملے میں کچھ شفافیت آئی ہے لیکن ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے کہ ملازمتوں میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کا کوٹہ ہوتا تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں ادارے تباہ ہوئے، گورننس شدید متاثر ہوئی اور اداروں پر عوام کے اعتماد میں کمی آئی۔

گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی کہ ایک برس میں تنخواہ دار طبقے نے 476 روپے ٹیکس ادا کیا جب کہ تاجر دوست سکیم کے تحت 35 لاکھ روپے جمع ہوئے۔ ٹیکس چور کاروباری طبقے اور بدعنوان سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ کے باعث کاروباری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانا حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ ایک سیاسی کارکن اس حکومتی بے حسی پر سوال نہیں اٹھاسکتا۔

سیاسی کارکنوں کی خوئے غلامی اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ اپنی محبوب جماعت کی کسی پالیسی سے اختلاف کرنا ان کی سرشت میں ہی نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں میں داخلی احتساب ایک معدوم شے ہے۔ کسی سیاسی کارکن کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسا داخلی ماحول تشکیل دیں کہ کوئی بدعنوان شخص اسمبلی تک نہ پہنچ سکے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بدعنوان لوگ تو کسی سیاسی جماعت کا اصل حسن ہوتے ہیں۔ کسی جماعت کو کیا پڑی کہ ایسے لوگوں سے پیچھا چھڑا کر دیانت دار لوگ آگے لائے؟ اس لیے سیاسی کارکنوں کو بھی بدعنوانی کے خاتمے میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔

وی آئی پی پروٹوکول قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے لیکن کسی سیاسی کارکن کے لیے قومی وسائل کا ضیاع ہر گز ایک قابلِ اعتراض شے نہیں ہے۔

سیاسی کارکن غلامی میں ایسے غرق ہیں کہ انہیں تخفیف غربت سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ شاہ پرستی اور جی حضوری نے انہیں حکومت کی ایک بڑی ذمہ داری کے بارے میں سوال اٹھانے سے روک رکھا ہے۔

گورننس کے اتنے گوشوں سے لاعلم ہونے کے بعد بھی اگر کوئی خود کو سیاسی کارکن کہلوانا پسند کرتا ہے تو آفرین ہے اس پر۔

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment