ہوم << زندگی چٹکیوں پہ بجی ہو جیسے - زارا مظہر

زندگی چٹکیوں پہ بجی ہو جیسے - زارا مظہر

ہم پانچوں طویل عرصے بعد ایک ساتھ جمع ہوئی تھیں، ایک ہی صوفے پہ بیٹھنا چاہتی تھیں لیکن پوری نہیں آرہی تھیں، اس لیے دو صوفوں پہ قبضہ جما لیا۔ اب ارد گرد بے معنی تھا، ہم آپس میں مصروف ہو چکی تھیں، ایک دوسری کو غور سے دیکھ رہی تھیں اور سرشاری تن بدن میں سرایت کر رہی تھی۔ ہم سب ایک دوسری سے اپنے لڑکپن یعنی ٹین ایج میں الگ ہو گئی تھی۔ پھر ایک ایک کر کے چڑیوں کا یہ چنبہ اڑان بھر گیا. کوئی کسی صوبے میں تو کوئی کسی دوسرے شہر میں اور کوئی اٹلس پہ سوار ملک ہی چھوڑ گئی۔ سب اپنے اپنے سسرال اور پھر بچوں میں ان کی تعلیم و تربیت میں ایسے پھنسیں کہ سدھ بدھ ہی کھو گئی۔ بچے بڑے ہونے لگے اور اپنے ٹریک پہ چڑھ گئے تو سب کو بچوں سے ذرا فرصت ملی۔ دانستہ بھلائی ہوئی خواہشات انگڑائیاں لے کے جاگنے لگیں، جن میں سرفہرست بچپن کی کھوئی ہوئی دوست تھیں، دوستوں کی تلاش میں کنوؤں میں بانس ڈلوائے، نام پتے اور فون نمبر سب کھو چکے تھے لیکن دنیا قطعاً اتنی بڑی نہیں ہے کہ کوئی کھویا ہوا مل نہ سکے، ادھر ادھر سے ڈھونڈ ڈھانڈ کے سب کو ایک گروپ میں جمع کر لیا ۔

ہماری بچپن کی دوستوں کے بچے اب جوان ہیں، ہماری شادیاں بھی سال دو سال کے فرق سے آگے پیچھے ہوئی تھیں، اور اب سب کے بچے ایک ایک دو دو سال کے فرق سے آگے پیچھے ہیں، کچھ بھرپور جوان ہیں اور عملی زندگی کی شروعات میں قدم رکھ چکے ہیں، کچھ ابھی آگے پیچھے پڑھ رہے ہیں۔

مارچ کے پہلے ہفتے ایسی ہی پرانی دوست کی بیٹی کی شادی تھی۔ اتفاق ایسا تھا کہ ہمارا پورا گروپ شمولیت کر سکتا تھا، اتفاق اس لیے کہ اسماء اپنے بھتیجے کی شادی میں کراچی سے پنجاب آئی ہوئی تھی، اسے تاکید کر دی کہ واپسی کی تاریخ بڑھا دینا۔ میں اسلام آباد سے شامل ہوتی. باقی تینوں گوجرانوالہ میں ہی موجود تھیں۔ اسماء کی بھابھی بھی ہماری کلاس فیلو تھیں، جو خاتون بیٹے کی بارات لائیں وہ بھی کالج فیلو تھیں، سب بچھڑی ہوئی سہیلیوں کی بارات تھی، کئی شناسا چہرے نظر آرہے تھے، اس لیے بھرپور سماں تھا۔ ہم سب نے ایک دوسری کے ساتھ کھیل کود اور پڑھ کر بچپن گزارا تھا. سکول کی کینٹین سے" چیز " لینے سے لیکر کیفے کی ٹیبل کرسیوں پہ بیٹھ کے گپ شپ مارنے کی تہذیب تک ایک ساتھ تھے، ایک ساتھ جوان ہوئی تھیں، اب مڈل ایج میں ایک دوسری کو دیکھنا، بہت کیف آور تھا ہم سب نے خوب انجوائے کیا ۔۔

ہمارا گروپ ایک ہی ٹیبل کے گرد بیٹھا تھا. ہمارا بچپن , جوانی , سکول , کالج , بک ڈپو , بازار سب ایک ہی تھے، ہم ایک سی عمر کی تھیں اور ایک جیسے زمانے میں پلی بڑھی تھیں۔ ایک ہی ادارے نے ہمارے ذہنوں کو جِلا بخشی تھی. وہی اساتذہ تھے جنھوں نے ہم سب کو تعلیم کیا تھا. ہم پانچوں کی عینک کے نمبر ایک سے تھے . اس لیے کئی برسوں کے بعد ایک ساتھ اکٹھے ہونے کے باوجود ہمیں درمیان میں کچھ بھی گزارا ہوا نہیں لگ رہا تھا۔ لیکن ایک زمانہ ہمیں پچھاڑ کے ہمارے اوپر سے گزر چکا تھا ۔ جیسے وقت کہیں دھوپ میں رکھا تھا جو بڑی سرعت سے پگھل گیا تھا۔ ہم کبھی کبھی ایسے بات کر رہے تھے جیسے دس پندرہ سال کی الھڑ لڑکیاں کرتی ہیں، ورنہ بیچ کا زمانہ اور ہماری عمر اب ہمیں بہت سوبر بنا چکا ہے، بلکہ ایسی بے تکلفی اب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا. دلہا دلہن نئے بندھن میں بندھ چکے تھے، وقت انہیں کہاں لے جائے گا۔ ہم سوچ رہے تھے، نئی دنیاؤں کی دریافت میں دلہن کتنا کچھ پیچھے چھوڑ کے جا رہی ہے، اللہ جوڑے کے نصیب اچھے کرے۔

شادی چونکہ گوجرانوالہ میں تھی تو ہمارا سٹیشن آبائی گھر تھا. ایک بھائی اپنی فیملی کے ساتھ ہماری میزبانی کو موجود تھے۔ یہ وہی بھائی تھے جو سکول کے زمانے میں ہم سہیلیوں کے درمیان پیغام رسانی اور کاپی کتاب کا تبادلہ کر دیا کرتے تھے.کبھی کبھی لانے لیجانے کی ذمہ داری بھی انھی کی ہوتی تھی۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے، ہم انھی پرانے وقتوں میں جا پہنچے۔ بھائی نے کہا آپی اتنی جلدی سمے بیت گیا، زندگی چٹکیوں پہ بجی ہو جیسے ۔بھائی نے چٹکی بجائی اور ہمارے دھیان نے بھائی کی چٹکی پکڑ لی۔ گننے بیٹھیں تو درمیان میں کئی برس گزرے ہیں اور ہر برس کی تین سو پینسٹھ دن شمار کریں تو گنتی بھول جاتی ہے۔

سن اسَی میں ابا نے اس آبائی گھر کو نئے سرے سے آباد کیا تھا. تنکا تنکا اکٹھا کر کے گھونسلہ بنا تھا جس میں ہم بچے آباد ہوئے تھے، پروان چڑھے تھے، لکھے پڑھے تھے، جیسے جیسے بچوں کے پر نکلنے لگے، ایک ایک کر کے سب اڑنے لگے. اب والدین کا گھر ایک خالی گھونسلہ لگتا ہے یا ایک اجاڑ سا مسافر خانہ بن کے رہ گیا ہے۔ بچپن کے دوست اور ان کے کھرے آپ کو اسی اسٹیشن پہ ملتے ہیں۔ میکے گھر میں جاتے ہی آپ کو ہری ہری سوجھنے لگتی ہے۔ وہ پرانے پڑوسی یاد آنے لگتے ہیں جن کے ساتھ آپ برسوں رہے تھے. اب ان کے گھر پراپرٹی کی تقسیم کے بعد یا تو بک کے نئے مکینوں کا مسکن ہیں، یا ویران چھتیں اور سونے آنگن بتاتے ہیں کہ پنکھ اگتے ہی پنچھی اڑ چکے ہیں، بوڑھے وجود انتظار کی بھٹی میں بھسم ہوگئے ہیں یا پھر جائیداد کی تقسیم کے رولے پڑ چکے ہیں۔ ہماری اپنی چوتھی منزل پہ ٹوٹے گملوں اور کیاریوں کا اجاڑ سا ڈھیر پڑا تھا جن پہ کبھی گلاب اگتے تھے۔ موتیا کے پھولوں کی چاندنی چٹکتی تھی۔ ایلیفینٹا اور مونسٹیریا سرگوشیاں کرتے تھے اور دو منزلوں کی سیڑھیوں اور جنگلے پہ منی پلانٹ کی ہری بیلیں دوڑتی تھیں۔ اب فقط گلِ دوپہری کے پھول اور گھاس کا جھاڑ جھنکاڑ تھا۔

آبائی شہر میں قدم رکھتے ہی پہلے ہوا کے جھونکے استقبال کو بڑھتے ہیں، پھر سڑکیں اور راستے آپک ی راہ روکتے ہیں. یوں لگتا ہے پیروں کے نیچے مٹی بھی اپنی ہے، قدموں سے لپٹ لپٹ جاتی ہے، سوال کرتی ہے لوٹ آئی ہو، بہت عرصہ لگا دیا آنے میں، ہم برسوں سے تمہاری راہ تک رہے تھے۔ اس خوبصورت احساس سے طویل سفر کی تھکاوٹ اور گرد جھڑ جاتی ہے، آپ کی روح سرشار ہونے لگتی ہے۔ سڑک کے کنارے کنارے انھی دکانوں پہ جن پہ کبھی دادا نے اپنی جان ماری تھی، اب تیسری نسل کاؤنٹر پہ لٹھے کے مائع لگے جوڑے پہن کے بیٹھتی ہے. دادے آسودۂ خاک ہو چکے ہیں. یہاں کے راستے اور موڑ مڑتی گلیاں آپ کے جانے بوجھے ہوتے ہیں. پھر آپ کے تعلیمی ادارے ، پھر بازار , گلیاں, کوچے , چوک, چوبارے ، غرض جوں جوں آگے بڑھتے جائیں، بازگشت سے زعفران زار ہوتے جاتے ہیں، رنگوں کا ایک جہان ہولی کھیلنے لگ جاتا ہے، یہاں تک کہ آ پ کی سواری منزل مقصود پہ پہنچ جاتی ہے. یہاں سے تازہ دم ہوتے ہیں اور آگے اڑان بھر جاتے ہیں۔ بہن بھائی آتے جاتے اپنے آبائی گھر میں اپنے ساتھ لائی سوغاتیں یہاں چھوڑ جاتے ہیں. ہم گئے تو ایک بہن پنجیری بنا کے ڈبہ چھوڑ گئی تھیں، ایک بھائی اچار کا مرتبان رکھ کے گئے تھے، ایک بھائی کمبل ڈلوا گئے تھے، پچھلے سال ایک بھائی ستو اور گڑ رکھ گئے تھے کہ مہمان بن کے آنے والی بیٹیوں کی تواضع کر دیا کرنا ۔

گھر کے ہر ہر کونے سے آپ کی یادیں جڑی ہوتی ہیں. پلر اور دروازے تک بول پڑتے ہیں، چھت کا کوئی گوشہ کوئی کونا ایک دم سے پکار کے کوئی پرانی شرارت یاد دلا کے آپ کے قدموں سے لپٹ جاتا ہے. سیڑھیوں کی گرل کی پٹی نے اکھڑ کے کئی دوپٹے پھاڑے تھے. چھت کے آخری کونے میں سیمنٹ کے چار چار بلاکس پہ ہماری شرارتیں دھری ہیں. ان پہ اونچ نیچ کھیلا کرتے تھے. اینٹ پہ آپ کی شرارتیں رکھی ہیں، ان کھلکھلاتی شرارتوں سے گلے مل کے آپ بچپن میں لوٹ آتے ہیں، کوئی کونا آپ کے دامن کو تھام لیتا ہے کہ مجھ سے مل کے اپنی امانت اٹھا لو ، میں بار سہتے سہتے بوڑھا ہو گیا ہوں۔

پھر زندگی کی یہ ٹرین کسی نامعلوم سٹیشن پہ جاکے اچانک رک جاتی ہے، کبھی واپس نہ آنے کے لیے، اور وہ انتظار کرتے شہر گلیاں محلے گلیارے چوبارے سب کسی نئے اجنبی کی راہ تکنے لگتے ہیں۔ آخری سطریں لکھتے ہوئے احساس ہو رہا ہے کہ بس پلکیں ہی چھپکی تھیں " زندگی چٹکیوں پہ بجی ہو جیسے "

Comments

Avatar photo

زارا مظہر

زارا مظہر گذشتہ دس سال سے پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کا خاصا جانا پہچانا نام ہیں دونوں پہ بیک وقت لکھ رہی ہیں۔ اردو ادب سے بےحد دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے قلم سے آبیاری کرتی ہیں۔ صاحب کتاب مصنفہ ہیں۔ ان کی تصنیف ''دلم'' اپنے معاشرتی موضوعات کی وجہ سے ان کی کتاب ادبی اور عوامی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ مختلف لائیبریریز نے بھی بہ اصرار رکھوائی ہے۔

Click here to post a comment