ہوم << میکے کی کہکشاں - زارا مظہر

میکے کی کہکشاں - زارا مظہر

میکے گھر کے راستے کو کون سی کہکشاں جاتی ہے اور میکے آسمان پہ کون سے چاند سورج ٹکے ہیں جو لڑکیاں بڑھاپے تک میکے کے نام پہ باؤلی ہوئی جاتی ہیں .لکھنے والے میکے کی گلی کے کتے کو بھی سلامیں لکھ لکھ کے نہیں تھکتے .

بس چلے تو میکے کو قبلہ و کعبہ کے بعد درجہ پہ رکھیں سچی بات ہے میکہ بھی اسی کا سگا جس کی سسرال میں چار کوڑی عزت ہے اور اپنی تو دو کوڑی کی بھی نہیں ہے صائمی نے منہ سر لپیٹ کے احتیاط سے پردے جھاڑتے ہوئے ایک بار پھر تپ کے سوچا ۔۔۔۔

میکے میں صائمہ کی سب سے چھوٹی بہن رائمہ کی شادی خانہ آبادی بپا تھی رات کو مہندی کی تقریب تھی گھر میں کاگوں کا سا شور تھا ۔ دیواریں ہنگامہ خیز میوزک سے تھرتھرا رہی تھیں رائمہ کی سہیلیاں فرش توڑے ڈال رہی تھیں اورایک ہجوم کے جمع ہونے سے فرش لس لسا رہے تھے. حالانکہ صائمی دو دفعہ پونچھا لگا چکی تھی ایسی ضرورت تو نہیں تھی .پر وہ تو بے خیالی میں اماں کے ماتھے کی سلوٹوں کو پونچھے لگا رہی تھی کہیں اماں اسے گھر میں بوجھ نہ سمجھیں ۔ کیٹرنگ سروس کے لڑکے جامنی وردیاں پہنے پرانے لال سوہے قالین فرش پہ اور چبھتے پیلے رنگ کے ریشمی پردے دیواروں پہ ٹانگ کے محرابیں بنارہے تھے ۔

تین روز پہلے منجھلی آپا بڑی سی گاڑی میں اپنے لاؤ لشکر سمیت تشریف لائی تھیں تو اماں بچھ بچھ جا رہی تھیں. اماں نے صائمی کو آپا سے بھی ایک دن پہلے بلوا لیا تھا تاکہ وہ کچھ ایسے کام اپنے ذمہ میں لے لے جو اماں ملازمہ سے کروانا نہیں چاہتی تھیں .انہوں نے اسے ہدایت کر دی،
" گیسٹ روم انکے لئے خالی کر کے نئی بیڈ شیٹس ڈال دو ۔ وہ لوگ تھکے ہوئے ہوں گے. بشیراں کو ساتھ لگا کے پردے بھی جھاڑ جھپاڑ لینا ورنہ پردے کے رنر گرا دے گی .سعید کو الرجی ہو گئی تو کاٹ کھانے کو دوڑے گا ."

سعید بھائی لٹھے کے جوڑے میں مزید اکڑے ہوئے لگ رہے تھے .چار بار کھانے میں نقص نکالا کانچ کے گلاس کی چمک میں ماندی نظر آئی تو اسے نمک سے دوبارہ سہ بارہ دھلوایا ۔ اماں منجھلی آپا کاہاتھ تھامے بڑی آپا کی ناوقت موت کا غم غلط کر رہی تھیں. صائمی چپ چاپ خدمت میں جُتی رہی ۔ یوکے سے چچا چچی شادی میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے انہیں ڈرائنگ روم میں ٹھہرایا گیا ۔

تین روز پہلے آکے بھی منجھلی آپا کسی کام میں مدد نہیں کروا رہی تھیں بلکہ کام بڑھا ہی رہی تھیں. شائد یہی مہمان ہوتے ہیں جن کے آنے سے کام بڑھتے ہیں. بیڈ پہ لال مخملی تکیے سے ٹیک لگائے مفت کے مشورے بانٹتے ہوئے گھر کا سب سے معتبر مہمان وہ خود کو ہی سمجھ رہی تھیں. کیونکہ گیٹ پہ سب سے قیمتی گاڑی انہیں کی تھی. مہندی پہ آنے والوں اور رائمہ کی سسرال میں ٹور اسی گاڑی سے بنی تھی اب وہ خراج تو وصولیں گی ۔ گھر میں کوئی اور تو یو کے سے آئے چچا چچی کا ہمسر نہیں تھا یوں تو چچا چچی کو کوئی بھی اپنے برابر کا نہیں لگ رہا تھا .

پھر بھی اماں نے سعید بھائی اور منجھلی آپا کو جھاڑ پھٹک کے فخر سے پیش کر دیا جو چچا چچی کو کمپنی بھی دے رہے تھے. چائے کے مگ بھی سڑکا رہے تھے اور کاموں میں مین میخ نکال کے نخرے بھی دکھا رہے تھے ۔ چچا چچی کب تک اکڑے بیٹھے رہتے انہیں ہی غنیمت سمجھ لیا اور منہ ٹیڑھا کر کے چار جملے انگریزی میں تو ایک اردو میں بول لیتے ورنہ انکی ہمسری پورے پاکستان میں کون کر سکتا تھا ۔

آج مہندی تھی جڑواں چھوٹیاں مائمہ اور ناعمہ بھی کل سے اپنے جنجال پورے سمیت آگئی تھیں. کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، اماں کے جہیز والے بھاری پلنگ انکے قبضے میں تھے ۔ بچوں میں کھلونوں اور سائیکلوں اور بِد کی ٹافی چاکلیٹ کی چھین جھپٹ چل رہی تھی. جگہ جگہ ریپر اور پَنیاں چمک رہی چوں چوں پیں پیں کان کھا رہی تھی ۔ اسی تام جھام کے بیچ میں تینوں منجھلی , مومی اور نومی نے بھاری لفافے اماں کے حوالے کر دیئے صائمی نظریں چرا گئی ۔ رات تمام بہنوں کو پیٹی میں سے فنائل لگے لحاف بسترے نکال کے دینے کے بعد صائمی کے لئے جگہ بچی نہ کمبل.

اس نے چٹختی ہڈیوں کے ساتھ چپ چاپ کونے میں میٹریس ڈال کے اپنا دوپٹہ تان لیا ۔ بشیراں نینی چولہا چوکا سنبھال رہی تھی. برآمدے میں جگہ کہاں بچی تھی دوپہر ڈھل گئی ابھی تک کھانا نہیں کھایا جا سکا .سب فارغ ہوں تو رائمہ سمیت خواتین پارلر کو نکلیں ۔ اماں نے بشیراں کو سب کو جلدی جلدی نمٹانے کی ہدایت کی ۔ بشیراں نینی نے خوب مسالے دار کلیجیاں پوٹیں بھون لی تھیں. ایک ایک بیٹی کے ٹبر کو بٹھا کے کھانا دینے لگی .منجھلی آپا نے ڈائننگ ٹیببل پہ قبضہ جما لیا اور بچوں کو پچکار پچکار کے اصرار کرنے لگیں ۔ یہ کمّی بھی بڑے سمجھدار ہوتے ہیں تاک لیتے ہیں والدین کس اولاد کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں وہ بھی اسے ہی سر پہ بٹھانے لگتے ہیں ۔

منجھلی آپا کا چولہا بند ہونے تک ٹیبل سے اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اسی لئے مومی اور نومی اپنے اپنے میاؤں اور بچوں کو فرشی پہ بٹھا کے کھانا کھلانے لگیں .صائمی اور اسکے تینوں بچوں کے لئے یہاں بھی کچھ نہیں بچا نہ جگہ نہ سالن ۔ تمام بہنوئیوں کے بیچ میں یہ بات صائمی کو اندر سے کاٹنے لگی .اس بے وقعتی پہ اسے شدید رونا آرہا تھا .
"کیا تھا جو باقی دامادوں کی طرح سلیم احمد بھی مجھے سر آنکھوں پہ بٹھاتا تو آج میں بھی میکے میں شہزادی ہوتی ۔"
اسکی آنکھیں بھر آئیں ..... اس شہزادی کے کلیجے میں تیر گڑے تھے ۔

مہندی نپٹ گئی پھر بارات اور ولیمہ بھی ہوگیا .بہنوں نے بھاری لفافوں کے عوض خوب محبتیں اور عزتیں بٹوریں جبکہ صائمی اپنی عزت نفس کو دھتکار کے ان لفافوں کے بھاؤ اپنی جسمانی خدمات سے چکاتی رہی ۔ لیکن اماں کی نظر میں پھر بھی صرف وہی معتبر تھیں.
" کیا فرق ہے مجھ میں اور بشیراں نینی میں ۔ نہیں فرق تو ہے اسے کمی ہونے کے باوجود اس ڈر سے عزت مل رہی تھی کہ کہیں باہر جاکے گھر والوں کی کنجوسی اور تھڑدلی پہ کوئی حرف نہ رکھ دے ۔ "

اس وقت حد ہوگئی جب اماں نے وقتِ رخصت منجھلی اور مومی نومی کو مٹھائی کے بڑے بڑے ڈبے دئیے اور صائمی کو شاپر میں ہی چند ٹکڑے لپیٹ دیئے ۔ سلیم احمد کی زہریلی اور کاٹتی جتاتی نظروں سے صائمی کا ضبط پھٹ پڑا. وہ من کے ٹکڑے جوڑتی اور من من بھر کے ہی قدم اٹھاتی بچوں کا ہاتھ تھام کے سب سے پہلے بائیک کے ساتھ آ کھڑی ہوئی ۔ اماں نے بالکل پرواہ نہیں کی نہ اس زیادتی پہ بہنوں نے آواز اٹھائی. اماں کو بھی پتہ تھا ہفتے دو بعد کسی شدید ضرورت کے تحت صائمی نے خود ہی سے پھر آجانا ہے سو انہوں نے اس کے خالی ہاتھ جانے کی بالکل پرواہ نہیں کی ۔

Comments

Avatar photo

زارا مظہر

زارا مظہر گذشتہ دس سال سے پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کا خاصا جانا پہچانا نام ہیں دونوں پہ بیک وقت لکھ رہی ہیں۔ اردو ادب سے بےحد دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے قلم سے آبیاری کرتی ہیں۔ صاحب کتاب مصنفہ ہیں۔ ان کی تصنیف ''دلم'' اپنے معاشرتی موضوعات کی وجہ سے ان کی کتاب ادبی اور عوامی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ مختلف لائیبریریز نے بھی بہ اصرار رکھوائی ہے۔

Click here to post a comment