ہوم << بے وفا رہ گیا - عرفان علی

بے وفا رہ گیا - عرفان علی

دوستوں کا لقب ، بے وفا رہ گیا
میرے پاس میرا خدا رہ گیا
پوچھتے ہیں سبھی کیا ہوا تجھے
کہتا ہوں اب اکیلا رہ گیا
تعین نہ کرسکا فریبیوں کو
اس لیے مار کھاتا رہ گیا
مٹ تو گیا ہے زخم مگر
باقی نشاں جُڑا رہ گیا
عمر بھر کا درد دے کر
کہا، تُو بے وفا...بے وفا رہ گیا
وہ بادِصَبا کا اک جھونکا تھا
عزیز نشاں ماضی کا رہ گیا