جب دنیا بھر کی سیاست بیوروکریسی یا بیرونی مفادات سے جڑی ہوئی اشرافیہ کے ہاتھوں میں سمٹی دکھائی دیتی ہے، تو مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان کیپٹن ان تمام روایتوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ ابراہیم تراورے، برکینا فاسو کے 36 سالہ عبوری صدر، نے ستمبر 2022 میں اس وقت اقتدار سنبھالا جب ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اُس وقت کے رہنما پال ہینری سانڈاگو ڈامیبا کو ہٹا دیا گیا۔ آج تراورے صرف افریقہ میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں خودمختاری، بیداری، اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان کا چرچا روز بروز بڑھ رہا ہے۔ انسٹاگرام سے ٹوئٹر (ایکس) تک، ان کی تقاریر، عوامی منصوبے، اور نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کی کوششوں پر مبنی ویڈیوز لاکھوں صارفین کو متاثر کر رہی ہیں۔ ان کے نام سے جڑے ہیش ٹیگز عالمی رجحانات کا حصہ بن چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ابراہیم تراورے ہیں کون، وہ ایسا کیا مختلف کر رہے ہیں، اور آخر دنیا ان پر اتنی توجہ کیوں دے رہی ہے؟
ابراہیم تراورے ایک جرات مند اصلاح پسند کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ ان کا وعدہ تھا کہ وہ ملک میں سلامتی بحال کریں گے، قومی وقار کو بلند کریں گے، اور برکینا فاسو کو حقیقی معنوں میں خودمختار بنائیں گے۔ اب تک کے اقدامات اس وعدے کی سچائی کی جھلک دکھاتے ہیں۔ انہوں نے صرف الفاظ نہیں بلکہ عملی پالیسیاں اپنائی ہیں جن کا مقصد غریب اور پسے ہوئے عوام کو مرکز میں لانا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے دو سو مساجد تعمیر کرنے کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے ترقی، تعلیم، اور صحت پر زور دیا اور کہا کہ "ہمیں مزید مساجد نہیں، بلکہ ترقی کی ضرورت ہے"۔ ان کے اس واضح موقف نے انہیں کئی حلقوں میں پسندیدگی دلائی اور کچھ حلقوں میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا، لیکن وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔
انہوں نے پورے تعلیمی نظام کو فیس سے آزاد کر دیا، پرائمری سے یونیورسٹی تک تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا۔ سرکاری اسپتالوں میں زچگی کو مفت کر دیا گیا تاکہ ماؤں کی شرح اموات میں کمی آئے اور صحت کی سہولت ہر کسی کی دسترس میں ہو۔ کمزور اور بے گھر افراد کے لیے حکومتی تعاون سے مکانات کی فراہمی کا منصوبہ بھی جاری ہے۔ ان تمام پالیسیوں کا مقصد صرف امداد نہیں بلکہ وقار کے ساتھ جینے کا حق دینا ہے۔
ٹیکنالوجی اور خود انحصاری کے میدان میں بھی برکینا فاسو نے پہلا سولر پاور سے چلنے والا مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹرک وہیکل متعارف کرایا، جسے چینی کمپنیوں کے تعاون سے تیار کیا گیا۔ یہ علامت ہے کہ ملک صرف ماضی کے زخم نہیں سہلا رہا، بلکہ مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ثقافتی بیداری بھی تراورے کی حکومت کا اہم جز ہے۔ برکینا فاسو کی عدالتوں میں اب وکلاء یورپی طرز کی وگس اور گاؤنز کی بجائے افریقی لباس میں پیش ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ صرف علامتی نہیں بلکہ اس سوچ کی عکاسی ہے کہ ثقافت کو خود اعتمادی کے ساتھ اپنانا ہی اصل آزادی ہے۔ ہم جنس شادی پر پابندی کا اعلان، جسے انہوں نے "روایتی افریقی اقدار کے تحفظ" کے طور پر بیان کیا، دنیا بھر میں مختلف آراء کو جنم دے چکا ہے۔ کچھ اسے ثقافتی خودمختاری کہتے ہیں، جبکہ کچھ حلقے اسے انسانی حقوق کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات میں بھی تراورے ایک نیا رخ دکھا رہے ہیں۔ برکینا فاسو نے فرانس اور امریکہ سے فاصلہ اختیار کر کے روس کے ساتھ دفاع، تعلیم، اور ترقیاتی شعبوں میں شراکت داری قائم کی ہے۔ ملک میں روسی افریقی کور کے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں تاکہ ممکنہ بغاوتوں یا تخریب کاری کی کوششوں سے نمٹا جا سکے۔ ساتھ ہی، مالی اور نائجر کے ساتھ مل کر ایک نیا مالیاتی اتحاد قائم کیا گیا ہے تاکہ سی ایف اے فرانک سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے جو اب بھی فرانسیسی خزانے سے جڑا ہوا ہے۔
ان اقدامات کے نتیجے میں برکینا فاسو کے وہ ماہرین، انجینئرز، اور سائنسدان جو بیرون ملک مقیم تھے، واپس آ کر ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ نئے STEM اسکول، روس کے ساتھ علمی تعاون، اور سائنسی ترقی کی نئی راہیں ملک کو خطے میں ایک جدت انگیز مرکز بنانے کی طرف گامزن کر رہی ہیں۔
تجزیاتی سطح پر دیکھا جائے تو تراورے کا ابھار صرف ایک مقامی انقلاب نہیں بلکہ براعظم افریقہ میں ازسرِ نو شعور کی بیداری ہے۔ ان کی قیادت کو کچھ لوگ کوامی نکرومہ، تھامس سنکارا، اور پیٹریس لوممبا کی فکری وراثت کا تسلسل سمجھتے ہیں، جو ایک آزاد اور متحد افریقہ کا خواب دیکھتے تھے۔ دنیا کے کئی خطے اب ایک کثیر قطبی عالمی نظام کی جانب بڑھ رہے ہیں، جہاں مغرب کا غلبہ تنقید کی زد میں ہے اور نئی شراکت داریاں عالمی سفارتکاری کو نئی جہت دے رہی ہیں۔
بعض حلقے تراورے کو ایک ولولہ انگیز رہنما مانتے ہیں جو افریقہ کو بااختیار بنا رہے ہیں، جبکہ کچھ انہیں ایک سخت گیر فوجی حکمران تصور کرتے ہیں جن کی پالیسیاں ملک کو تنہائی میں دھکیل سکتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کی شخصیت نے دنیا کو متوجہ کیا ہے اور افریقہ کے نوجوانوں کو ایک نئی امید دی ہے۔
حال ہی میں ایک اور ممکنہ بغاوت کی افواہوں کے بعد دنیا بھر میں تراورے کے حق میں مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ گھانا، گیمبیا، برطانیہ، اور امریکہ سمیت کئی ممالک میں عوام سڑکوں پر نکلے اور ان کے خلاف کسی بھی سازش کے خلاف آواز بلند کی۔ کچھ پوسٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ لوگ خود ان کے قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہیں تاکہ ان کی حفاظت کر سکیں۔ یہ سیاست نہیں، بلکہ عوامی طاقت کی علامت ہے۔
ابراہیم تراورے صرف برکینا فاسو کے صدر نہیں بلکہ ایک نئے افریقی عہد کی علامت بن چکے ہیں۔ ان کی خود اعتمادی، بیباکی، اور روایت شکن سوچ نے عالمی سیاسی منظرنامے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ لیکن طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اندرونی استحکام، بین الاقوامی دباؤ، اور طویل مدتی قیادت کے امتحان میں کیسے پورا اُترتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ افریقہ دیکھ رہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے، اور ابراہیم تراورے سب کی توجہ کا مرکز ہیں۔
تبصرہ لکھیے