یہ ہوائیں اس کے لہجے سے اونچا شور جب کرتی ہوں گی
اس کے سننے والوں کو تو یہ ہوائیں بھی چبھتی ہوں گی
تمھارے ہمسائے گھر میں باغیچے لیے پھرتے ہیں
تمھاری کتابیں تو پھولوں سے مہکتی ہوں گی
تیری زلفوں کے زیر اثر یہ کالی گھٹائیں یہ بادل کی چھائوں
اور تیری نظروں سے شرما کہ بجلیاں جو چمکتی ہوں گی
یوں بھی تو اے ہیر میری کئی لوگ مرتے ہیں آپ پر
وہ تو مر ہی جاتا ہوگا جس پر آپ مرتی ہوں گی
یہ ہونٹوں کی لالی یہ سرخی تواتر جاتی ہوگی
میرے نام کو جب آپ چومتی ہوں گی
تم بہت نازک ہو ہاتھوں پہ ظلم کرتی ہو
اتار دو چوڑیاں یہ تمہارے ہاتھوں پہ لگتی ہوں گی
محرم نا محرم کے کھیل میں یہ پردے کی ضد
مجھے جنت کا کہہ کر آپ حوروں سے جلتی ہوں گی
میری توبہ میری توبہ میری توبہ خدا سنبھالے اس دل کو
یہ ذرا سا مچلا تو آپ بھی ساتھ دوزخ میں چلتی ہوں گیا
اس تاریکی میں چھت پہ زلفیں لہراتی آپ
دور سے دیکھ کر تو چڑیل لگئی ہوں گی
تبصرہ لکھیے