ہوم << گریٹر بنگلہ دیش خواب، خوف یا ضرورت- سلمان احمد قریشی

گریٹر بنگلہ دیش خواب، خوف یا ضرورت- سلمان احمد قریشی

ڈھاکہ یونیورسٹی میں حال ہی میں ایک ترک حمایت یافتہ گروہ "سلطنتِ بنگلہ" کی طرف سے تقسیم کیا گیا نقشہ جنوبی ایشیا کی سیاست میں نہ صرف ایک نئی بحث کا آغاز ہے بلکہ خطے کے پرانے زخموں کو بھی کریدنے کی ایک دانستہ یا نادانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے۔ اس نقشے میں میانمار کی اراکان ریاست کے ساتھ ساتھ بھارت کی متعدد ریاستیں بہار، جھاڑکھنڈ، اڑیسہ، اور پورا شمال مشرقی علاقہ"گریٹر بنگلہ دیش" کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

اگرچہ اس اقدام کو ایک غیر ریاستی تنظیم کی نظریاتی سرگرمی سمجھا جا سکتا ہے، مگر یہ محض ایک غیر سنجیدہ یا خیالی خاکہ نہیں۔ اس نقشے کے پیچھے ایک تاریخی تسلسل، تہذیبی اشتراک، اور سیاسی محرکات کارفرما ہیں، جنہیں سمجھے بغیر اس مسئلے کی گہرائی تک پہنچنا ممکن نہیں۔

بنگال کی تقسیم اور قوم پرستی کا ارتقاء اس
تاریخ کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

1905 میں انگریز وائسرائے لارڈ کرزن نے جب بنگال کی پہلی تقسیم کی تو اس کا جواز یہ تھا کہ مشرقی بنگال کے مسلم اکثریتی علاقوں کو انتظامی طور پر علیحدہ کرکے بہتر حکمرانی ممکن بنائی جا سکے۔ مگر ہندو قوم پرستوں اور کانگریس نے اسے مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دے کر ایک منظم تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے دباؤ میں آ کر 1911 میں تقسیم واپس لی گئی۔
یہی واقعہ برصغیر کے مسلمانوں میں اس احساس کو اجاگر کرنے کا سبب بنا کہ ان کے مذہبی، لسانی اور معاشی مفادات ہندو اکثریت سے مختلف ہیں۔ یہی احساس آگے چل کر قیامِ پاکستان کی بنیاد بنا۔ مشرقی بنگال، جو بعد ازاں مشرقی پاکستان کہلایا، قیام پاکستان کے بعد بھی مکمل ہم آہنگ نہ ہو سکا۔ لسانی اختلافات، ترقیاتی عدم توازن اور سیاسی محرومی نے آہستہ آہستہ علیحدگی کی بنیادیں رکھیں۔

شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ قوم پرستی کے نام پر عوام کو متحرک کیا، مگر بھارت کی کھلی مدد اور فوجی مداخلت کے بعد جب 1971 میں بنگلہ دیش وجود میں آیا تو یہ سوال اُٹھا کہ کیا یہ نئی ریاست واقعی آزاد ہے یا بھارت کے زیر اثر؟ مجیب نے بھارت کے ساتھ دوستی کا معاہدہ (Indo-Bangladesh Treaty of Friendship, 1972) کیا، جو بظاہر باہمی تعاون کے لیے تھا، مگر درحقیقت بھارت کے اسٹریٹجک مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنا۔

رفتہ رفتہ بنگلہ دیش کی اقتصادی، دفاعی اور خارجہ پالیسیوں پر بھارت کا اثر نمایاں ہوتا گیا، جس کے خلاف عوامی سطح پر بے چینی بڑھنے لگی۔ شیخ مجیب کے قتل کے بعد بنگلہ دیش نے وقتی طور پر بھارت سے فاصلہ اختیار کیا، مگر حسینہ واجد کے برسراقتدار آنے کے بعد دوبارہ وہی پالیسی اپنائی گئی۔بھارت،بنگلہ دیش تعلقات دوستی نہیں بھارتی بالادستی کی پالیسی ثابت ہوئی۔
حسینہ واجد کے دور میں بھارت سے تعلقات اگرچہ رسمی طور پر خوشگوار بتائے جاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تعلقات توازن سے خالی ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ بنگلہ دیش کو ایک "چھوٹے بھائی" کے طور پر دیکھا ہے۔ اہم تنازعات میں بھارت نے بنگلہ دیش کے مفادات کو مسلسل نظرانداز کیا۔

تیستا آبی معاہدہ دہائیوں سے تعطل کا شکار ہے۔ بنگلہ دیش کے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے مگر بھارت اپنے ریاستی اختلافات (خصوصاً مغربی بنگال کی مخالفت) کا بہانہ بنا کر معاہدہ کرنے سے گریزاں ہے۔
تجارت کا عدم توازن بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔ بھارت کو بنگلہ دیش کی برآمدات بہت کم ہیں جبکہ بھارتی مصنوعات بنگلہ دیشی مارکیٹ پر حاوی ہیں، جس سے مقامی صنعت متاثر ہو رہی ہے۔
بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس (BSF) کی جانب سے بارڈر پر بنگلہ دیشی شہریوں کے قتل کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں، جن پر بھارت معذرت تک نہیں کرتا۔

شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور NRC سے بھارت کی متنازعہ پالیسیوں سے بنگلہ دیش میں یہ تاثر ابھرا کہ بھارت ایک ہندو ریاست بن رہا ہے اور مسلمانوں کو دیس نکالا دیا جا رہا ہے۔
ان سب حقائق نے بنگلہ دیشی عوام کے دلوں میں یہ سوال ضرور پیدا کر دیا ہے کیا بھارت واقعی ہمارا دوست ہے، یا صرف اپنے مفادات کا محافظ ہے؟
"گریٹر بنگلہ دیش" کا تصور بظاہر غیر حقیقی اور سیاسی لحاظ سے ناقابلِ عمل ہے، مگر اس کے پیچھے جو احساسات ہیں، وہ حقیقی ہیں۔ آسام میں بنگالی بولنے والی مسلم آبادی، اراکان میں روہنگیا مسلمان، اور بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکیں اس نظریے کو خام مواد فراہم کرتی ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ جواب واضح ہے نہیں۔ بھارت کی عسکری طاقت، چین کا خطے میں کردار، میانمار کی سیاسی پیچیدگیاں، اور عالمی قوتوں کی جیو پولیٹیکل ترجیحات اس منصوبے کو خواب تک محدود رکھتی ہیں۔
تاہم، یہ خواب دراصل اس ذہنی دباؤ اور عدم تحفظ کا عکاس ہے جس میں بنگلہ دیش خود کو محسوس کرتا ہے۔ایک ایسی ریاست جو بھارت کے زیر اثر ہونے کے باوجود اپنے لیے ایک خودمختار شناخت کی تلاش میں ہے۔پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نیا آغاز ہورہا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارت کی مسلسل بالادستی کے خلاف بنگلہ دیش میں اب پاکستان کے ساتھ خاموش مگر پائیدار قربت ابھرتی جا رہی ہے۔ ماضی کی تلخیوں کے باوجود نئی نسل پاکستان کے ساتھ دوستانہ جذبات رکھتی ہے۔ پاکستانی ڈرامے، فیشن، کرکٹ اور ثقافت بنگلہ دیشی معاشرے میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔

سفارتی سطح پر بھی دونوں ممالک میں برف پگھل رہی ہے۔ تجارت، ویزا پالیسی، اور عوامی رابطوں کے حوالے سے بہتری کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ تعلق صرف ماضی کی تلخیوں کو دفن کرنے کی کوشش نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی کے مقابل ایک قدرتی توازن قائم کرنے کی ضرورت کا اظہار بھی ہے۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ
ممکنہ منظرنامہ کیا ہونے جا رہا ہے؟اگر بھارت اپنی جارحانہ اور بالا دستی پر مبنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کرتا تو ممکن ہے کہ خطے میں نئی صف بندیاں شروع ہوں۔ چین، پاکستان، ایران اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی بھارت کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ خود بنگلہ دیش کی قیادت میں تبدیلی اگر حسینہ واجد کے بعد بھارت مخالف یا خودمختار پالیسی رکھنے والے رہنما کو اقتدار میں لاتی ہے تو "گریٹر بنگلہ دیش" جیسے تصورات مزید تقویت حاصل کر سکتے ہیں، چاہے وہ عملی شکل نہ اختیار کریں۔

"گریٹر بنگلہ دیش" کا نقشہ صرف ایک کاغذی خاکہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے مسلم تشخص، ریاستی خودمختاری، اور طاقت کے غیر منصفانہ توازن کے خلاف ایک فکری مزاحمت ہے۔ یہ سوال بنگلہ دیشی قوم کے سامنے ہے کہ وہ بھارت کی چھتری تلے اپنے تشخص کو مٹنے دے یا ایک آزاد اور باوقار ریاست کے طور پر کھڑے ہونے کی جدوجہد کرے۔
پاکستان کے لیے بھی یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کر بنگلہ دیش کے ساتھ برابری، عزت، اور تعاون پر مبنی نئے تعلقات کی بنیاد رکھی جائے۔تاکہ جنوبی ایشیا کو جنگ، تقسیم اور بالا دستی سے نکال کر امن، شراکت اور خودمختاری کی طرف لے جایا جا سکے۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment