حجِ بیت اللہ کا سفر بظاہر مقدس مقامات کی زیارات سے قلب و نظر کی تسکین اور ایک اسلامی فریضے کی ادائیگی ہے، مگر اسے معاشرتی تفوّق و مُفاخرت کا وسیلہ، نیکی و پارسائی کی ملمع کاری کا طریقہ، اور امورِ دنیا کی قباحتوں اور خباثتوں کی ڈھال بنالیا گیا ہے۔ مگر حقیقتاً یہ اہلِ ایمان کا ہی اعزاز، افتخار اور امتیاز ہے کہ وہ ادائیگیِٔ حج کے ذریعے اللہ کی رضا طلبی کے نادر و وقیع موقع سے مستفید ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے گئے طریقوں کے مطابق پورے اخلاص و احتیاط کے ساتھ حج ادا کرنے والے کو متعدد بشارتوں سے نوازا ہے، جن میں سب سے دلآویز بشارت یہ ہے کہ بندۂ مومن گناہوں اور خطاؤں سے یوں پاک و صاف ہوجاتا ہے، جیسے وہ پہلی بار اپنی ولادت کے روز، پاک و صاف اور معصوم حالت میں دنیا میں آیا۔
حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے، جبکہ باقی عبادات کی ادائیگی مسلسل تادمِ حیات مطلوب ہے۔ یوں حج کو عبادات میں خصوصی اہمیت، فضیلت اور جامعیت کا درجہ حاصل ہوا اور اس کے متعدد انفرادی، اجتماعی، ملّی اور روحانی اثرات، نتائج و فوائد نہ صرف اہلِ ایمان بلکہ عالمِ انسانی پر مرتب ہونے کا سلسلہ جاری ہوا۔
قرآن حکیم نے اسے ۔۔ مُبارَکاً و ھُدیً للعالَمین۔۔ دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کے لیے باعثِ برکت و ہدایت۔۔ قرار دیا۔ اس کی روحانی و مادی برکات اور آخرت کی زندگی کے لیے زادِ راہ، تقویٰ، طہارت اور رضائے الٰہی کے حصول کے ذریعہ ہونے کی حیثیت کسی بھی طور نہ اہلِ ایمان سے مخفی ہے اور نہ عالمِ انسانی اس کے مثبت اثرات سے کبھی محروم رہا ہے۔ سفرِ حجِ بیت اللہ سفرِ فلاح بھی ہے اور وسیلۂ عرفان بھی۔
بندۂ مومن اگر نصیحت کے جذبے، عبرت کی آنکھوں اور بصیرت کے پیمانوں کے ساتھ اس سفرِ حج کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا عزم و ارادہ کرے تو علوم و معارف کے بے شمار پہلو اور اسرار و رموزِ حیات اس کے سامنے آشکار ہوں گے، اور اگر وہ اجر و ثواب کے شمار میں مصروف رہے ، تو شاید اُسے اس کا وسیع ذخیرہ کرلینے کی سعادت تو حاصل ہوجائے، جو یقیناً اس کی اُخروی زندگی کے لیے زادِ راہ بن جائے گا، مگر اسے اپنی دنیا کو بابرکت، باوقار اور محترم بنانے کے لیے کچھ لائحہ عمل ممکن ہے نہ مل سکے۔ اللہ کا تو بندۂ مومن کے لیے کلیدی راہنما نکتۂ حیات یہی ہے کہ اس کی دنیا بھی بہتر رہے اور آخرت بھی۔ ’’فِی الدُنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ‘‘۔
اہلِ ایمان کو سفر حج میں چار ہستیوں سے خوب متعارف ہونا چاہیے۔ اُن کے مقام و مرتبے، اُن کے اختیار و اقتدار اور بندۂ مومن کی زندگی میں اُن کے غالب و حاوی اثرات کا عرفان و شعور اور آگاہی سفرِ حج کا بنیادی مقصد قرار دیا جاسکتا ہے۔
ان میں سے پہلی مقتدر ہستی اللہ عزوجل کی ہے جو یقینی طور پر ساری کائنات کا مالک، خالق، متصرّف اور مدبّر و منتظم ہے۔ کائنات کی کوئی بھی مخلوق اس سے بے نیاز اور مستغنی نہیں ہوسکتی۔ جس اللہ پر ایمان والے غائبانہ ایمان رکھتے ہوں، اسے محض ایمانی تقاضے کے مطابق اپنا خدا اور معبود تسلیم کرتے ہوں، سفرِ حج میں قدم قدم پر اُس کے ساتھ براہِ راست مربوط ہوتے ہیں۔ اُس کے جلال و جمال اور شان و شوکت کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ اُس کی کارفرمائی کا قریب سے مطالعہ کرتے ہیں۔ اُس کی توحید اور لاشریک ذات کا بچشمِ خود معائنہ کرتے ہیں۔ لاکھوں انسانوں کی زبانوں سے ادا ہونے والا نغمۂ توحید ۔۔۔’’لبّیک اللّھم لبّیک، لبّیک، لاشریک لک لبّیک‘‘ ۔۔۔نہ صرف بندگانِ خدا کے قلب و روح پر اثرانداز ہوتا ہے، بلکہ انہیں اللہ کی عظمت و جلالت کے سامنے جھکنے اور اس کا اقرار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ۔۔۔’’اِنّ الحمدَ والنِعمۃَ لک و المُلک‘‘ ۔۔۔ تمام تر حمد و ثنا اے باریِ الٰہ صرف اور صرف تیرے ہی لیے ہے۔ سب بخشش و عطا تیری ہے۔ تیرا ہی ملک ہے، تیری ہی کائنات ہے، تیرا ہی اختیار و اقتدار ہے۔۔۔ ’’لا شریک لک‘‘۔۔۔ل بلاشبہ تُو واحد و یکتا، بے مثل و بے مثال ہے۔ تیرا کوئی شریک نہ ہوسکتا ہے، نہ ہے۔ اللہ کی قوت و عظمت، توحید و سطوت بندگانِ خدا کو اُس کے سامنے ہی سرِ تسلیم خم کرنے اور اُسی سے خوف کھانے اور اُسی کے تابع فرمان رہنے کے راستے کا شعور دیتے ہیں۔ ’’فالھکم الہ واحد فلہ اسلموا‘‘ اسی ایک خدا، معبود اور رب کے سامنے جھک جائو۔ اسی کا خوف دلوں میں جاگزیں کرلو۔’’اتقوا اللہ واسلموا‘‘ اس کی تابع داری اس لیے بھی کہ ’’الیہ تحشرون‘‘ تم سب کو بالآخر جواب دہی کے لیے اور اپنے دنیوی عقائد، افکار و اعمال کے اجر و ثواب اور سزا کے لیے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔
بندۂ مومن اس رب کی ذاتِ عالی کا شعور و عرفان حاصل کرکے، خود کو اس کے سامنے سجدہ ریز کرکے، اس کے حکم، مشیت اور قدرت کا تابع قرار دے کر اس کے ساتھ سفرِ حج کے دوران والہانہ تعلق قائم کرتا ہے۔ اپنے وجود، آرام، خوراک، کپڑے، ناخن، بال، صفائی اور دیگر ضروریات سے بے نیاز ہوکر پوری یکسوئی، دلجمعی، مضبوطی اور اخلاص کے ساتھ اس کے عشق میں تڑپتا اور تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا ہے۔ وہ اس کی حمد کا ترانہ الاپتا رہتا ہے، اس کے گھر کا طواف کرتا ہے، اس کے خلیل ابراہیمؑ کی سنتوں اور وفاداریوں کی یاد تازہ کرتا ہے، اس کی بارگاہ میں دعا، مناجات کرتا، الحاح و زاری کرتا، عجز و نیاز کا اظہار کرتا، اپنے گناہوں، خطائوں پر آنسو بہاتا، معافی مانگتا اور مغفرت طلب کرتا ہے۔ اللہ کے مقام و مرتبے کا شعور و ادراک کرکے اپنی گزشتہ زندگی کی بے عملیوں سے توبہ کرکے صراطِ مستقیم پر چلنے کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا عزم دہراتا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل، سجدے، دعا، تسبیح، مناجات، طواف، تلبیہ، قربانی وسعی سے اپنے مالک، محسن و منعم کو منانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ عرفانِ الٰہی بندۂ خدا میں ذکرِ الٰہی کا درد جگاتا ہے۔ وہ مناسکِ حج کے دوران اور بعد میں اپنے ماں باپ اور اولاد کی یاد سے بڑھ کر یاد کرنے لگتا ہے۔ ’’فاذا قضیتم مناسککم فاذکروا اللہ کذکرکم آباءکم أو اشد ذکرا‘‘
ذکرِ الٰہی کی یہ کیفیات اس کی زبان اور دل سے بڑھ کر اس کی روح اور جسم پر حاوی اور طاری ہوتی ہیں۔ وہ اپنا وجود، گھربار، کاروبار، اولاد، عزیز و اقارب، دنیاوی جاہ و حشم، مفادات سب ترک کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور کامل یکسوئی کے ساتھ اس کی عبادت و بندگی کرنا چاہتا ہے۔ اسے دنیا کی الجھنوں، خوف، مسائل و مشکلات سے چھٹکارے کا احساس، اور اس کے دل کو عجیب طرح کی سکینت و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس کا دل بار بار تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ خود کو اُن لوگوں میں شامل اور اُن کا مصداق سمجھنے لگتا ہے، جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے: (ترجمہ) ’’جب اللہ کی یاد آتی ہے تو ان کے دل بے قرار ہوجاتے ہیں۔ جب قرآن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان دو چند ہوجاتا ہے اور انہیں سب دنیاوی سہاروں کو ترک کرکے اللہ پر اپنے توکل، یقین اور دین و دنیا کے ہر معاملے میں بے پناہ اعتماد کی روشنی ملتی ہے‘‘۔ اللہ کی حمد و ثنا، اس کے ذکر، اس کے ساتھ دعا و مناجات، اس کے حضور سجود و رکوع میں مشغول رہنے والا یہ مسافرِ حرم اب امامِ حرم کی تلاوت کو خوب سمجھنے لگتا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا جاتا ہے۔ یہ سارا ماحول اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ قول و عمل کے ہر انداز میں اللہ کے ساتھ مضبوط رابطہ استوار کرے اور کسی دکھلاوے کے بغیر پورے اخلاص و یقین کے ساتھ ’’آمَنوا آمِنوا‘‘ اور ’’اتقوا اللہ حق تقتہٖ‘‘ اور ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ کی قرآنی تعلیمات کو کماحقہٗ اپنی عملی زندگی کے نشانِ منزل کے طور پر اپنالے۔
سفرِ عرفان کی دوسری ہستی، راہبر و رہنما، آقا و مولا، رحمت عالم، سرورِ دو جہاں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہے۔ سفرِ حج کی اصل رہنما ہستی بھی یہی ہے۔ نہ صرف سفرِ حج، بلکہ سارے سفرِ حیات کا قائد و راہبر بھی یہی نام ہے۔ محبت و اطاعت کرنے والوں کی ساری کائنات یہی ہستی ہے۔ ان کی ساری آبرو اور دین و دنیا کی بھلائی، کامیابی اور فوز و فلاح کا نشان اسی ہستی کے نقوشِ حیات اور اسوۂ عمل ہیں۔ حج کی ساری فضیلتیں، برکتیں، رحمتیں، سارے مناسک، سارے مقامات، سارے اعمال و افعال اسی ذات پاک کے بتائے ہوئے، سمجھائے ہوئے اور کرکے دکھائے ہوئے ہیں۔ یہی اللہ کے فرستادے ہیں۔ اللہ کی ہستی سے متعارف کرانے، اس پر ایمان کے تقاضے سمجھانے اور اس کی بشارتوں سے آگاہ کرنے والے بھی یہی ہیں۔ ان پر ایمان، ان سے محبت، ان کی اطاعت کے بغیر نہ تو اللہ پر ایمان مکمل ہوسکتا ہے اور نہ دنیا و عقبیٰ محفوظ رہ سکتی ہے، نہ زندگی کے راستے واضح ہوسکتے ہیں، نہ آخرت کا زادِ راہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔
سفرِ حج اس عظیم، مہربان اور بابرکت ہستیؐ کے دامانِ رحمت سے وابستہ ہونے، اُنؐ کی رسالت پر کامل ایمان لانے، اُنؐ کی ہر تعلیم اور حکم کی بلاچوں و چرا، حیل و حجت، لیت و لعل اطاعت کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔ اُنؐ کی ہر سنت کی پاسداری کا شعور بھی اسی سفرِ حج میں بدرجۂ اُتم پیدا ہوتا ہے۔ اُنؐ کے اسوۂ حسنہ کا اتباع بھی نتیجہ خیز ہوتا ہے، اس ذات والاتبارؐ کی ہستی، مقام، مرتبت کا شعور جہاں اُنؐ کی اتباع پر مجبور کرتا ہے وہیں اُنؐ کی ذاتِ عالی شان کے بے پناہ ادب واحترام کے تقاضوں کو بھی قلب و ذہن میں واضح کرتا ہے، اور پھر اُنؐ کی حرمت کی پاسداری کا درس بھی دیتا ہے۔ اُنؐ کی بارگاہ میں حاضری، اُنؐ کے حضور درود و سلام کے نذرانے دل، جسم، عقل، روح کو اُنؐ کا شیدا بنادیتے ہیں اور بندۂ مومن کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اُنؐ کی شفاعت کی تمنا کرے اور اُنؐ کی بارگاہ میں درخواست گزارے اور خود کو اُنؐ کی شفاعت کے لائق بنانے کا عزم کرے۔
ایک اور نہایت محترم ہستی جس سے تعارف، شخصیت سے آگاہی اور اس کے خلوص و للہیت سے آشنائی اس سفرِ حج کے دوران حاصل ہوتے ہیں، وہ سیکڑوں انبیا کے باپ، جدِّامجد رسولِ ہاشمیؐ، توحید و وفاداری، اخلاص و یکسوئی اور خدا شناسی کی لازوال شخصی مثال جناب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذاتِ مبارک ہے۔ دنیا کے قدیم و جدید متعدد ادیان کے سرخیل، بتوں کی گردنوں پر حق کی کاری ضرب لگانے والے، مظاہرِ کائنات پر غور و فکر کے ذریعے معبودِ حقیقی اور ربِ واحد کی پہچان کرانے والے، دنیا کے ہر رشتے، ہر تعلق، ہر مفاد و مصلحت سے بے نیاز ہوکر بندۂ مومن کے لیے کامل یکسوئی، اخلاصِ عقیدہ و عمل کا راستہ دکھانے والے، بندوں کو زمین و آسمان کے خالق اور مدبر و منتظم کے حضور لاکھڑا کرنے والے سیدنا ابراہیمؑ، اللہ کے دوست، خلیل اللہ، دینِ حنیف کے بانی، حنفاء کے سالارِ کارواں، نوجوانوں کے لیے نشانِ عمل، جو انتشارِ فکری اور افتراقِ عملی کا شکار ہوں، اپنے رب کی پہچان کرکے، اس پر ایمان لاکر اپنی ساری زندگی، اپنے فکر و عمل کے ہر زاویے کو اس کے سپرد کردینے کی مثال و نمونہ بننے والے… انہیں زندگی کا مقصد، شعور اور بہترین استعمال سمجھانے والے۔ ’’ان صلاتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العٰلمین‘‘ یہ سجدے و رکوع، تسبیح و تہلیل، حمد و ثنا، یہ مناسکِ حج اور مراسمِ عبودیت، حتیٰ کہ زندگی پوری کی پوری اور موت کی منزل… سب اللہ ہی کے لیے، اُس کی بندگی کے مظاہر، اُس سے وفاداری، محبت، اُس کے ساتھ اخلاص و وفا کے ذرائع، ابراہیم علیہ السلام، خلیلِ الٰہی، اللہ سے محبت، اخلاص اور وفا کی راہ میں بے شمار قربانیاں دے کر تاقیامت انسانیت کے لیے واجب الاتباع، سنتوں، واجب الاختیار راستوں کے راہ نما، سفرِ حج کے قدم قدم پر انہی کے نقوشِ پا کی پیروی حج کی مقبولیت کی ضامن ہے۔
یہ کعبہ جو انہی کے ہاتھوں تعمیر ہوا۔ یہ مقامِ ابراہیم جہاں طواف کی تکمیل کے بعد دو رکعت نوافل ادا کیے بغیر طواف نامکمل۔ یہ صفا و مروہ جہاں ان کی وفا شعار اہلیہ کی اطاعتِ الٰہی اور ممتا کی بے قراری کی یاد میں ہر مرد و زن مسلمان، زائر حرم اور عازم حج کو اسی جذبے اور کیفیت کے ساتھ مسعٰی کے چکر لگانا لازم ہے، اور یہ جانور کی قربانی، سنتِ ابراہیمی کی لازوال پاس داری کا مظہر، اتنی بڑی، اتنی جاندار اور شاندار قربانی یقیناً تاریخ انسانی میں ان سے پہلے اور بعد کسی نے نہ دی ہوگی۔ اپنے آقا و مولا کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم ختم کردینے کا ایسا بے مثال مظاہرہ انبیا و رسل کے عظیم مرتبوں پر فائز باپ بیٹے کے سوا کر بھی کون سکتا ہے!
آزمائشوں میں ثابت قدمی بھی ابرابیم علیہ السلام کی شخصیت کا ایمان افروز پہلو ہے۔ اپنے ہی سربراہِ خاندان آذر کے سائے اور بتوں کے درمیان پلنے بڑھنے والے کی پوری طاقت اور بے خوفی سے اور مدلل مخالفت، آباو اجداد کی رسمِ بت پرستی سے بغاوت، ہوائوں کے مخالف چلنے کی عادت، بت شکنی کی پہلی جرأت، اپنے ہی چچا کی گھر سے نکالے جانے اور شدید سزائوں کی دھمکیاں، حاکمِ وقت سے دلیل و حجت میں جرأت مندانہ کردار اور اعلانِ توحیدِ الٰہی کی پاداش میں آتشِ نمرود کی بسر و چشم قبولیت۔ اللہ کے حکم پر اہلیہ اور دودھ پیتے بچے کو وادیِ غیر ذی زرع میں لا بسانے کی بے مثل اطاعت اور اسی بچے کو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اللہ کے حکم پر قربان کرنے کے محض خواب کی عملی تعبیر… یہ سب وہ فخر ہیں جو اس عظیم ہستی کو ہی حاصل ہوئے، اور اس لازوال کردار نے انہیں اپنے خدا کا دوست اور اس کے بندوں کا محبوب بنادیا۔ اسے محض ایک انسان نہیں ’’ان ابراہیم کان امۃ قانتا للہ حنیفاً‘‘ ایک پوری امت کے مصداق قرار دیا۔ مسافرانِ حرم کے لیے اللہ کے ساتھ مخلصانہ، حنیفانہ اور مجاہدانہ تعلق، شرک سے پاک اور توحید کے تقاضوں اور عملی راہوں سے آگاہی کی پہچان و شعور… انہی ابراہیم حنیف کی ذاتِ بابرکات کے تعارف و پیروی سے مشروط ہے۔ اس عرفان سے بندۂ مومن کو یہ فخر بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملتِ ابراہیمی کا قابلِ قدر فرد ہے اور اِسی راستے کا مسافر ہے جو اسے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی منزلوں کی طرف لے کر جاتے ہیں۔
یہ پہچان تھی اُن تین ہستیوں کی، جن کی محبت ایمان اور فوزِ عظیم کی ضمانت ہے، جس کی طلب و تلاش میں بندۂ مومن سفرِ حج کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ اب ذکر ہے اُس ہستی کا جس سے نفرت و عداوت کا ہر اظہار ایمان کی سلامتی اور عقبیٰ کی فلاح اور دنیا کی کامرانی کی شرطِ اوّل ہے۔ ’’ان الشیطن لکم عدو‘‘ شیطان جو کبھی بارگاہِ الٰہی کا مقبول و محبوب کردار تھا، اپنی بغاوت، نافرمانی، حسد، اَنا،ضد، غرور، تکبر کی بھینٹ چڑھا، اور کائنات کا سب سے مبغوض کردار قرار پایا۔ اس کے ساتھ نفرت اہلِ ایمان پر لازم قرار دی گئی۔ سفرِ حج میں اس کے گھنائونے کردار اور خدا دشمنی کے مظاہر، اس کی چالوں اور جالوں سے آگاہی، اس کی کھلی، چھپی عداوتوں کا عرفان، سفرِ حج کا اہم مقصد ہے۔ اس سے نفرت کا عملی اظہار وہ واحد عمل ہے، جو سفرِ حج کے مناسک و اعمال میں تین بار سر انجام دیا جاتا ہے۔ منیٰ کے وسیع و عریض میدان میں ہر قسم کے بڑے، چھوٹے شیطان پر سنگ باری کرکے اس سے نفرت کے اظہار کے بغیر حج نامکمل رہتا ہے۔
اللہ و رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق شیطان انسان کا اور خدا کا بدترین دشمن ہے۔ اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے اور مختلف انداز سے انسان کی فطرت، عادت، مزاج اور نفسیات کے مطابق اسے اپنی چالوں میں پھانس کر خدا اور رسولؐ کی اطاعت اور فوز و فلاح کے راستے سے بھٹکانا اُس کا مشن ہے، جس سے اُس نے واضح الفاظ میں خبردار و آگاہ کررکھا ہے۔ کبھی اُسے دنیا کی زندگی کی زیب وزینت، آسائش و آرائش میں الجھا کر، کبھی دولت و ثروت، کبھی اختیار و اقتدار، کبھی اولاد کی محبت اور کبھی اس کے اپنے نفس کی سرکشی و بغاوت کو اس پر حاوی کرکے، کبھی دنیا کی لذتوں کا شکار بناکر، کبھی مختلف عصیبتوں کو جگاکر، کبھی جدتِ فلسفہ و نظریے کا سبق دے کر، کبھی وقت کے تقاضوں کا اسیر بناکر، کبھی دین کو دقیانوسی خیالات و نظریات قرار دے کر، کبھی سامنے آکر، کبھی خیالات و افکار پر مسلط ہوکر، آگے پیچھے ہر جانب سے اُس کی رگوں میں دوڑتے خون میں شامل ہوکر، اور سب سے مؤثر و خطرناک دین داری کا لبادہ اوڑھ کر، تشکیک، تفریق، خودستائی اور شدت پسندی کے راستوں کو اصل دین کا روپ دے کر اہلِ ایمان کے درمیان باہم نفرتیں، تعصبات، فرقہ پرستی اور دین داری کے جاہلانہ مظاہر میں سرگرم عمل کرکے ان کی وحدت، اخوت و محبت اور باہمی خیر خواہی کے جذبوں اور اعمال کو شدید ضرب لگاتا ہے۔
اللہ کا حکم ہے: شیطان اللہ و رسول کا بھی دشمن ہے۔ بندگانِ خدا کا بھی شدید دشمن ہے۔ لہٰذا اسے خوب اچھی طرح پہچانو۔ ’’فاتخذوہ عدوا‘‘ اسے دوست نہیں، اپنا دشمن بنائو۔ اس کے ہر ہتھکنڈے، ہر چال اور ہر فریب سے خود کو بچائو، اور اس کی پیروی نہ کرو۔ ’’ولا تتبعوا خطوت الشیطن انہ لکم عدو مبین‘‘ شیطان سے اور اس کے مذموم عزائم سے آگاہ ہوکر اس کے ساتھ دشمنی کا عزم کرلینے والوں پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ اپنے اندر کے شیطان کا ادراک بھی کریں، اسے بھی پہچانیں۔ اپنے اندر کے رذائل اخلاق، غرور و تکبر، اَنا، ضد، تعصب، باہمی نفرت و حقارت، خودغرضی، لالچ، دنیا سے محبت اور کثرتِ مال کی خواہش اور ایسے ہی بے شمار شیطانی رویوں کا قلع قمع کرنے کا داعیہ، عزم اور ہمت اپنے اندر پیدا کریں۔ اگر یہ باطنی شیطان اس کے اپنے وجود، دل، ذہن اور اعمال میں پنپتے رہیں، تو پھر ظاہراً شیطان کو کنکریاں مارنے کا نہ کوئی فائدہ ہے نہ اجر و ثواب۔
سفرِ عرفان کی ایک اہم مرکزی شخصیت خود زائرِ حرم کی ہے۔ جب تک وہ اس مقدس سفر میں خود کو ان ماقبل مذکور ہستیوں کے مقابل کھڑا کرکے، اپنی ذات کو نہیں جانتا، نہیں پہچانتا، اُس کے اِس سفر کی وقعت اور قدر و قیمت ادھوری رہے گی۔ اس سفر میں بندۂ مومن اپنے ایمان و عمل کے تجزیے سے پہلے اپنی ذات کا شعور و عرفان حاصل کرتا ہے، اسے قوت و اختیار کے سرچشمے اور حقیقی معبود و مسجود، محسن و منعم کی بندگی کا شعور ملتا ہے۔ اس کی پراگندہ فکر اور بھٹکے ہوئے اندازِ عمل کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ وہ خود کو بے پناہ خدائی صفات سے متصف واحد رب کی ربوبیت اور بندگی کے حصار میں محفوظ پاتا ہے۔ اس کا یقین، توکل و انحصار اس پر مضبوط ہوتا ہے۔ اسے یہ عرفان نصیب ہوتا ہے کہ وہ اِس دنیا میں بے مقصد نہیں بھیجا گیا۔ اس کی حیاتِ مستعار لہو ولعب اور دنیاوی کھیل تماشوں اور اس کی چکاچوند اور دلفریب ادائوں پر قربان اور ان کا اسیر ہونے کے لیے نہیں، بلکہ اس کی زندگی کے ہر لمحے، ہر سوچ اور عمل کا مرکز و محور اللہ کی ذات، اس کے دین کے غلبے و نفاذ کی جدوجہد ہے۔ وہ اس کائنات میں خلیفۃ اللہ، اللہ کا نائب ہے۔ وہ اللہ کی ساری مخلوقات میں سے بہترین، اشرف اور اکمل ہے۔ وہ یہاں حق کا داعی ہے اور باطل کا دشمن ہے۔ اس کا استیصال اور غلبۂ حق اور ابلاغِ حق ہی اس کا مشن اور زندگی کا مقصود ہے۔ وہ اس کائنات میں امن و سلامتی کے دین کا پیامبر ہے۔ اسے اپنے کردار، عمل اور ناصحانہ و مشفقانہ رویوں کے ساتھ انسانیت کو ظلم و جبر، بدامنی اور بے بندگی کی دلدل سے نکالنا اور ’’السلام۔ المومن‘‘ سراپا خیر و سلامتی، رب رحمٰن و رحیم کے حضور لاکھڑا کرنا اور اس کی پہچان کرانا ہے۔ اس کے بندوں کو اُن کے حقیقی خالق و مالک، معبود، محسن، مربی و منعم کے سائبانِ بندگی، سامانِ رحمت سے ہم کنار کرنا ہے۔
زائر حرم۔ بندۂ مومن کو اس سفرِ عرفان میں یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک بہترین، امتِ وسط کا انتہائی قیمتی اور کارآمد فرد ہے۔ وہ ملّتِ اسلامیہ کے مقدر کا ستارہ ہے۔ وہ مکلّف ہے دیگر انسانوں کو اس ملتِ واحدہ کے ساتھ جوڑنے کا۔ اس کی ترقی، اس کے فکر و فلسفہ اور نظریے کی تبلیغ و اشاعت کا ذمہ دار ہے۔ وہ انسانیت کے ساتھ اپنی اور معاشرے کے ہر طبقے، اپنے زیر کفالت لوگ، اپنے اعزا و اقربا، اپنے ماتحت افراد، اپنی اولاد و اہل خانہ، اپنے زیر اثر لوگ، سب کی اصلاح، رہنمائی، ہمدردی، نصیحت اور ان کے ساتھ تعاون علی البر۔ نیکی کے کاموں میں بھرپور تعاون اور برائی کے ہر کام کے سدباب۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے، اور اسے یہ کام بہرطور زندگی کے آخری لمحے تک کرتے رہنا ہے۔
مسافرِ حرم کے شعورِ ذات کا دوسرا مرحلہ اس کا اپنی ذات کو اٹھانا اور دنیا کی پستیوں سے بلند کرنا… بلند مقاصد، بلند اعمال، بلند نظریات کی سطح تک اونچا کرنا ہے۔ رفعتِ ذات کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ نے صرف اسی کو نہیں، بلکہ ہر بنی آدم کو بے پناہ عزت و تکریم کے لائق سمجھا۔ ’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘ اسے مسجود ملائک بنایا۔ اسے علم کے بے شمار پہلوئوں سے مالا مال کیا، اسے اپنی ہر مخلوق سے بڑھ کر حیران کن صلاحیتیں، قوتیں عطا فرمائیں۔ اور خیالات و تصورات اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی مختلف صورتوں سے آگاہ کیا، اور یہ انسان، یہ بندۂ مومن اتنا بڑا، اتنا عظیم اور اتنا وقیع و معتبر و محترم اس کائنات میں بنادیا گیا کہ ’’سخرلکم ما فی السمٰوٰت ومافی الارض‘‘ زمین و آسمان کی ہرقوت، ہر خزانہ، ہر چیز اس کے لیے مسخر کردی گئی۔ اب وہ کبھی آسمان کی نقب لگاتا ہے، تو کبھی ہوائوں میں اڑتا ہے۔ کبھی ذروں کو ایٹم میں تبدیل کرتا، کبھی زمین، پہاڑ اور سمندر کے خزانوں کو نکال لاتا ہے۔ کس قدر باعثِ ذلت و ندامت ہے کہ اس قدر وسائل، صلاحیتوں اور عزتوں کا مالک انسان اپنے خدا کو بھلا دے، اپنی راہِ حیات کو گم کر بیٹھے، زندگی کے مقصد و شعور سے محروم رہے اور اپنے نفس اور باہر کے شیطان کا غلام بن کر ’’اسفل السافلین‘‘ کی پستیوں تک جاپہنچے۔ ایسی بلندی اور رفعتوں کا کیا فائدہ جہاں پہنچ کر اور جس کا حامل ہوکر بھی انسان بے بندگی کی شرمندگیوں اور ذلتوں کا شکار رہے!
مسافرِ حرم کے لیے عرفانیات کا ایک پہلو شعورِ ذات، اثباتِ ذات اور رفعتِ ذات کے ساتھ احتسابِ ذات کا بھی ہے۔ اس سفرِ عرفان میں اسے اپنی فکر و عمل اور اپنی ذات کا تجزیہ و محاسبہ کرنے کے بے شمار مواقع ملتے ہیں۔ وہ کس قدر اپنے آقا و مولا سے آگاہ، اس سے مربوط، اس کے احکامات و مرضیات سے آگاہ ہے۔ بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلم و مومن اُس نے اپنے رب سے کون کون سے عہد و پیمان باندھ رکھے ہیں۔ اس کے رب نے اس پر کون کون سے احسان اس کی تخلیق، نشوونما، تشکیل، تصویر اور ربوبیت و دستگیری اور ہدایت و رہنمائی کی صورت کیے ہوئے ہیں۔ اس کی اپنے آقا و مولا، راہبر و راہنما، اپنے محبوب رسولِ خداؐ سے تعلق کی نوعیت اور محبت کی کیفیت کیا ہے؟ محض زبان سے محبت اور دل دنیا کی کشش اور عمل نفس اور شیطان کے تابع ہے، یا وہ سچا عاشقِ رسول ہے؟ ان کی ذات، ان کی تعلیمات، اسوہ، احکام و فرائض کا دیوانہ ہے یا محض ان کی زلفوں، ان کے شہر کی گلیوں اور ان کی ذات سے منسوب تبرکات کا مداح اور ان کی لفظی نعت کا خوگر؟ اللہ و رسول کے احکام اور دین اور قرآن کی تعلیمات کے مقابلے میں اس کی فکر و عمل کا کیا حال ہے؟ اس کی ترجیحات و مفادات کیا ہیں اور کس کے تابع ہیں؟ اپنے نفس کے غلام یا اللہ و رسول کے فیصلوں کے زیر اثر ترتیب پاتے ہیں؟
اس زائر حرمین کو سفرِ حج کے دوران موقع ملتا ہے کہ اپنی زندگی کے تضادات، کوتاہیوں اور خامیوں کو خوب اچھی طرح جانچے، ان کا ادراک کرے اور اصلاح کا عزم و ارادہ، بلکہ سفرِ حج کے اختتام سے پہلے ان کے ترک کا مصمم طریقہ اپنائے۔ سفرِ حج بندۂ مومن کو اس حقیقت سے بار بار باخبر کرتا ہے کہ لوگوں کا حساب کتاب قریب ہے۔ اس کا وقت کسی بھی لمحے آیا چاہتا ہے۔ اس بندے کو سفرِ حج کے دوران بے شمار لوگوں کو اپنے رب کے پاس لوٹتے، پلٹتے اور مٹی میں دفن ہوتا دیکھ کر غالب احساس ہوتا ہے کہ وہ غفلت سے نکل آئے اور اپنی موت، اللہ کے حضور لازمی پیشی اور آخرت کی زندگی کے لیے تیاری کو بقیہ زندگی کی ترجیح اول قرار دے۔
اور جب مسافرِ حرم عرفانِ ذات کے اس سنگِ میل کو بھی پار کرلیتا ہے، تو نفیِ ذات کے حتمی پڑائو اور آخری منزل پر پہنچ کر فنا فی اللہ، فنا فی الرسول، فنا فی الدین ہوجاتا ہے۔ اس کی ذات کا غرور، تکبر، اَنا، خود پرستی دم توڑ دیتے ہیں۔ اس کے دماغ میں پلنے والے خدائی، بڑائی اور فرعونیت، معاشرتی تفوق و امتیاز، نسلی تعصبات، اپنی دولت، طاقت اور اقتدار کے گھمنڈ زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ اس کے ذہن سے شعوب و قبائل کے افتخار، پیشے اور مالی حیثیت کے خمار اتر جاتے ہیں۔ وہ سارے امتیازات و تفاخر بھلا کر تقویٰ کے بلند ترین معیار اور مطلوب راستوں کا شعوری انتخاب کرتا ہے۔ وہ اس حقیقت سے ہم کنار ہوتا ہے کہ کلکم ادمَ و ادمُ من تراب
وہ کسی خود ساختہ معاشرتی اسٹیٹس کا بندہ نہیں، بلکہ ایک آدم کی اولاد اور ایک بڑی اکائی کا حصہ ہے۔ جس کی ساخت، تشکیل و ترتیب کسی اور مادے سے نہیں بلکہ مٹی سے کی گئی ہے، اور بالآخر اسے اس مٹی کے اندر دفن ہونا اور پھر یہیں سے دوبارہ ابدی زندگی کے لیے اٹھایا جانا اور کسی امتیاز و اعزاز اور پروٹوکول کے بغیر میدانِ حشر میں جواب دہی کے لیے پیش کیا جانا لازمی اور حتمی حقیقت ہے، جس سے کوئی مفر ہے نہ دوسرا راستہ، نہ چھٹکارے کا کوئی وظیفہ، نہ عوضانے کا کوئی طریقہ۔ اب اس مرحلے پر نہ اس کی جسمانی وجاہت کام آئے گی، نہ معاشرتی حیثیت، نہ دولت کے انبار، نہ آل اولاد، نہ دوست احباب، نہ رشتے دار اور نہ ہم نشین وہم جلیس سوائے حسنِ عمل کے، جس کے بارے میں اللہ کا قرآن پکار پکار کر دہائی دیتا ہے ولتنظر نفس ماقدمت لغد۔ لوگو اپنے آنے والے کل اور مستقل زندگی کے لیے ابھی کچھ تیاری کرلو۔ کچھ زادِ راہ اکٹھا کرلو۔ کل کام آنے والی کرنسی اور حشر کے میدان میں استعمال ہونے والے سکّے بھی جمع کرلو۔ اور وہ سوائے ’’تقویٰ‘‘ کے اور کچھ نہیں۔ ’’فان خیر الزاد التقویٰ‘‘
سفرِ حج کے دوران بندۂ مومن عرفانِ رب، عرفانِ محبوب، عرفانِ راہنما، عرفانِ ذات کے ان مراحل سے گزرتے ہوئے بڑے خلوص، سچائی، دیوانگی، وارفتگی اور خود فراموشی کے زیر اثر اللہ کی کبریائی کے ترانے گاتا ہے، اس کی بارگاہ میں سجود و رکوع میں مصروف، اس کے گھر کے والہانہ طواف، اس کی حمد و ثنا کے جذبوں سے معمور، سعی کے چکر پورے کرتا ہے۔ اپنی ذات، مقام و مرتبہ اور معاشرتی حیثیت کو بھلاکر عرفات کے میدان میں دست بہ دعا رہتا، منیٰ کے خیموں میں ذکرِ الٰہی میں مشغول، تحمل و برداشت کا، ایثار و قربانی اور اخوت و محبت ِ عالمگیر کا مجسمہ بنتا ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر مزدلفہ کے میدان میں سنگریزوں پر رات گزارتا اور اس کے حکم کی تعمیل میں جمرات کے شیاطین سے نفرت کا اظہار و اقرار کرتا ہے۔
اس سفرِ عرفان و شعور کے دوران زائرِ حرمین پر کئی حقیقتیں بھی آشکار ہوتی ہیں، جو اس کے علم و عرفان کی جِلا کا باعث بنتی ہیں۔ اسے اللہ کی عظمت و جلالت کا پختہ یقین ہوتا ہے۔ اسے رسولؐ کی رسالت کو ہمہ پہلو مشعلِ راہ بنانے کا عزم ملتا ہے۔ صحابہ کرام کی زندگیوں اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے رسولؐ اور ان کے اصحاب رضون اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں اور جہد ِ مسلسل و پیہم کے نقوش اور خطوط میسر آتے ہیں۔ اسے ایک لباس میں ملبوس لاکھوں انسانوں کے اجتماع سے ملّتِ اسلامیہ کی وحدت و یک جہتی کا پیغام ملتا ہے، اور خود کو اس امت کا مؤثر و کارگر حصہ بننے کا شعور حاصل ہوتا ہے۔
بندۂ مومن کی اس سفر نصیب میں مقصد ِ حیات کے شعور کے ساتھ بندگی، وراثتِ رسول کی پاسداری، غلبۂ حق کی جدوجہد میں فیصلہ کن شرکت اور خدمتِ انسانیت کے ساتھ اپنے نفس، فکر و عمل کے تزکیہ، تطہیر اور تعمیر کے راستے واضح اور عمل کے زاویے عطا ہوتے ہیں۔ اب جو مسافرِ حرم ، دل کی آنکھوں اور دماغ کے دریچوں کو کُھلا اور عقل کو ان کے تابع بنائے رکھے، اس کے لیے تو یہ سفر، سفرِ عرفان، سفرِ نصیب، سفرِ برکت و رحمت قرار پاتا ہے، اور جو شعور و آگہی کے ان سرچشموں تک پہنچ کر بھی چند گھونٹ اپنی روح اور قلب و نظر کے لیے حاصل نہ کرسکے، اس سے بدنصیب آخر اور کون ہوسکتا ہے!
تبصرہ لکھیے