کو اس سفرِ عرفان میں یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک بہترین، امتِ وسط کا انتہائی قیمتی اور کارآمد فرد ہے۔ وہ ملّتِ اسلامیہ کے مقدر کا ستارہ ہے۔ وہ مکلّف ہے دیگر انسانوں کو اس ملتِ واحدہ کے ساتھ جوڑنے کا۔ اس کی ترقی، اس کے فکر و فلسفہ اور نظریے کی تبلیغ و اشاعت کا ذمہ دار ہے۔ وہ انسانیت کے ساتھ اپنی اور معاشرے کے ہر طبقے، اپنے زیر کفالت لوگ، اپنے اعزا و اقربا، اپنے ماتحت افراد، اپنی اولاد و اہل خانہ، اپنے زیر اثر لوگ، سب کی اصلاح، رہنمائی، ہمدردی، نصیحت اور ان کے ساتھ تعاون علی البر۔ نیکی کے کاموں میں بھرپور تعاون اور برائی کے ہر کام کے سدباب۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے، اور اسے یہ کام بہرطور زندگی کے آخری لمحے تک کرتے رہنا ہے۔
مسافرِ حرم کے شعورِ ذات کا دوسرا مرحلہ اس کا اپنی ذات کو اٹھانا اور دنیا کی پستیوں سے بلند کرنا… بلند مقاصد، بلند اعمال، بلند نظریات کی سطح تک اونچا کرنا ہے۔ رفعتِ ذات کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ نے صرف اسی کو نہیں، بلکہ ہر بنی آدم کو بے پناہ عزت و تکریم کے لائق سمجھا۔ ’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘ اسے مسجود ملائک بنایا۔ اسے علم کے بے شمار پہلوئوں سے مالا مال کیا، اسے اپنی ہر مخلوق سے بڑھ کر حیران کن صلاحیتیں، قوتیں عطا فرمائیں۔ اور خیالات و تصورات اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی مختلف صورتوں سے آگاہ کیا، اور یہ انسان، یہ بندۂ مومن اتنا بڑا، اتنا عظیم اور اتنا وقیع و معتبر و محترم اس کائنات میں بنادیا گیا کہ ’’سخرلکم ما فی السمٰوٰت ومافی الارض‘‘ زمین و آسمان کی ہرقوت، ہر خزانہ، ہر چیز اس کے لیے مسخر کردی گئی۔ اب وہ کبھی آسمان کی نقب لگاتا ہے، تو کبھی ہوائوں میں اڑتا ہے۔ کبھی ذروں کو ایٹم میں تبدیل کرتا، کبھی زمین، پہاڑ اور سمندر کے خزانوں کو نکال لاتا ہے۔ کس قدر باعثِ ذلت و ندامت ہے کہ اس قدر وسائل، صلاحیتوں اور عزتوں کا مالک انسان اپنے خدا کو بھلا دے، اپنی راہِ حیات کو گم کر بیٹھے، زندگی کے مقصد و شعور سے محروم رہے اور اپنے نفس اور باہر کے شیطان کا غلام بن کر ’’اسفل السافلین‘‘ کی پستیوں تک جاپہنچے۔ ایسی بلندی اور رفعتوں کا کیا فائدہ جہاں پہنچ کر اور جس کا حامل ہوکر بھی انسان بے بندگی کی شرمندگیوں اور ذلتوں کا شکار رہے!
مسافرِ حرم کے لیے عرفانیات کا ایک پہلو شعورِ ذات، اثباتِ ذات اور رفعتِ ذات کے ساتھ احتسابِ ذات کا بھی ہے۔ اس سفرِ عرفان میں اسے اپنی فکر و عمل اور اپنی ذات کا تجزیہ و محاسبہ کرنے کے بے شمار مواقع ملتے ہیں۔ وہ کس قدر اپنے آقا و مولا سے آگاہ، اس سے مربوط، اس کے احکامات و مرضیات سے آگاہ ہے۔ بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلم و مومن اُس نے اپنے رب سے کون کون سے عہد و پیمان باندھ رکھے ہیں۔ اس کے رب نے اس پر کون کون سے احسان اس کی تخلیق، نشوونما، تشکیل، تصویر اور ربوبیت و دستگیری اور ہدایت و رہنمائی کی صورت کیے ہوئے ہیں۔ اس کی اپنے آقا و مولا، راہبر و راہنما، اپنے محبوب رسولِ خداؐ سے تعلق کی نوعیت اور محبت کی کیفیت کیا ہے؟ محض زبان سے محبت اور دل دنیا کی کشش اور عمل نفس اور شیطان کے تابع ہے، یا وہ سچا عاشقِ رسول ہے؟ ان کی ذات، ان کی تعلیمات، اسوہ، احکام و فرائض کا دیوانہ ہے یا محض ان کی زلفوں، ان کے شہر کی گلیوں اور ان کی ذات سے منسوب تبرکات کا مداح اور ان کی لفظی نعت کا خوگر؟ اللہ و رسول کے احکام اور دین اور قرآن کی تعلیمات کے مقابلے میں اس کی فکر و عمل کا کیا حال ہے؟ اس کی ترجیحات و مفادات کیا ہیں اور کس کے تابع ہیں؟ اپنے نفس کے غلام یا اللہ و رسول کے فیصلوں کے زیر اثر ترتیب پاتے ہیں؟
اس زائر حرمین کو سفرِ حج کے دوران موقع ملتا ہے کہ اپنی زندگی کے تضادات، کوتاہیوں اور خامیوں کو خوب اچھی طرح جانچے، ان کا ادراک کرے اور اصلاح کا عزم و ارادہ، بلکہ سفرِ حج کے اختتام سے پہلے ان کے ترک کا مصمم طریقہ اپنائے۔ سفرِ حج بندۂ مومن کو اس حقیقت سے بار بار باخبر کرتا ہے کہ لوگوں کا حساب کتاب قریب ہے۔ اس کا وقت کسی بھی لمحے آیا چاہتا ہے۔ اس بندے کو سفرِ حج کے دوران بے شمار لوگوں کو اپنے رب کے پاس لوٹتے، پلٹتے اور مٹی میں دفن ہوتا دیکھ کر غالب احساس ہوتا ہے کہ وہ غفلت سے نکل آئے اور اپنی موت، اللہ کے حضور لازمی پیشی اور آخرت کی زندگی کے لیے تیاری کو بقیہ زندگی کی ترجیح اول قرار دے۔
اور جب مسافرِ حرم عرفانِ ذات کے اس سنگِ میل کو بھی پار کرلیتا ہے، تو نفیِ ذات کے حتمی پڑائو اور آخری منزل پر پہنچ کر فنا فی اللہ، فنا فی الرسول، فنا فی الدین ہوجاتا ہے۔ اس کی ذات کا غرور، تکبر، اَنا، خود پرستی دم توڑ دیتے ہیں۔ اس کے دماغ میں پلنے والے خدائی، بڑائی اور فرعونیت، معاشرتی تفوق و امتیاز، نسلی تعصبات، اپنی دولت، طاقت اور اقتدار کے گھمنڈ زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ اس کے ذہن سے شعوب و قبائل کے افتخار، پیشے اور مالی حیثیت کے خمار اتر جاتے ہیں۔ وہ سارے امتیازات و تفاخر بھلا کر تقویٰ کے بلند ترین معیار اور مطلوب راستوں کا شعوری انتخاب کرتا ہے۔ وہ اس حقیقت سے ہم کنار ہوتا ہے کہ
کلکم ادمَ و ادمُ من تراب۔
وہ کسی خود ساختہ معاشرتی اسٹیٹس کا بندہ نہیں، بلکہ ایک آدم کی اولاد اور ایک بڑی اکائی کا حصہ ہے۔ جس کی ساخت، تشکیل و ترتیب کسی اور مادے سے نہیں بلکہ مٹی سے کی گئی ہے، اور بالآخر اسے اس مٹی کے اندر دفن ہونا اور پھر یہیں سے دوبارہ ابدی زندگی کے لیے اٹھایا جانا اور کسی امتیاز و اعزاز اور پروٹوکول کے بغیر میدانِ حشر میں جواب دہی کے لیے پیش کیا جانا لازمی اور حتمی حقیقت ہے، جس سے کوئی مفر ہے نہ دوسرا راستہ، نہ چھٹکارے کا کوئی وظیفہ، نہ عوضانے کا کوئی طریقہ۔ اب اس مرحلے پر نہ اس کی جسمانی وجاہت کام آئے گی، نہ معاشرتی حیثیت، نہ دولت کے انبار، نہ آل اولاد، نہ دوست احباب، نہ رشتے دار اور نہ ہم نشین وہم جلیس سوائے حسنِ عمل کے، جس کے بارے میں اللہ کا قرآن پکار پکار کر دہائی دیتا ہے ولتنظر نفس ماقدمت لغد۔ لوگو اپنے آنے والے کل اور مستقل زندگی کے لیے ابھی کچھ تیاری کرلو۔ کچھ زادِ راہ اکٹھا کرلو۔ کل کام آنے والی کرنسی اور حشر کے میدان میں استعمال ہونے والے سکّے بھی جمع کرلو۔ اور وہ سوائے ’’تقویٰ‘‘ کے اور کچھ نہیں۔
’’فان خیر الزاد التقویٰ‘‘۔
سفرِ حج کے دوران بندۂ مومن عرفانِ رب، عرفانِ محبوب، عرفانِ راہنما، عرفانِ ذات کے ان مراحل سے گزرتے ہوئے بڑے خلوص، سچائی، دیوانگی، وارفتگی اور خود فراموشی کے زیر اثر اللہ کی کبریائی کے ترانے گاتا ہے، اس کی بارگاہ میں سجود و رکوع میں مصروف، اس کے گھر کے والہانہ طواف، اس کی حمد و ثنا کے جذبوں سے معمور، سعی کے چکر پورے کرتا ہے۔ اپنی ذات، مقام و مرتبہ اور معاشرتی حیثیت کو بھلاکر عرفات کے میدان میں دست بہ دعا رہتا، منیٰ کے خیموں میں ذکرِ الٰہی میں مشغول، تحمل و برداشت کا، ایثار و قربانی اور اخوت و محبت ِ عالمگیر کا مجسمہ بنتا ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر مزدلفہ کے میدان میں سنگریزوں پر رات گزارتا اور اس کے حکم کی تعمیل میں جمرات کے شیاطین سے نفرت کا اظہار و اقرار کرتا ہے۔
اس سفرِ عرفان و شعور کے دوران زائرِ حرمین پر کئی حقیقتیں بھی آشکار ہوتی ہیں، جو اس کے علم و عرفان کی جِلا کا باعث بنتی ہیں۔ اسے اللہ کی عظمت و جلالت کا پختہ یقین ہوتا ہے۔ اسے رسولؐ کی رسالت کو ہمہ پہلو مشعلِ راہ بنانے کا عزم ملتا ہے۔ صحابہ کرام کی زندگیوں اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے رسولؐ اور ان کے اصحاب رضون اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں اور جہد ِ مسلسل و پیہم کے نقوش اور خطوط میسر آتے ہیں۔ اسے ایک لباس میں ملبوس لاکھوں انسانوں کے اجتماع سے ملّتِ اسلامیہ کی وحدت و یک جہتی کا پیغام ملتا ہے، اور خود کو اس امت کا مؤثر و کارگر حصہ بننے کا شعور حاصل ہوتا ہے۔
بندۂ مومن کی اس سفر نصیب میں مقصد ِ حیات کے شعور کے ساتھ بندگی، وراثتِ رسول کی پاسداری، غلبۂ حق کی جدوجہد میں فیصلہ کن شرکت اور خدمتِ انسانیت کے ساتھ اپنے نفس، فکر و عمل کے تزکیہ، تطہیر اور تعمیر کے راستے واضح اور عمل کے زاویے عطا ہوتے ہیں۔
اب جو مسافرِ حرم ، دل کی آنکھوں اور دماغ کے دریچوں کو کُھلا اور عقل کو ان کے تابع بنائے رکھے، اس کے لیے تو یہ سفر، سفرِ عرفان، سفرِ نصیب، سفرِ برکت و رحمت قرار پاتا ہے، اور جو شعور و آگہی کے ان سرچشموں تک پہنچ کر بھی چند گھونٹ اپنی روح اور قلب و نظر کے لیے حاصل نہ کرسکے،
اس سے بدنصیب آخر اور کون ہوسکتا ہے!
تبصرہ لکھیے