ہوم << "فطرت نہیں، عادتیں بدلیں: انسان کی حقیقی تبدیلی کا راز- خدیجہ طیب

"فطرت نہیں، عادتیں بدلیں: انسان کی حقیقی تبدیلی کا راز- خدیجہ طیب

انسان کی شخصیت محض چہرے کا عکس نہیں، بلکہ وہ اندرونی کائنات کا ایک زندہ مظہر ہے۔ یہ شخصیت دراصل دو بنیادی عناصر کے امتزاج سے جنم لیتی ہے: فطرت اور عادت۔
"ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔" (صحیح بخاری 1358، صحیح مسلم 2658)

اس حدیث کا مفہوم:
یہ حدیث انسان کی فطرت کی حقیقت کو بیان کرتی ہے۔ ہر انسان کو اللہ نے فطری طور پر اپنی طرف مائل ہونے کی صلاحیت دی ہے۔ یعنی اس کی فطرت میں اللہ کی واحدیت اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی قدرت رکھی ہے۔ لیکن یہ فطری رجحان، ماحول اور تربیت کے اثرات سے بدل سکتا ہے۔ والدین، معاشرہ اور ماحول وہ قوتیں ہیں جو انسان کی فکر اور طرزِ زندگی کو شکل دیتی ہیں۔

فطرت (Fitrah) کا مفہوم

فطرت وہ خالص طبیعت ہے جو انسان کے اندر اللہ نے رکھی ہے۔ یہ فطری رجحانات انسان کو اپنی تخلیق اور مقصد کے بارے میں گہری سمجھ فراہم کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی جانب جھکنے کا قدرتی میلانات ہیں، جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے:

"اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پشت سے ان کی نسل کو نکالا اور ان سے ان کی اپنی جانوں کے بارے میں عہد لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ بولے: ہاں! ہم گواہ ہیں۔"
(سورہ الاعراف: 172)

یہ فطری میلان انسان کے اندر موجود ہوتا ہے، اور اسے کبھی بھی دھوکا نہیں دیا جا سکتا، مگر یہ جو صفات ہم میں ہیں، وہ مکمل طور پر عادتوں پر منحصر ہیں۔ انسان کی فطرت ہمیشہ پاکیزہ ہوتی ہے، لیکن اس کی عادتیں ہیں جو اسے بہتر یا بدتر بنا سکتی ہیں۔

فطرت اور عادت کا فرق

فطرت وہ بنیادی صفات ہیں جو انسان کے اندر پیدائش کے وقت رکھی جاتی ہیں، جیسے محبت، غصہ، خوف، ہمدردی، اور جذبات۔ یہ صفات انسان کی جینیاتی اور حیاتیاتی نوعیت کا حصہ ہیں، اور ان میں خودی یا غلطی کی کوئی جڑ نہیں ہوتی۔ ان کا صحیح یا غلط استعمال، عادتوں پر منحصر ہوتا ہے۔

عادتیں وہ رویے ہیں جو انسان اپنے ماحول اور تجربات سے سیکھتا ہے۔ ان کا تعلق اس کے طرزِ زندگی، تربیت اور اس کے فیصلوں سے ہے۔ عادتیں انسان کے روزمرہ کے اعمال کو تشکیل دیتی ہیں اور ان میں تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔

انسان کی فطری صفات:

محبت اور رحم دلی:
یہ ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کے اندر دوسروں کی تکلیف اور ضرورت کو محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے:

"ہم نے انسان کے دل میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی فطرت رکھی ہے۔"
(لقمان: 14)

غصہ اور دفاعی رویہ:
غصہ فطری طور پر اس وقت آتا ہے جب انسان خود کو یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچتے ہوئے دیکھتا ہے۔ تاہم، غصے کا صحیح استعمال انسان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

"طاقتور وہ نہیں جو لڑائی میں کسی کو پچھاڑ دے، بلکہ وہ ہے جو غصے کے وقت قابو رکھے۔"
(صحیح بخاری 6114)

تجسس اور سیکھنے کی خواہش:
انسان ہمیشہ نئے تجربات اور علم کی جستجو کرتا ہے، جو اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی توحید کی جستجو اس بات کا بہترین نمونہ ہے۔

انصاف اور برابری کا احساس:
انسان فطری طور پر انصافی مزاج رکھتا ہے، جو کسی کے ساتھ زیادتی پر آواز اٹھاتا ہے اور دوسروں کے ساتھ مساوات کی خواہش رکھتا ہے۔

عادتوں کا اثر اور عادتوں کا بدلنا

ہمارے اندر کی فطری صفات کی رہنمائی میں، وہ عادتیں ہیں جو ہمیں بناتی ہیں۔ وہ عادتیں جو ہمیں انسانوں سے انسانیت کے ساتھ جڑنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں یا وہ جو ہمیں زندگی کے بہتر اور بدتر راستوں پر لے جاتی ہیں۔

عادتوں کی تبدیلی کا وقت:

یہ وقت مختلف ہوتا ہے، لیکن سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ:

21 دن کا اصول:
میکس ویل مالٹز نے کہا تھا کہ کسی نئی عادت کو اپنانے کے لیے 21 دن درکار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ صرف ایک ابتدائی مرحلہ ہے، جو عادت کی نوعیت کے مطابق مزید وقت لے سکتا ہے۔

66 دن کا اصول:
2010 میں کی گئی تحقیق کے مطابق، کسی بھی عادت کو خودکار بنانے کے لیے 66 دن کی مسلسل کوشش درکار ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ عادتیں 18 دن سے 254 دن تک مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن 66 دن کی مسلسل کوشش کے بعد عادت خود بخود ہمارا حصہ بن جاتی ہے۔

عادتوں کا گہرا نفسیاتی اثر:

ہمارے روزمرہ کے فیصلے، عمل اور عادات دراصل ہماری شخصیت کو تشکیل دیتے ہیں۔ وہ عادتیں جو ہمیں سکون اور خوشی دیتی ہیں، وہ ہمارے وجود میں سکون پیدا کرتی ہیں، اور وہ عادتیں جو ہمیں بے سکونی اور تشویش میں مبتلا کرتی ہیں، ہماری زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔

عادتوں کو ناپنے کے کچھ بنیادی اصول:

کیا یہ عادت آپ کو یا دوسروں کو فائدہ دے رہی ہے یا نقصان؟

یہ عادت وقتی فائدہ دے رہی ہے یا طویل مدتی؟

یہ عادت آپ کے اندر سکون اور بہتری لا رہی ہے یا بے چینی اور بگاڑ؟

یہ عادت آپ کی زندگی کو آسان بنا رہی ہے یا مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے؟

اگر آپ یہ عادت چھوڑ دیں تو کیا آپ کی زندگی بہتر ہو جائے گی یا بدتر؟

جب فطرت اور عادت ایک دوسرے کے ساتھ توازن میں آتے ہیں، تب شخصیت متوازن، پرکشش اور پُراثر بن جاتی ہے۔
جب فطرت اور عادت ایک دوسرے سے ملتی ہیں، تو یہ ایک منفرد ہنر یا شخصیت کی تشکیل کر سکتی ہے۔ مثلاً، اگر کسی کی فطرت میں ہمدردی (empathy) ہے، لیکن اس کی عادت میں دوسروں کی مدد کرنے کی کمی ہے، تو اس کی فطرت بے شک ہمدرد ہوگی، مگر عادتوں کی کمی کی وجہ سے وہ اس ہمدردی کو مکمل طور پر بروئے کار نہیں لا پائے گا۔

دوسری طرف، اگر کسی کی فطرت میں غصہ (anger) یا بچاؤ کا جذبہ (self-defense) زیادہ ہے اور اس کی عادتیں اس غصے کو کنٹرول کرنے یا امن کی طرف بڑھنے کی ہیں، تو وہ شخص اپنے غصے کو صحیح طریقے سے استعمال کرے گا اور زندگی میں توازن برقرار رکھے گا۔

امتزاج کا عملی اثر:

مثبت امتزاج: اگر کسی کی فطرت میں محبت اور شفقت (compassion) ہے، اور اس کی عادتوں میں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے، تو یہ شخص نہ صرف خود سکون محسوس کرے گا بلکہ اس کا ماحول بھی بہتر ہو گا۔

منفی امتزاج: اگر فطرت میں غصہ یا نفرت کا عنصر زیادہ ہے، اور عادت میں دوسروں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کی عادت ہے، تو یہ شخص اپنی فطری صفات کے اثرات کو منفی طریقے سے ظاہر کرے گا، اور اس کی زندگی میں مشکلات آ سکتی ہیں۔

فطرت کی رہنمائی اور عادتوں کی تبدیلی:

فطرت ہمیشہ انسان کو بہترین رہنمائی دیتی ہے، لیکن عادتیں ہی وہ چیز ہیں جو اس رہنمائی کو عملی شکل دیتی ہیں۔ اگر عادتیں فطرت کے مطابق ڈھال لی جائیں تو انسان اپنی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی لا سکتا ہے جس سے نہ صرف وہ خود بلکہ اس کا معاشرہ بھی بہتر ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر:

فطرت: کسی شخص کا دل انسانوں کے لیے رحم اور ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔

عادت: وہ شخص روزانہ دوسروں کی مدد کرتا ہے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، اور اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے اچھے کام کرتا ہے۔
فطرت اور عادت کا امتزاج ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنی فطری صفات کو پہچان کر ان کی سمت درست کرتا ہے اور اپنی عادتوں کو ان کے مطابق ڈھالتا ہے۔ اس امتزاج سے ایک مضبوط اور متوازن شخصیت بنتی ہے، جو نہ صرف اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہے بلکہ اس کی عادتیں بھی اس کے مقصد اور قدر کے مطابق ہوتی ہیں۔

اگر ہم اپنی عادتوں کو فطرت کے مطابق ڈھالیں، تو ہم ایک حقیقتاً بہتر انسان بن سکتے ہیں اور اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔

شخصیت کوئی جامد چیز نہیں۔ یہ مسلسل ڈھلتی ہے، بنتی ہے، بگڑتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی عادتوں پر نظر رکھنی چاہیے، کیونکہ یہی وہ ہاتھ ہے جو ہماری فطرت کو مجسم کر کے شخصیت میں بدلتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

"کامیاب وہی ہے جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، اور ناکام وہ جس نے اسے دبا دیا۔" (سورۃ الشمس: 9-10)

یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ شخصیت محض پیدائشی ساخت نہیں، بلکہ وہ جدوجہد ہے جو ہم اپنی فطرت کو سنوارنے اور عادتوں کو بہتر بنانے میں کرتے ہیں۔

آخر میں، یہ جاننا ضروری ہے کہ:

شخصیت وہ نہیں جو ہم دوسروں کو دکھاتے ہیں، بلکہ وہ ہے جو ہم تنہائی میں خود سے بات کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔