ہوم << کیا بیرونی جنگ اندر لڑی جاسکتی ہے- عبدالغفار بگٹی

کیا بیرونی جنگ اندر لڑی جاسکتی ہے- عبدالغفار بگٹی

اٹھارہ انچ کے پائپ لائن میں پاکستان کے شمال اور مشرق میں ایک ہزار کلومیٹر تک گیس پہنچ جاتی ہے، مگر چھ انچ کے پائپ لائن میں ستر کلومیٹر تک تیتر سالوں میں پانی نہیں پہنچ پاتا۔ اسی طرح تین ہزار فٹ نیچے سے کنویں کھود کر گیس نکالی جا رہی ہے، مگر تین سو فٹ نیچے سے پانی نہیں نکال پاتے۔ ڈیرہ بگٹی اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں موسم گرما کے آغاز میں پانی کی قلت شدت اختیار کر جاتی ہے، اور آٹھ ماہ تک مسلسل ڈھائی لاکھ کی آبادی نفسانفسی کی عالم میں زندگی گزارتی ہے۔

پچھلے چند سالوں میں پانی کی قلت اور گندہ پانی پینے کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئی ہیں، جن میں دو ہزار بائیس میں پیرکوہ میں تیس لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ ویسے تو ہر سال گندہ پانی پینے کی وجہ سے کئی امراض جنم لیتے ہیں، جس کی وجہ سے متعدد اموات واقع ہو جاتی ہیں، لیکن میڈیا کو اجازت نہ ہونے کی وجہ سے یہ خبریں رپورٹ نہیں ہو پاتیں۔ پیرکوہ میں ہونے والے دلخراش واقعے کو طاقت وار حلقوں کی مرضی سے پاکستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا اداروں نے رپورٹ کیا، جس کے بعد پیرکوہ کے لیے وٹر پروجیکٹ منظور ہوئی۔ اس کے لیے مختص رقم کو ایک سال بعد حکومت نے دوگنا کر کے منظوری دی، جو تقریباً پچاس کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔ رقم منظور ہوئی، مگر ہر پروجیکٹ کی طرح یہ بھی مکمل نہ ہو سکا اور پیسے طاقتور حلقوں کی جیبوں میں چلے گئے۔ آج ایک بار پھر لوگ پانی کے ایک گیلن کے لیے ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں، جبکہ حکومت وقت تماشائی بنی بیٹھی ہے۔

اسی طرح سوئی، جو کہ دنیا بھر میں سوئی گیس کی وجہ سے مشہور ہے اور آج بھی ملک کی 23 فیصد گیس کی ضرورت پوری کر رہی ہے، وہاں کی ایک لاکھ آبادی پانی سے محروم ہے۔ شروع میں، یعنی ساٹھ کی دہائی میں، پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ نے دو لاکھ گیلن پانی کی فراہمی کا معاہدہ کیا تھا، مگر آبادی بڑھنے اور کرپشن کی وجہ سے پانی کی فراہم کرنے ناکام ہو گئی ہے۔ اسی سال کے شروع میں دوبارہ دس لاکھ گیلن کا معاہدہ ہوا، مگر وہاں کے لوگ پچھلے معاہدے کی طرح اس کو بھی ناکام سمجھتے ہیں۔

اس کے بعد زین کوہ، جہاں او جی ڈی سی ایل کی گیس کمپنی ہے جو پچھلے چالیس سال سے گیس نکال رہی ہے، مگر وہاں کی بائیس ہزار آبادی بھی پانی سے محروم ہے۔ حتیٰ کہ مانہ کمپنی کے ویلفیئر کے بجٹ میں سے پانچ کروڑ روپے پانی پر خرچ ہوتے ہیں، مگر پھر بھی لوگ جانوروں پر گندہ پانی لانے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح شم، پھلیووغ کے لوگ بھی پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ علاقہ اس وقت کے وزیر بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا آبائی گاؤں ہے۔ اسی طرح بی لوٹی، دشت گروان، ٹوبہ، سنگسلہ، اوچ، دوان کے علاقوں میں بھی لوگ پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اوچ میں بھی او جی ڈی سی ایل کی گیس کمپنی ہے، جو واچ پاور پلانٹ کو گیس مہیا کرتی ہے، جس سے سندھ اور بلوچستان کے کئی شہروں کی بجلی کی ضرورت پوری ہو رہی ہے۔ حال ہی میں اوچ کمپنی میں چونتیس نئے گیس کے کنویں دریافت ہوئے ہیں، مگر وہاں کے لوگ پانی سے محروم ہیں۔ کئی بار حکومت کی طرف سے بورنگ منظور ہوئی، مگر کرپشن کی نذر ہو گئی۔

عوامی حلقوں میں بنیادی حقوق کے لیے بات کرنے کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس لیے وہاں کے سیاسی حلقے جان کی امان کو ترجیح دیتے ہوئے خاموش رہتے ہیں۔ اس وقت بگٹی قبیلے کے لوگ صبح سے شام تک اپنے بچوں کی پیاس بجھانے کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے بچوں، بزرگ شہریوں کے ویڈیوز اور تصاویر اپنے ساتھ ایک کہانی بیان کرتے ہیں۔

بلوچ قوم کا یہ قبیلہ دو ہزار پانچ سے پہلے سب سے پرامن قبیلہ تصور کیا جاتا تھا اور وہاں سے نکلنے والی گیس کی پائپ لائنوں کو تحفظ دیتا تھا، لیکن پھر ایک ایسا دور آیا کہ اس کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد ریاست نے ان پر جو ظلم ڈھائے، اس کی داستانیں کسی اور وقت ہی سہی
تاہم، پچھلے دس سالوں سے امن بحال ہوا، لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹے اور پرامن طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں، مگر اب ایک بار پھر احساس محرومی بڑھ رہا ہے، جسے ریاست دور کرنے کی کوشش نہیں کر رہی۔

ایک طرف تو یہ لگتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے شہر سے منتخب ہونے والا ایم پی اے وزیر بلوچستان ہے، اور وہاں پاکستان کی چار بڑی گیس کمپنیاں موجود ہیں، تو یہ دنیا کا مثالی شہر ہونا چاہیے، مگر یہ ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتا ہے۔ جب بلوچستان میں بڑھتی ہوئی شورش پر بات ہوتی ہے تو ریاستی بیانیے میں ان محرومیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، بس صرف دشمن ممالک کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ہاں، ہو سکتا ہے کہ ان کے پیچھے دشمن ممالک کا ہاتھ ہو، جو ان کے احساس محرومی کو شورش میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہوں، مگر اسے ختم کس نے کرنا ہے؟ کیا ریاست کو یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر اس محرومی کو دور کرے؟

جب کوئی ان محرومیوں کی بات کرتا ہے تو اسے خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ لوگوں کے دلوں میں یہ احساس نہ پھیلے۔ مگر ہم جیسے کچھ لوگ پھر بھی باز نہیں آتے۔ شاید اپنے لوگوں کی محرومیاں ہمیں چین سے رہنے نہیں دیتیں، یا پھر ہم ایک جمہوری ریاست کے خواہاں ہیں۔

کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنے لوگوں کی اصلی محرومیوں کو ختم کر کے ان کے ساتھ مل کر یکجان ہو کر دشمن قوتوں کے خلاف جنگ لڑی جائے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ دشمن کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ آپ کے ملک کے شہریوں کے جذبات کو بھڑکا کر آپ کے خلاف کھڑا کر دے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ بلوچستان میں آپریشن پر سالانہ سات سو ارب خرچ کرنے کے بجائے ایک سال عوام پر خرچ کیا جائے؟ شاید پھر اس سرزمین پر انسانی خون بہنا بند ہو جائے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اپنے لوگوں کے ساتھ جنگ کر کے کوئی معنی خیز نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔

Comments

Avatar photo

عبدالغفار بگٹی

عبدالغفار بگٹی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، سماجی کارکن اور ادیب ہیں۔ ڈیرہ بگٹی بلوچستان سے تعلق ہے۔ پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔ بلوچستان کی سیاست و سماج پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment