ہوم << جن میں تنہا چلنے کے حوصلے ہوتے ہیں- عاصمہ حسن

جن میں تنہا چلنے کے حوصلے ہوتے ہیں- عاصمہ حسن

جن میں تنہا چلنے کے حوصلے ہوتے ہیں
ایک دن اُنہی کے پیچھے قافلے ہوتے ہیں

دنیا کی ہر تبدیلی' انقلاب' تحریک یا سفر کا آغاز صرف ایک شخص سے ہوتا ہے ـ جو اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہے اور اس عزم کے ساتھ سفر کا آغاز کرتا ہے کہ ہاں وہ کر سکتا ہے ـ اس کے پہلے قدم کے پیچھے اس کی مثبت سوچ ہوتی ہے جو اس کو کچھ الگ' کچھ انوکھا کرنے کی' مجمع سے الگ چلنے کی ترغیب دیتی ہے ـ شروع میں لوگ مذاق اڑاتے ہیں ' تنبیہ بھی کرتے ہیں ' کوئی ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتا حتٰی کہ نتائج سے بھی ڈراتے ہیں لیکن جونہی وہ واحد شخص اپنے بل بوتے پر کامیاب ہونے لگتا ہے ' یا خود کو صحیح ثابت کرتا ہے تو نہ صرف لوگ سراہنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ـ
کامیابی کیا ہے ؟ اس کا تعلق ہماری اپنی سوچ سے ہے ـ سب کے لیے کامیابی کا مفہوم یا تعریف مختلف ہوتی ہے کیونکہ سب کے مقاصد اور منزل بھی ایک دوسرے سے منفرد ہوتے ہیں پھر سب کا محنت کرنے کا انداز اور طریقہ کار بھی جدا ہوتا ہے ' منزل اور اس کے راستے بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں ـ

زندگی کو بھرپور انداز میں جینے اور اس کے تمام رنگوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے زندگی میں کوئی نہ کوئی مقصد ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ـ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن کی زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہوتا ' ان کی کوئی منزل نہیں ہوتی ' ایسے لوگ صرف زندگی کے دن گزارتے ہیں ـ کیونکہ جب ہم اپنی منزل متعین کرتے ہیں یا کچھ حاصل کرنے کا سوچتے ہیں تبھی ہم محنت کرتے ہیں ' جدوجہد اور تگ و دو کرتے ہیں ایسے میں زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی بن جاتا ہے ـ خوابوں کی اہمیت وہی سمجھ سکتے ہیں جو کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں ـ

اگر ہمارے خواب نہ ہوں تو زندگی بے رونق ہو جائے کیونکہ یہ خواب ہی ہیں جو ہمیں متحرک رکھتے ہیں ـ کچھ کرنے کی لگن ہی ہے جو نئی ایجادات کی موجد بنتی ہے ـ اگر سب صرف بیٹھ جائیں ' محنت سے جی چرانے لگیں تو سوچیں کہ ہم زندہ کیسے رہیں گے ؟ وقت' روزمرہ ضروریات اور زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش نے انسان سے ایسی انوکھی ایجادات کروائیں کہ دنیا حیران رہ گئی ـ آج ہم جو ٹیکنالوجی کے اس دور میں رہ رہے ہیں اور ایٹمی پاور ہیں ' آج جو ہم نے اپنا نام پوری دنیا میں منوایا ہے وہ سب محنت ' خود پر یقین ' قابلیت اور بہترین حکمتِ عملی کا ہی نتیجہ ہے ـ یہ سب کسی نہ کسی کی سوچ کا ثمر ہے ـ دن رات کی محنت' تگ و دو ' ناکامیوں کے بعد ملنے والے پھل کی خوشبو اور ذائقہ صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو محنت کرنا جانتا ہے اور جس میں تنہا چلنے کا حوصلہ ہوتا ہے ـ

ہمارے ہر عمل کے پیچھے ہماری سوچ ہی کارفرما ہوتی ہے لیکن صرف سوچ لینا یا خواب دیکھ لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانا' حکمتِ عملی تیار کرنا ' اہداف کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنا' تجزیہ کرنا' آنے والی مشکلات کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا' پھر درپیش امتحانوں کا ' مسائل کا سامنا کرتے ہوئے سرخرو ہو کر اس بھنور سے نکلنا بہت اہم ہوتا ہے ـ
جن کے مقاصد اونچے ہوتے ہیں ان کے حوصلے بھی بلند ہوتے ہیں ـ ان کی سوچ ہی ان کو معتبر بناتی ہے ـ وہ طوفانوں سے لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں ' ناکامیوں سے ہمت نہیں ہارتے ' اپنا راستہ نہیں بدلتے بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں ـ اپنی سوچ کی ہی بدولت وہ منفرد بنتے ہیں ـ

بقول رابٹ ایچ شلر : " وہ واحد جگہ جہاں آپ کے خواب ناکام ہو جاتے ہیں یا ان کی تعبیر ممکن نہیں ہوتی وہ صرف اور صرف آپ کی اپنی سوچ ہے ـ"
زندگی کے اس سفر میں ہمیں کئی امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے اور کئی خطرات سے بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا ہمیں ان سے گھبرانا یا پریشان نہیں ہونا چاہئیے ـ جب ہم کسی سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو ہمیں ذہنی و جسمانی طور پر خود کو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رکھنا چاہئیے ـ اسی طرح جب ہم کسی کام کا آغاز کرتے ہیں تو ناکامی کا خوف و ڈر ہمیں دل سے نکال دینا چاہئیے تبھی ہم کامیابی کی منازل طے کر سکیں گے ـ
مثبت سوچ کے حامل لوگ محدود وسائل کے باوجود بھی اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے راستے ڈھونڈ لیتے ہیں ' اس کے برعکس جو لوگ منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں ' سست و کاہل ہوتے ہیں' آج کا کام کل پر ڈالتے رہتے ہیں نتیجے میں وہ کل پھر کبھی نہیں آتی ـ ایسے لوگوں کے پاس کام نہ کرنے کے ہزار عذر موجود ہوتے ہیں ـ

اولیور گولڈ اسمتھ کے مطابق: " ہماری کامیابی یا عظمت اس میں نہیں کہ ہم کبھی نہ گریں بلکہ اس میں ہے کہ ہر بار گرنے کے بعد اٹھ کھڑے ہوں "ـ
ہمیشہ یاد رکھیں کہ حالات کبھی بھی ' کسی کے لیے بھی مکمل طور پر موافق نہیں ہوتے ـ مشکلات اور چیلنجز تو سب کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں لیکن کشتی انہی لوگوں کی پار لگتی ہے جو مثبت سوچ رکھتے ہیں ' جو دوسروں پر انحصار نہیں کرتے ' مناسب وقت کا انتظار نہیں کرتے ' مایوس نہیں ہوتے ' حکمتِ عملی بناتے ہیں پھراس پر عمل کرتے ہیں ' ماضی کے اور دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں' غلطیوں کو دہراتے نہیں ہیں ' ناکامیوں سے گھبراتے نہیں ہیں بلکہ اپنا تجزیہ کرتے ہیں ' اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مواقع پیدا کرتے ہیں ' سب سے بڑھ کر مستقل مزاجی سے کام کرتے ہیں اور ہمت نہیں ہارتے بلکہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں ـ

ایسے ہی بلند حوصلہ لوگ جب اپنا سفر شروع کرتے ہیں توتن تنہا ہوتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ جب وہ منزلیں طے کرنے لگتے ہیں تو اردگرد کے لوگ ان کے ساتھ شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں ـ پھر وہ سفر جو ایک اکیلا شخص صرف اپنی ہمت' سوچ اور اپنے زورِ بازو پر یقین ہونے کی وجہ سے شروع کرتا ہے اب ایک قافلے کی صورت اختیار کر جاتا ہے ـ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ محنت میں برکت ہے ـ اگر آپ درست سمت میں پیش قدمی کر رہے ہیں اور مقصد حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو بس ٹھان لیں اور آنے والے مسائل سے ڈٹ کر مقابلہ کریں ـ یہ جو اپنے خوابوں کو پانے کی لگن ہوتی ہے وہ معجزات رونما کرواتی ہے ـ پھر محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی یہ تو مالکِ کائنات کا وعدہ ہے کیونکہ محنت کرنے والوں کا ہاتھ خود قدرت تھام لیتی ہے ـ

جب خواب دیکھیں تو ان کو حاصل کرنے کی جدوجہد بھی کریں ـ ناکامیوں سے خوف زدہ نہ ہوں کیونکہ کوئی بھی کامیابی ' ناکامی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ـ
ایلینور روزویلٹ کے مطابق : " آپ کو وہ کام ضرور کرنے چاہئیے جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نہیں کر سکتے "ـ

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو لوگ دوسروں کی مدد کا انتظار کرتے ہیں ' اپنے فیصلے خود نہیں لے پاتےیا لوگوں کی باتوں کے خوف سے قدم نہیں اٹھا پاتے وہ اپنی زندگی میں کبھی کچھ نہیں کر پاتے ـ اس کے برعکس جو لوگ تنہا چلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں وہی تاریخ رقم کرتے ہیں ـ ہمیشہ اپنی قوتِ بازو پر یقین رکھیں ' اپنی صلاحیتوں کو درست سمت میں استعمال کریں' عزم اور مستقل مزاجی سے کام لیں اور گھبرائیں نہیں کہ آپ تنہا ہیں کیونکہ آج آپ تنہا ہیں لیکن کل ایک قافلہ آپ کے ساتھ ہو گا ـ

Comments

Avatar photo

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment