ہوم << ذہنی تھکن اور روحانی خلا ،ہم اتنے خالی کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ - حافظ حسن علی

ذہنی تھکن اور روحانی خلا ،ہم اتنے خالی کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ - حافظ حسن علی

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہمارے پاس وقت نہیں، لیکن تھکن بہت ہے؛ دوستوں کی بھیڑ ہے، مگر دلی تنہائی بدستور قائم ہے؛ ذہن بھرا ہوا ہے، لیکن دل خالی ہے۔ ترقی کی رفتار بڑھ گئی ہے، مگر روح کی پیاس ویسے ہی باقی ہے۔ ایک عام انسان ہر روز جسمانی طور پر کام کرتا ہے، سوشل میڈیا پر موجود رہتا ہے، دینی رسومات بھی ادا کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ان دیکھے خلا، ایک روحانی سناٹے، اور ایک بے نام اداسی کا شکار رہتا ہے۔ یہ کیسا تضاد ہے؟

کیا یہ صرف ذہنی مسئلہ ہے؟ یا اس کی جڑیں ہماری روح، نفسیات اور زندگی کی سائنسی ساخت میں پیوست ہیں؟
اس تحریر میں مذہب، نفسیات اور سائنس کی روشنی میں اس روحانی خلا کے اسباب اور ممکنہ حل تلاش کرنے کی جستجو کی جائے گی۔ کیونکہ انسانی علوم کی متعدد شاخوں میں سے ان تین کا براہ راست تعلق انسان کے ذہنی و دماغی سکون سے وابستہ ہے۔ یہ تینوں انسان کو حقیقی سکون اور دائمی راحت بخشنے کا دعوی کرتے ہیں۔ اور تینوں کا انسان کی زندگی میں بہت بڑا عملی کردار ہوتا ہے۔

مذہب، اسلام،
اللہ تعالی کا انسانی وجود پر بے پایاں انعام و احسان ہیکہ اس نے اپنی مخلوق کی ابدی ہدایت کے لیےایک نسخہ ہدایت تیار کر کے آسمانوں سے زمین پر نازل کیا ہے۔ اور ہمیشہ کے لیے انسانوں کی تحریف و تبدیل سے محفوظ کرکے اسکو ابدی ضمانت عطا کی ہے۔ انسان کی شقاوت و بدبختی ہیکہ انسان اس خزانہ ہدایت سے روشنی مستعار لینے کے بجائے دیگر تاریک کدوں کا چکر کاٹتا ہے۔ اور اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لیے ماء رحمت کے چشمہ صافی سے احتراز کرکے گمراہیوں و بدکاریوں کی نجاست سے اٹے بھرے گندے تالابوں پر نازل ہوتا ہے۔ حالانکہ اس انسان کے پاس اسکے خالق کا تیار کردہ نسخہ اکسیر موجود ہے۔ جو اس کی تمامتر نفسیاتی و روحانی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان وافر مقدار بہم مہیا کر سکتا ہے۔ پس یہ انسان کی کج روی ہیکہ وہ خدا کے نازل کردہ کلام سے اعراض کرتا ہے۔
نفسیاتی وروحانی سکون،
اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

" مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ"

ترجمہ،
جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے پاکیزہ زندگی دیں گے اور ہم ضرور انہیں ان کے بہترین کاموں کے بدلے میں ان کا اجر دیں گے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے ایک پاکیزہ زندگی کا ذکر کیا ہے۔ عربی میں اسکو حیاہ طیبہ سے تعبیرط کیا ہے۔ اب ایک انسان پر لازم ہوتا ہیکہ اسکے خالق نے پاکیزہ زندگی عطا کرنیکا جو وعدہ صادق کیا ہے۔ اسکے راستوں کو دریافت کرے۔ اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ پاکیزہ زندگی کا حصول کیسے ممکن ہےِ؟
مفسرین کرام نے اس آیت کے مختلف مفاہیم و معانی بیان کیے ہیں۔ خاص طور پر پاکیزہ زندگی کے متعلق مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔ اور اس امر کی وضاحت کرنیکی کوشش کی ہیکہ پاکیزہ زندگی سے کیا مراد ہے؟
پاکیزہ زندگی سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر ایک گروہ تفسیر کا قول یہ نقل کیا گیا ہیکہ اس سے مراد رزق حلا ل کی کشائش ہے۔

جبکہ ایک قول یہ بیان کیا گیا ہیکہ پاکیزہ زندگی سے مراد انسان کو قناعت و شکر پر مبنی عطا کی جانیوالی زندگی ہے۔ یعنی جو شخص اللہ تعالی کیطرف سے نازل شدہ احکامات کو پورا کرتا ہیے۔ اس کی ذات پر ایمان لاتا ہے۔ جن چیزوں سے اللہ تعالی نے روک رکھا ہے۔ ان سے رک جاتا ہے۔ اللہ تعالی اسکے بدلے دنیا میں اسکو "پاکیزہ زندگی قناعت و شکر والی زندگی" عطا کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان دنیا کی عارضی راحتوں کا پیچھا کرنے سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور جتنا آسانی سے اسکو میسر ہوجا تا ہے۔ اس پر قناعت کر لیتا ہے۔ اور یوں دنیا کی بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں سے خود کو دور کر لیتا ہے۔ کیونکہ اکثر دنیا کی عارضی لذتوں کے حصول کی کوشش انسان کو نفسیاتی کرب میں مبتلا رکھتی ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ،
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں کہ پاکیزہ زندگی کا تعلق انسان کے ہر پہلو راحت کیساتھ ہے۔ اور اس لفظ میں تماتر راحتوں ، لذتوں کا وعدہ کیا گیاہے۔ نیز اس آیت کی تفسیر میں ایک قول " سعادت " والی زندگی کا بھی ہے۔ جسکا مفہوم ہیکہ انسان کو خوش بختی والی زندگی عطا ہوتی ہے۔
آیت کا تجزیہ،
اس آیت نے بیک وقت نفسیاتی و روحانی کرب کے اسباب و یقینی حل کو بیان کر دیا ہے۔ آیت کا مفہوم ہیکہ جو لوگ خدا کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چلتے۔ زندگی گزارنے کے اس طریقے کو اختیا ر نہیں کرتے جو اللہ تعالی نے انکے لیے منتخب کیا ہے۔ بلکہ شیطان کی پیروی کرتے ہوئے عصیان و بغاوت کا راستہ اختیا ر کرتے ہیں۔ وہ سعادت والی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اور نفسیاتی ور وحانی کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ کیونکہ سعادت والی زندگی کے حصول کے لیے شرط ایمان اور عمل صالح ہے۔ لطف کی بات یہ ہیکہ اس آیت سے جڑی پچھلی آیت میں اللہ تعالی نے کافروں سے مخاطب ہو کر واضح انداز میں فرمایا کہ خدا سے کیے گئے معاہدوں کو توڑنے کا انجام دنیامیں " معاشرت سوء" کو چکھنے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اور معاشرت سو کہتے ہیں
" بری دنیوی زندگی"
اس آیت میں اجمال کیساتھ خدا نے جس مفہوم کو بیان کیا ہے ۔ دوسری آیت میں اللہ تعالی نے اسکو انتہائی صراحت کیساتھ بیان کر دیا ہے۔
فرمایا،
وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى

اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بےشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں
"مَعِیْشَةً ضَنْكًا"

تنگ زندگانی کا مفہوم یہ ہیکہ انسان تماتر ظاہری وسائل حیات کو حاصل کرنے کے باوجود روحانی و نفسیاتی طور پر اضطراب کا شکا ررہے۔
جدید نفسیات،
جدید نفسیات انسان کے اس روحانی خلا اور باطنی اضطراب کو بے مقصدیت کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ جدید نفسیا ت واضح کرتی ہیکہ آجکا انسان باطنی طور پر
اضطراب کا شکا ر اسلیے ہیکہ آج کا انسان زندگی کے حقیقی مفہوم سے نا آشنا ہے۔ وہ زندگی کی حقیقی معنویت سے بہرہ ہے۔ اور زندگی کی ظاہری و عارضی لہر پر دوڑے جا رہا ہے۔ اور اسکو اندر سے یہ سوال دیمک کیطرح کھائے جا رہا ہیکہ آخر میں" کون ہوں" کیا کرنے آیاہوں" اور "کیوں" بھیجا گیاہوں۔

"کیوں" کی کمی،
جدید نفسیا ت کا مطالعہ واضح کرتا ہیکہ معاصر انسان کی زندگی "کیوں " کے سوال سے خالی ہے۔ اس متعلق مشہور معروف آسٹریوی ماہر نفسیا ت فراینکل کامعروف نظریہ"
[english]Existential Vacuum
وجودی خلا" زیر بحث رہتا ہے۔
[english] Existential Vacuum,

وجودی خلا"
وجودی خلا سے مراد یہ ہیکہ انسان زندگی کے مقصد اور اسکے حقیقی مطلب سے نا آشنا ہے۔ ڈاکٹر فرانکل کے نزدیک جب ایک انسا ن اپنی زندگی میں مقصد کو کھو دیتا ہے۔ تب وہ داخلی خالی پن کا سامنا کرتا ہے۔ اور انسان کی یہی کیفیت "وجودی خلا" Existential Vacuum کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر فرانکل کے مطابق جب انسان داخلی خالی پن کا سامنا کرتا ہے۔ تب وہ اس خالی پن کو دور کرنے کے لیےمختلف قسم کی عارضی لذات و خوہشات میں خود کومبتلا کر دیتا ہے۔ اور یہ انسان کا خواہشات کا پیچھا کرنا اسکو کچھ وقت کیلیے داخلی سکون فراہم تو ضرور کرتا ہے۔ مگر پھر مخصوص وقت گزرنے کے بعد انسان بوریت کا شکا ر بنا دیتاہے۔
"When a person cannot find a deep sense of meaning, they distract themselves with pleasure
."
یعنی جب انسان کو زندگی کا کوئی گہرا مفہوم نہیں ملتا، تو وہ خود کو وقتی خوشیوں میں الجھاتا ہے.
وہ مزید کہتے ہیں۔
"The existential vacuum manifests itself mainly in a state of boredom
بیسویں صدی کا المیہ،
ڈاکٹر فرانکل کے نزدیک انسان قدیم دور میں مذہب ، خاندان، یا قومیت ، کسی ایک سے اپنی زندگی کا مقصد مستعار لے لیتا تھا۔ مگر آج کے دور میں انسان کے سامنے لاتعداد راستے ہیں۔ جنہوں نے اپنے تنوع کے باعث انسان کو فکری کنفیوژن میں مبتلا کر دیا ہے۔
حل کیا ہے؟
ڈاکٹر فرانکل کے نزدیک ہ کہ انسان کو اپنی زندگی میں معنی تلاش کرنا چاہیے۔ یہ معنی تین طریقوں سے مل سکتے ہیں:
کسی بامقصد کام یا مشن کے ذریعے،
کسی انسان سے محبت یا رشتے کے ذریعے
1. دُکھ یا تکلیف کو ایک اعلیٰ مقصد کے طور پر قبول کر کے
ڈاکٹر فرانکل کا ایک تلخ تجربہ،
ڈاکٹر فرانکل کو انکی بیوی اور ماں کیساتھ نازیوں نے گرفتا ر کر لیا تھا۔ ڈاکٹر فرانکل نے قید کے زمانے میں مشاہدہ کیا کہ جو قیدی کسی مقصد کی خاطر زندگی
گزار رہے ہیں ۔

وہ موجودہ تکلیف میں " معنی" پاکر مقصد کی خاطر اسکو برداشت کر رہے ہیں۔ لیکن اسکے برعکس جو قیدی بے مقصدیت کا شکار ہیں۔
وہ بالعموم بوریت ، ڈپریشن ، کا شکار ہو کر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔
انسانی زندگی کا بنیادی وظیفہ،
مقصد کی تلاش،
“Man's main concern is not to gain pleasure or to avoid pain but rather to see a meaning in his life”
ڈاکٹر فرانکل اس نتیجے پر پہنچے کہ انسان کا اس کائنات میں بنیادی وظیفہ خود کو خواہشات و مرغوبات میں الجھانا نہیں بلکہ اس تمام کے برعکس اپنے وجود کے مقصد کو تلاش کرنا ہے۔
کیونکہ جب ایک انسان اپنے مقصد کی تلاش میں ناکام ہو جاتا ہے۔ تب ظاہری آسائشوں و نمائشوں کا سمندر بھی اسکی داخلی پیاس بجھانے سے قاصر رہ جاتا ہے۔
خلاصہ کلام۔

خوشی کا احساس نہ ہونا" Existential Depression" Anhedonia وجودی خلا"کا رہین منت ہے۔ ہم نے بحثیت انسان ترقی کرکے زندگی کے بہت سے ظاہری وسائل حاصل کر لیے ہیں ۔ مگر اندرونی طور پر ہم باطنی خلا کا شکار ہیں۔ روحانیت کا وجود محو کر چکے ہیں۔ اسلیے تماتر آسانیوں کے باوجود خود کو مشکلات میں گھرا ، نفسیاتی و ذہنی طور پر اکیلا پا رہے ہیں۔ ایک معالج کا کیا ہی خوب تجزیہ ہے۔
Spiritual Emptiness masked by Digital Hyperactivity”"