پنوراما 1453 میوزیم آج وہ دن ہے جس کے لئے مسلمانوں نے سات سو سال انتظار کیا ۔ ہر مسلمان حکمران اس شہر کو فتح کرنے کی خواہش دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوا ۔ یہ وہ مبارک دن ہے جب میرے رسول اکرم ﷺ کی پیشن گوئی پوری ہوئی ۔ زیر نظر مضمون میری کتاب “زبان یار من ترکی “ کا حصہ ہے اگر آپ قسطنطنیہ کی لمحہ بہ لمحہ فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں تو کبھی بھی پنوراما ۱۴۵۳میوزیم دیکھے بغیر استنبول نہ چھوڑیں ۔پنوراما کا مطلب ہے منظر کشی اور اس میوزیم میں ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کی اس صبح کی اور ان آخری لمحات کی اتنی مکمل منظر کشی کی گئی ہے کہ دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ وہ ان لمحات کا حصہ ہیں جب سلطان فاتح کے سپاہیوں نے قسطنطنیہ شہر کوفتح کیا تھا۔ انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے یہ فتح مکمل ہوتی محسوس ہوتی ہے۔
53 دن کے محاصرے اور کئی مرتبہ شہر کو فتح کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد سلطان نے 29 مئی کی شام کو قسطنطنیہ کی مغربی فصیل پر فیصلہ کن اور آخری حملہ کیا ۔ منصوبے کے مطابق اس نے تین دن اور رات تک لگاتار فصیل کے صرف ایک ہی حصے کو توپوں اور پیادہ سپاہیوں کے ذریعے نشانہ بنایا ۔ پہلے دن سلطان کی فوج کے ہراول دستے نے حملہ کیا۔ دوسرے دن تازہ دم انفنڑی آگے آئی اور چوبیس گھنٹے فصیل تک پہنچنے کی کوشش کرتی رہی ۔ تیسرے دن فوج کے خاص دستوں کی باری آئی لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی ۔ تین دن کی اس لگاتار یلغار کے نتیجے میں بزنطینی فوج دیوار کا دفاع کرتے کرتے تھک چکی تھی ۔ ان تین دنوں میں سلطان کی فوج نے پانچ ہزار توپ کے گولوں کے ذریعے تقریباً پچپن ہزار پاؤنڈ بارود فصیل کے اس حصے پر داغا تھا۔ بزنطینی فوج کا سپہ سالار جویانی گستتنیانی توپ کا گولہ لگنے سے زخمی ہونے کے بعد کشتی میں بیٹھ کر شہر سے فرار ہوگیا۔ مغرب کی جانب شہر کی تہری فصیلوں میں سے دو فصیلیں ٹوٹ چکی تھیں فصیلوں کے باہر موجود بیس میٹر چوڑی خندق کو پاٹ دیا گیا تھا۔ لیکن تیسری فصیل ابھی تک ناقابل شکست تھی اس کے کچھ حصے کو نقصان ضرور پہنچا تھا لیکن بزنطینی سپاہیوں نے راتوں رات اس کی مرمت کردی تھی ۔ تین دن اور رات تک فصیل پر یہ حملے لگاتار جاری رہے اور اس میں ایک منٹ کا بھی وقفہ نہ آیا ۔ سلطان نہ خود سویا اور نہ اس نے کسی کو سونے دیا۔
آخر کار ۲۹مئی کو فجر کی نماز کے بعد سلطان نے اپنی ترکش کے آخری تیر ینی چری فوج کو آزمانے کا فیصلہ کیا ۔ ینی چری فوج کا تازہ دم دستہ حسن باتلی کی قیادت میں شہر کی تیسری فصیل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ۔ صبح چھ بجے حسن اپنے تیس جاں نثار سپاہیوں کے ساتھ سینٹ رومانوس کے گیٹ(ایڈرنہ پول گیٹ) والے برج کے قریب اس تیسری اور آخری فصیل پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا ۔ حسن فصیل پر چڑھا اور اللّہ اکبر کا نعرہ لگا کر اس نے سلطان کا پرچم فصیل کے اوپر بنے برج پر گاڑ دیا ۔ بزنطینی سپاہیوں نے اس پر تیروں اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی وہ اس پرچم کو اپنے جسم کی آڑ میں چھپائے کھڑا رہا اور شہید ہوگیا فصیل کے برج پر عثمانی جھنڈا لہراتا دیکھ کر جہاں بزنطینی فوج کے حوصلے پست ہوئے وہیں سلطان کی فوج کو ایک نیا حوصلہ ملا ۔ حسن کے جسم پر زخموں کے ستائیس نشان تھے اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی لیکن اس کا جسم ڈھال بنا پرچم سے لپٹا کھڑا رہا ۔ حسن کے سپاہی بھی جھنڈے کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوتے رہے وہ سب کے سب شہید ہوگئے لیکن انہوں نے وہ جھنڈا پھر بھی گرنے نہ دیا۔ لاتعداد ینی چری سپاہی فصیل پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئے باقی سپاہی تیسری فصیل کو توڑتے شہر میں داخل ہوگئے ۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں آخری قیصرروم شہنشاہ قسطنطین یازدہم ڈراگوس کو آخری باردیکھا گیا۔ اس کے بعد وہ کہاں گیا کوئی نہیں جانتا ۔ ایک عرصے تک قسطنطنیہ میں رہنے والے عیسائی اس امید کے ساتھ زندہ رہے کہ قسطنطین کو ورجن میری Virgin Mary اپنے ساتھ لے گئی ہے اور ایک دن وہ ایک بڑی فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کو ترکوں کے قبضے سے چھڑانے کے لئے ضرور آئے گا۔
قسطنطنیہ کا پہلا حکمران بھی قسطنطین تھا اور آخری بھی۔ پنوراما میوزیم میدان جنگ کے اس حصے میں بنایا گیا ہے جہاں یہ آخری معرکہ لڑا گیا ۔ میوزیم کی عمارت کے عین سامنے سینٹ رامانوس گیٹ اور اس سے ملحقہ ٹوٹی ہوئی دیوار صاف نظر آتی ہے جسے مسمار کر کے عثمانی سپاہی شہر میں داخل ہوئے تھے ۔ یہ دیوار اور سینٹ رامانوس گیٹ بھی اب پنوراما میوزیم کا حصہ ہیں جنہیں محفوظ کر لیا گیا ہے ۔ اس گیٹ کو ترک ایڈرنہ پول گیٹ کہتےہیں اسے ٹوپ کاپی گیٹ Canon Gate بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس گیٹ کے عین سامنے اس مشہور زمانہ توپ Basilica کو نصب کیا گیا تھا جسے دنیا کی سب سے بڑی توپ سمجھا جاتا تھا۔ اس توپ کو ستر بیل اور گھوڑے مل کر کھینچتے تھے اور اسے چلانے پر چار سو سپاہی مامور تھے ۔ اس کا ایک گولہ ڈیڑھ ٹن کا ہوتا تھا۔ وہ چوٹی جہاں آج میوزیم کی عمارت قائم ہے ۔ کبھی اسی جگہ سلطان فاتح کا خیمہ نصب تھا۔ جہاں وہ اپنے خیمے کے سامنے ساری رات کھڑا ہدایات دیتا رہاتھا۔ وہ پچھلے تین دنوں سے نہیں سویا تھا۔ اس میوزیم کی عمارت کو سلطان کے اسی خیمے کی طرز پر بنایا گیا ہے ۔ 29مئی کا سورج طلوع ہوا تو سلطان کے سپاہی شہر میں داخل ہوگئے تھے۔ سورج نصف النہار پر پہنچا تو اس کی فوج کا قبضہ شہر پر مکمل ہو چکا تھا۔ اطالوی طبیب نکولو باربیرو جو اس دن شہر میں موجود تھا اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے کہ “عصر کے وقت وہ اپنے سفید گھوڑے پر سوار ہوکر ایڈرنہ پول گیٹ سے اپنے مصاحبین اور وزراء کے ساتھ فاتحانہ اندازمیں قسطنطنیہ شہر میں داخل ہوکر ھائیہ صوفیہ پہنچا۔ جہاں پہنچ کر وہ اپنے گھوڑے سے اترا سجدہ شکر بجا لایا خاک کی مٹھی بھر کر اپنی پگڑی پر ڈالی اور ھائیہ صوفیہ میں داخل ہوا اور دو نفل شکرانے کے اداکئے ۔اس نے شہر میں لوٹ مار بند کرنے کا حکم دیا اور شہر کے تمام باشندوں کو مال جان اور عزت کی امان دے دی۔
پنوراما میوزیم دنیا کا مکمل ترین میوزیم ہے جو تین ہزار مربع میٹر پر بنایا گیا ہے ۔ ساری دنیا میں بنائے گئے باقی سارے پنوراما میوزیم یا تو افقی (افق کے متوازی Horizontal) منظر دکھاتے ہیں یا پھر عمودی(Vertical) مناظر کی منظر کشی ہوتی ہے ۔ لیکن استنبول کا پنوراما دنیا کا وہ واحد میوزیم ہے جو دونوں افقی اور عمودی مناظر بیک وقت دکھاتا ہے ۔ گنبد نما مصنوعی آسمان کے نیچے جس کی نیلی رنگت پر گولہ و بارود کے اٹھنے والے دھوئیں کی سیاہی اور آگ کی لالی غالب نظر آتی ہے ۔ دس ہزار تصویروں کے تھری ڈی مناظر کے درمیان کھڑا ناظر اپنے آپ کو میدان جنگ کا حصہ تصور کرتا ہے جس کی آنکھوں کے سامنے چاروں طرف360 ڈگری پر جنگ کے مناظر چل رہے ہیں اللّٰہ اکبر کے نعروں ، ترک فوجی بینڈ مہتار(Mahtar) کی گونج اور سپاہیوں کے شوروغل کی آوازیں کانوں کے پردے پھاڑتی محسوس ہوتی ہیں ۔ جنگ کی شدت دیکھنے والے کو مبہوت کردیتی ہے۔ خون اسے اپنی رگوں میں دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ پنوراما میوزیم چار سال کی محنت کے بعد اکتیس جنوری ۲۰۰۹ء کو عوام کے لئے کھولا گیا ۔ ترکی کے صدر طیب اردگان کی ہدایت پر بنائے جانے والے اس میوزیم کا افتتاح استنبول کے مئیر نے کیا۔ آٹھ مصوروں نے ایک دیوار پر دس ہزار سے زائد تصاویر بنائیں ۔ میوزیم کی دیوار کے ساتھ مختلف مقامات پر ۱۴۵۳ء کی جنگ میں استعمال ہونے والا اصلی اسلحہ ، توپیں ، تلواریں ، گولہ بارود ، گھوڑا گاڑیاں اور دیگر اشیاء اس خوبصورتی کے ساتھ رکھی گئی ہیں کہ پنوراما کا ہال اصل میدان جنگ لگتا ہے۔ جب ان تصاویر کو تیز روشنیوں اور پس منظر موسیقی (بیک گراؤنڈ میوزک ) اور شوروغل کے ساتھ ناظر کی آنکھوں کے سامنے سے گزاراجاتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتاہے جیسے وہ بھی اس جنگ میں شامل ہے اور یہ سب کچھ اس کے آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے ۔ اس میوزیم پر پانچ ملین ڈالر کی لاگت آئی تھی۔
اس میوزیم کے تین حصے ہیں ۔ میوزیم کی پہلی منزل پر پنوراما سے پہلے اور بعد میں سلطان فاتح کی زندگی کے مختلف ادوار کو تصاویر اور بڑی پینٹگز کی صورت میں بڑے ہال اور راہداریوں میں نمایاں کیا گیا ہے ۔ میوزیم کی دیوڑھی میں سلطان کا ایک خوبصورت لباس میں ملبوس قد آدم مجسمہ نصب ہے ۔ ہال میں جگہ جگہ شوکیسوں کے اندر اس کی ذاتی اشیاء ، اس کے بنائے نقشے ، اس کی ڈائریاں ، اس کا دیوان ، اس کی لکھی کتب اور اس سے وابستہ اسلحہ کی نمائش کی گئی ہے ۔ ایک شوکیس میں اس زنجیر کا ایک ٹکڑا رکھا گیا ہے جس کے ذریعے رومی گولڈن ہارن کے دھانے کو بند کر دیتے تھے ۔ ایسے ہی ایک شوکیس میں وہ رجسٹری بھی رکھی ہے جس کی رو سے اس نے ہائیہ صوفیہ کو اپنی جیب سے ذاتی پیسے ادا کر کے خریدا تھا۔ اور اسے مسجد میں تبدیل کیا تھا۔ بعد میں یہ تقریباً چھ سو سال تک سلطان فاتح ٹرسٹ کے زیر انتظام رہی۔ان راہداریوں سے گذر کر آپ اوپر دوسری منزل پر واقع میوزیم کے دوسرے حصے پنوراما میں پہنچتے ہیں ۔ میوزیم کا تیسرا حصہ قسطنطنیہ شہر کی دیوار کے اس ٹکڑے پر مشتمل ہے جس کو توڑ کر سلطان کی فوج نے شہر کو فتح کیا تھا اس دیوار کے درمیان واقع وہ گیٹ بھی اس میوزیم میں شامل ہے جس سے گذر کر سلطان فاتح شہر میں داخل ہوا تھا ۔ قسطنطنیہ شہر کی یہ فصیل درحقیقت اپنی نوعیت کی انتہائی انوکھی اور عجوبہ روزگار فصیل ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی دیوار کی بدولت یہ شہر ایک ہزار سال تک ناقابل شکست رہا
ہیروڈوٹس کے مطابق 656قبل مسیح میں یونان کے میگارا شہنشاہ بیزاس نے اپنی ماں کی یاد میں قسطنطنیہ شہر بسایا تھا۔ اور اس شہر کا نام بزنطین رکھا۔اس وقت اس شہر کی کوئی فوجی معاشی یا سیاسی حثیت نہیں تھی ۔ گذرتے وقت کے ساتھ اپنے مخصوص محل وقوع کی بدولت اس کی اہمیت بڑھتی چلی گئی قسطنطین نے 306 ء میں جب رومی سلطنت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو اس نے اسے اپنا پایہء تخت قرار دے کر اس کا نام نیو روما (New Roma)رکھا ۔اور یہاں اپنا شاہی محل تعمیر کروایا جہاں آج کل ٹوپ کاپی محل ہے ۔ گیارہ مئی ۳۳۰ء کو اس نے اس کا نام بدل کر قسطنطنیہ Constantinople رکھ دیا۔ یہاں سے اس شہر کی اس شاندار تاریخ کا آغاز ہوتا ہے جس نے اسے ایک عظیم الشان شہر اور پوری دنیا کی سیاست کا محور بنا دیا ۔ اقتدار و سیاست کا ہر منبع روم سے قسطنطنیہ منتقل ہوگیا۔ اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دور میں دنیا کا کوئی اور شہر اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ پہلے یہ ایک ہزار سال تک بزنطینی سلطنت کے اقتدار کی علامت رہا ، اور پھر ۱۴۵۳ء میں سلطان فاتح کی فتح کے بعد اگلے پانچ سو سال تک سلطنت عثمانیہ کی عظمت وسطوت کا نشان بن کر زندہ رہا ۔
قسطنطنیہ شہر کے تین طرف پانی اور مغرب کی اس جانب خشکی تھی جس طرف یونان ، بلقان اور مشرقی یورپ واقع تھا۔ قسطنطین اوّل نے شہر کو محفوظ بنانے کے لئے اس شہر کے گرد ایک بہت مضبوط فصیل تعمیر کروائی۔ اس نے خشکی کی جانب واقع مغربی دیوار پر خاص توجہ دی تھی۔ شہنشاہ تھیوڈوسس اوّل نے 391ء میں اس دیوار کو اور مضبوط بنایا اور اس میں کئی نئے دروازے بنوائے جن میں یورپی جانب بنائے گئے گولڈن گیٹ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔ یہ گیٹ بیس میٹر اونچا تھا اور اس پر سونے اور چاندی کا بنا ایک رتھ نصب کیا گیا تھا جسے چھ گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ شہنشاہ آر کادیوس نے 404 ء میں ان دیواروں کے باہر ایک دوسری حفاظتی دیوار تعمیر کروا کر کے اسے دوہرہ کر دیا - ان دونوں دیواروں کے درمیان ایک بہت چوڑی خندق تھی ۔ شہنشاہ آرکادیوس کے انتقال کے بعد 408ء میں جب اس کا بیٹا تھیودیوسس ثانی تخت پر بیٹھا تو اس نے مغرب کی جانب جہاں خشکی تھی وہاں ان دوہری دیواروں کے اندر ایک تیسری دیوار بھی بنوا دی ۔ اس تہرے حفاظتی نظام کو تعمیر ہونے میں تیس سال لگے اور یہ 439 ء میں مکمل ہوا۔ان تین دیواروں کے سب سے باہر ایک بیس میٹر چوڑی اور سات میٹر گہری خندق تھی جسے بوقت ضرورت پانی سے بھر دیا جاتا تھا ۔ اس مقصد کے لئے شہر کے جنوب میں کئی ڈیم بنائے گئے تھے۔ اس خندق کے بعد پہلی دیوار تھی جو چار میٹر اونچی اور دو میٹر چوڑی تھی ۔اس خندق پر نظر رکھنے کے لئے اس دیوار میں جگہ جگہ برج اور مینار پر بنائے گئے تھے ۔ اسپہلی دیوار کے دو سو میٹر بعد دوسری دیوار تھی جو آٹھ میٹر اونچی اور چھ میٹر چوڑی تھی جس پر کئی گھوڑے اور رتھ بیک وقت دوڑ سکتے تھے۔دوسری دیوار پر بھی ہر سو میٹر کے فاصلے پر ایک چکور ٹاور تھا جہاں سپاہیوں کا ایک دستہ تعنیات رہتا تھا۔ اس دیوار پر توپیں نصب تھیں اور دشمن کے ان سپاہیوں پر آگ اور پتھر برسانے اور گرم کھولتے ہوئے پانی کو پھینکنے کا انتظام کیا گیا تھا جو خندق اور پہلی دیوار کو عبور کر لیتے تھے۔ دوسری دیوار کے تقریباً تین سو میٹر بعد اندرشہر کی جانب تیسری اور آخری دفاعی دیوار تھی ۔ یہ دیوار بارہ میٹر اونچی اور چھ میٹر چوڑی تھی ۔ اس پر ہر ستر میٹر کے بعد ایک بیس میٹر اونچا اور دس میٹر چوڑا ہشت پہلو ٹاور تھا ۔ ان برجوں کی تعداد ستانوے تھی اور انہیں اس طرح بنایا گیا تھاکہ ان سے برسائے جانے والے پتھر اور گولے دوسری اور پہلی دیوار کے میناروں کو متاثر نہیں کرتے تھے ۔حفاظتی فصیلوں کا یہ تہرا نظام سات کلومیٹر لمبا اور اتنا مضبوط اور پیچیدہ تھا کہ انسانی تاریخ میں آج تک کسی شہر کو محفوظ بنانے کی ایسی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی ۔ اسے تھیوڈوسس کی دیواریں کہا جاتا ہے اور اس کا ایک حصہ محفوظ کرکے اسے اس میوزیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔
جے بی بری John Bagnell Bury نے اپنی کتاب Cambridge Ancient History میں لکھاہے Perhaps the most successful and influential city walls ever built – they allowed the city and its emperors to survive and thrive for more than a millennium, against all strategic logic, on the edge of [an] extremely unstable and dangerous world
بحیرہ مارمورا کی جانب سمندر کی موجوں میں طغیانی اور شوریدگی کی وجہ سے حملہ کرنا ممکن نہیں تھا گولڈن ہارن والی سمت کو وہ حفاظتی کے ذریعے محفوظ بنا لیتے اور چوتھی جانب حفاظتی دیواروں کا یہ نظام اتنا مضبوط اور مکمل تھا کہ اس سمت سے شہر کو فتح کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔ صرف چند ہزار سپاہی اس شہر کے اندر مہنیوں قلعہ بند رہ کر بڑی سے بڑی فوج کا مقابلہ کر سکتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ یہ شہر ایک ہزار سال تھا ناقابل شکست رہا ۔ نہ624 ء میں شاہ ایران خسرو پرویز اسے فتح کر سکا اور نہ ہی قرون اولی کے عرب اس کو مغلوب کرسکے ۔حالانکہ674ء میں عرب چار سال تک اور 717ء میں دو سال تک اس شہر کا محاصرہ کئے بیٹھے رہےتھے ۔ ترکوں نے بھی تین سو سال میں چھ بار اس کا محاصرہ کیا ۔ لیکن اسے فتح کرنے میں ناکام رہے ۔ سلطان فاتح کو بھی اس شہر کی فتح ترپن دن کے محاصرے کے بعد نصیب ہوئی۔
پنوراما میوزیم میں ان دیواروں کے محفوظ حصے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہی اس بات پر یقین آتا ہے کہ اکیس سالہ نوجوان سلطان فاتح نے فوجی تاریخ کا کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیاتھا ۔ قسطنطنیہ کی فتح قرون وسطیٰ (Middle Ages ) کی انسانی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کی فتح کے بعد نہ صرف مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان شروع ہونے والی اس سات سو سالہ چپقلش کا اختتام ہوا جس کا آغاز حضور اکرم صلعم ﷺ کے دور میں 630ء کو غزوہ تبوک کے میدان میں ہوا تھا بلکہ حضور اکرم ﷺ کی وہ بشارت بھی پوری ہوئی جس میں آپ ﷺ نے قسطنطنیہ کی فتح کی خوشخبری سنائی تھی - یہ حدیث آپ کو سینٹ رامانوس کے گیٹ کے باہر دیوار پر چسپاں نظر آتی ہے جس سے گذر کر سلطان فاتح شہر میں داخل ہوا تھا ۔ قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک شہنشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے بادشاہ کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ بلکہ اس انہونے واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور تاریخ کے نئے دور کی ابتدا ہوئی تھی۔ایک طرف27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر چودہ سو اسی برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد ہمیشہ کے لئے اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانیوں نے اپنا نقطۂ عروج کو چھو لیا اور پھر وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ اور پانچ سمندروں پر بڑی شان وشوکت سے حکومت کرتے رہے۔
1453ء ہی وہ سال ہے جسے تاریخی اعتبار سے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا اہم ترین سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس جنگ نے ثابت کیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد دفاعی فصیلیں کسی بھی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔ خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور ناقابل شکست کیوں نہ ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ سعادت جسے حاصل کرنے کی خواہش دل میں بسائے حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت امیر معاویہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے جلیل القدر صحابہ اس دنیا سے رخصت ہوئے جس کی آرزو ہر مسلمان سلطان اور بڑے بادشاہ اور سپہ سالار نے کی میرے اللّہ نے وہ عزت اس اکیس سالہ نوجوان کے حصے میں لکھی تھی جسے شائید پیداہی اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ میرے پیارے نبی ﷺ کی بشارت اور پیشن گوئی کو حق ثابت کرےایں سعادت بزور بازو نیستتانہ بخشد خدائے بخشندہ
تبصرہ لکھیے