ہوم << استنبول کے پانچ میوزیم - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

استنبول کے پانچ میوزیم - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

استنبول شہر کو اگر عجائب گھروں کا شہر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا یوں تو یہاں چالیس سے زیادہ عجائب گھر ہیں اور ہر تاریخی عمارت میں ایک میوزیم قائم ہے ۔ ٹوپ کاپی میوزیم اور ڈولما باغیچہ محل کے عجائب گھر تو خیر ہر وہ شخص دیکھ لیتا ہے جو ان عمارتوں کی سیر کو جاتاہے ۔ لیکن پانچ عجائب گھر ایسے ہیں جن کو دیکھے بغیر استنبول کی سیر مکمل ہی نہیں ہوسکتی ۔ اور بہت سے لوگ وقت کی کمی کے باعث یا علم نہ ہونے کی بناء پر ان تک نہیں پہنچ پاتے ۔

⁃ آرکیالوجیکل میوزیم
⁃ پنوراما ۱۴۵۳میوزیم
⁃ یلدیز محل
⁃ منی ترکیہ
⁃ بحری میوزیم

۱- آرکیالوجیکل میوزیم :
یہ میوزیم دنیا کا سب سے بڑا اور ترکی کا سب سے پہلا میوزیم ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب بتیسویں عثمانی سلطان عبدالعزیز نے جولائی ۱۸۶۷ء میں یورپ کا دورہ کیا تو وہ لندن ، پیرس اور ویانا میں قائم عجائب گھروں سے بہت متاثر ہوا اور واپس آکر اس نے قسطنطنیہ میں بھی ایک عجائب گھر بنانے کا حکم دیا۔ جو ھائیہ آئیرین کے چرچ کی عمارت میں ۱۸۶۹ء میں قائم کیا گیا ۔ اس کا نام معز ہمایوں رکھا گیا تھا ۔ عثمان حمدی بے اس کاپہلا منتظم مقرر ہوا ۔ جو خود بھی بھی ایک بہت مشہور ماہر آثار قدیمہ (آرکیالوجسٹ) اور مصور تھا۔ وہ عثمانی وزیراعظم ابراہیم پاشا کا بیٹا تھا۔ آرکیالوجیکل میوزیم کی موجودہ عمارت عثمان حمدی نے ۱۸۸۱ء میں بنوانی شروع کی جو دس سال کے عرصے میں بن کر تیار ہوئی اور اس کا افتتاح ۱۳جون ۱۸۹۱ء کو ہوا۔ یہ فتیحہ ڈسٹرکٹ میں امین اونو کے علاقے میں گل خانہ پارک اور ٹوپ کاپی محل کے قریب واقع ہے ۔ اس عجائب گھر میں رکھی اشیاء کی تعداد بارہ لاکھ کے قریب ہے جو کہ دنیا کی تمام قدیم ترین تہذیبوں اور تاریخ عالم سے متعلقہ ہیں۔ اس عجائب گھر کے تین حصے ہیں ۔

۱- مرکزی آرکیالوجیکل میوزیم:
یہ میوزیم کی مرکزی عمارت میں قائم ہے ۔ اس کے مرکزی داخلی دروازے پر عثمان حمدی کا آدھا مجسمہ نصب ہے ۔ جس کو ترکی میں عجائب گھروں کا بانی کہا جاتا ہے . اس کے کئی حصے اور منزلیں ہیں.

۲- قدیم مشرقی عجائب گھر
جہاں ہیلینسٹک، رومی اور ترکی دور کی بے شمار چیزیں نمائش کے لئے رکھی گئی ہیں ۔ یہ تمام چیزیں عثمانی دور حکومت میں سلطنت عثمانیہ کے مختلف علاقوں سے جمع کی گئی تھیں۔ ہیلینسٹک دور بحیرہ روم کی تاریخ کے اس دور کااحاطہ کرتا ہے جو ۳۳۲ قبل مسیح میں سکندر اعظم کی موت اور رومن سلطنت کے ظہور ۳۱ قبل مسیح کے درمیان گذرا۔

۳- میوزیم آف اسلامک آرٹ
یہ ایک خیمہ نما عمارت میں قائم ہے جسے ٹائلڈ کیوسک کہتے ہیں یہ ٹوپ کاپی محل کی بیرونی دیوار کے ساتھ محل کے اندر واقع ہے ۔ یہاں ازنک ، عثمانی ،عباسی ، اموی ، سلجوقی اور ایرانی دور حکومت سے وابستہ فن خطاطی ، فن کوزہ گری (مٹی کے برتن ) ، فن سفل گری (چینی کے برتن ) اور اسلامی آرٹ کے دیگر بیش بہا اور نادر نمونے رکھے گئے ہیں۔ آرکیالوجیکل عجائب کھر کی خاص چیزوں میں پتھر کے بنے وہ کفن ہیں جو عثمان حمدی نے ۱۸۸۷ء میں سیدون لبنان کے قریب ایک زمین دوز محل سے دریافت کیے تھے۔

۱- سکندر اعظم کا کفن :
سکندر اعظم کا کفن سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے ۔ جس پر بڑے خوبصورت انداز میں مختلف جنگوں کی عکاسی کی گئی ہے جو سکندر اعظم نے لڑی اور جیتی تھیں ۔ انہیں رنگین تصویروں کی شکل میں کفن پر کندہ کیا گیا ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر نقوش کا تعلق یونان ، ایران جنگ ، دارا اور سکندر سے متعلق ہے جس میں سکندر کو فاتح اور دارا کو مفتوح دکھایا گیا ہے۔ یہ اصل میں وہ کفن نہیں ہے جس میں سکندراعظم کو دفن کی گیا تھا بلکہ یہ سیدون کے بادشاہ ابدالونیموس کا کفن ہے اور وہی اس میں دفن کیا گیا تھا ۔ اسے سکندر کا کفن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس پر چاروں طرف صرف سکندر اعظم کے ہی نقوش اور تصویریں کندہ ہیں اور یہ اس دور میں بڑی عام روائیت تھی کہ مرنے والے اپنے آقا کی تصاویر اپنے کفن پر کندہ کروایا کرتے تھے ۔ اور چونکہ ابدالونیموس کو سکندر نے اس علاقے کا گورنر بنایا تھا اس لئے اس نے اپنے کفن پر سکندراعظم کی تصاویر بنانے کا حکم دیا تھا۔ مرنے کے بعد سکندراعظم کی لاش کو مسیڈونیہ لے جایا گیا تھا اور اسے وہاں دفن کیا گیا تھا۔

۲- روتی ہوئی عورت کا کفن

۳-،فونیقی شہنشاہ تبنت اوّل کا کفن
اس نے ۵۴۹ قبل مسیح اور ۵۳۹ قبل مسیح کے درمیان لبنان کے علاقے پر حکومت کی ۔

۴- سیدون کے بادشاہ سٹراٹو اوّل کا کفن

۵- سیدون کا لائشین کفن

اس کے علاوہ یہاں کی دوسری مشہور آثار قدیمہ میں
۶- با بیلون کے اشتر دروازے پر لگی آرائشی مجسمے ۔ ان میں شیر کا مجسمہ قابل دید ہے جو رنگین ٹائلز پر بنایا گیا ہے ۔بابیلون شہر بخت نصر نے چھ سو سال قبل مسیح میں بسایا تھا۔

۷۔ رومی دور کے مجسمے ( دوہزار سال پرانے ) جو ایفیسس، ایفرڈائسس اور میلٹس سے شہروں سے لائے گئے۔ یہ سارے شہر قدیم یونانی اور رومی شہر تھے جن کے آثار قدیمہ آجکل ترکی میں پائے جاتے ہیں ۔

۸- دوہزار سال پرانا ایفیبوس کا مجسمہ . ایفیبوس یونانی زبان میں جواں سال کو کہا جاتا ہے ۔

۹- اڑھائی سال پرانا اپالو کا مجسمہ
اپالو یونانی اور رومن دیومالا کا حسین ترین دیوتا ہے ۔ وہ زیوس اور لیٹو (لیٹونا) کا بیٹا تھا۔ جس کی پیدائش جزیرہ ڈیلوس میں ہوئی۔ ہومر کی منظوم داستان میں اپالو کو پیشن گوئی۔ قہر و بربادی نازل کرنے والے اور جنگجو کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ یونانی اسے تمام دیوتاؤں سے افضل مانتے ہیں۔ یونانی شاعری اور بعد کی مصوری میں اس کے حسن و جمال کی بڑی ثنا خوانی کی گئی ہے۔ وہ بہت اچھا گویا اور سازندہ تھا۔ اور اپنے سنہرے ساز کو چھیڑ کر اولمپس کو فرحت پہنچاتا تھا۔ ڈیلفی (یونان )کے مندر میں اس سے مرادیں مانگی جاتی اور غیب کی باتیں پوچھی جاتی تھیں۔ ترکی کے صوبہ چناق قلعہ میں اپالو کا مندر ہوا کرتا تھا۔ جس کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔ اور یہ مجسمہ وہیں سے لایا گیا ہے

۱۰- اڑھائی سال پرانے زیوس اور سکندراعظم کے مجسمے
زیوس یونانی دیومالائی دیوتاؤں میں سب سے عظیم دیوتا تھا۔ اساتیر میں اِسے دیوتاؤں کا بادشاہ تصّور کیا جاتا تھا۔ یہ یونانی دیوتاؤں میں سب سے طاقتور اور کوہ اولمپس کا حاکم تھا۔ وہ طوفان اور آسمانی بجلی کا دیوتا تھا ۔ زیوس کو اکثر بجلی کی کڑک، بلوط، سانڈ اور چیل کی علامتوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ رومی اسے جیوپٹر کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔

۱۱- تین ہزار سال پرانی ٹرائے شہر سے لائی گئی اشیاء
ٹرائے شمالی مغربی ایشیائے کوچک کا ایک قدیم شہر ہے - (۱۸۷۱ء میں جرمن ماہر آثار قدیمہ ہیزخ شلی مان نے ترکی کے علاقہ ہسارلک میں اس کے آثار دریافت کیے کھدائی کے دوران میں یہاں نوبستیوں کے آثار ملے۔ جو یکے بعد دیگرے مختلف ادوار میں اس جگہ آباد ہوئی تھیں۔ ساتویں بستی غالباً ’’ فری جین‘‘ تھی جسے ٹرائے کی روایتی جنگ میں یونانیوں نے فتح کیا تھا۔ ڈاکٹر مان نے اس مقام کا کھوج ہومر کی مشہور نظم ’’ الید‘‘ کی مدد سے لگایا تھا۔ ٹرائے کو ’’ الیون ‘‘ یا ’’الیم ‘‘ بھی کہتے تھے۔ یونانی اساطیر کے مطابق جنگ ٹروجن (ٹرائے کی جنگ) تیرھویں اور بارہویں صدی ق۔ م کے درمیان میں تین ٹرائے دیوتاؤں کے درمیان ہیلن کی وجہ سے لڑی گئی۔ ٹرائے کا شہر اس جنگ میں تباہ ہوا۔

۱۲- ایکلیز کا مجسمہ ۔ جو ٹرائے سے ملا تھا۔
ایکلیز یونانی دیومالائی داستانوں کا ہیرو ہے ۔ وہ مائی سنا (یونان )کے بادشاہ اگامیم نن کا سپہ سالار تھا۔ اس کا باپ (پیلس) انسان اور ماں (تھیئس) دیوی تھی۔ یونانی دیومالا میں یہ واحد مثال ہے کہ کسی دیوی نے کسی فانی انسان سے شادی کی۔ تھیئس نے ایکلیز کو لافانی اور ناقابل شکست بنانے کے لیے اس کی ایڑی پکڑ کر اسے دریائے ستائکس میں غوطہ دیا تو اس کاسارا بدن (سوائے ایڑی کے جوپانی میں تر نہیں ہوئی تھی) ہتھیاروں کے اثر سے مامون ہو گیا۔ (انگریزی میں قابل تسخیر یا کمزور مقام کو ایکلیز کی ایڑی کہتے ہیں). ہومر کے بیان کے مطابق جب ٹرائے کا شہزادہ پارس اگامیم نن کی بیوی شہزادی ہیلن کو اغواء کر کے ٹرائے لے گیا تو اگامیم نن نے اس کی بازیابی کے لیے ٹرائے پر حملہ کیا تو ایکلیز بڑی بہادری سے لڑا۔ لیکن اگامیم نن نے ایکلیز کی محبوبہ کو اپنے حرم میں داخل کر لیا جس پر وہ ناراض ہوکر جنگ سے دست بردار ہو گیا اور لڑنے سے انکار کر دیا۔ ایکلیز کی علیحدگی سے فوج میں سراسیمگی پھیل گئی۔ پٹروکولس کو ایکلیز کے روپ میں میدان جنگ میں بھیجا گیا لیکن ہیکٹر (ٹرائے کے ولی عہد) نے ایک ہی وار میں اس کو ہلاک کر دیا۔ پیٹروکولس ایکلیز کے بچپن کا دوست تھا اس کی ہلاکت پر اس کے بعد ایکلیز بڑا برہم ہوا اور اس نے اگامیم نن سے مصالحت کرلی۔ اور ایکلیز نے ہیکٹر کو قتل کر دیا۔ آخر ٹرائے کے صدر دروازے کے پاس ہیلین کے عاشق پارس نے ایکلیز کی ایڑی میں تیر مار کر اسے ہلاک کر دیا۔ پارس کو ایکلیز کا یہ کمزور مقام دیوتا اپالو نے بتایا تھا۔ ایکلیز اور ہیکٹر کے مرنے کے بعد ٹرائے کی جنگ ختم ہوئی۔

۱۳- نمرود کا مجسمہ ،اور عرفہ شہر کےنوادرات
نمرود وہ بادشاہ تھا۔ جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا تھا۔ نمرود شنعار کا بادشاہ تھا، جس کا قصہ بائبل میں بھی درج ہے۔ اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا اس کا پائے تخت بابُل تھا ۔ جس کے آثار قدیمہ عراق میں دریافت کئے گئے ہیں۔ مفسرین کا بیان ہے کہ ”نمرود بن کنعان ”بڑا جابر بادشاہ تھا۔ سب سے پہلے اسی نے تاج شاہی اپنے سر پر رکھا۔ اس سے پہلے کسی بادشاہ نے تاج نہیں پہنا تھا اس نے خدائی کا دعوی کیا تھا ۔ یہ لوگوں سے زبردستی اپنی پرستش کراتا تھا ۔ نمرود نے ایک رات یہ خواب دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا اور اس کی روشنی میں چاند، سورج وغیرہ سارے ستارے بے نور ہو کر رہ گئے۔ کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ ایک تمہاری قوم میں ایک ایسا بچہ پیداہوگا ۔ جو تیری بادشاہی کے زوال کا باعث ہو گا۔ یہ سن کر نمرود بے حد پریشان ہو گیا اور اس نے یہ حکم دے دیا کہ میرے شہر میں جو بچہ پیدا ہو وہ قتل کر دیا جائے۔ اور مرد عورتوں سے جدا رہیں۔ چنانچہ ہزاروں بچے قتل کر دیے گئے۔ لیکن اللّٰہ کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ۔ اسی دوران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہو گئے اور بادشاہ کے خوف سے ان کی والدہ نے شہر سے دور پہاڑ کے ایک غار میں ان کوچھپا دیا اسی غار میں چھپ کر ان کی والدہ روزانہ ان کو دودھ پلانے جایا کرتی تھیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ سات برس کی عمر تک اور بعضوں نے تحریر فرمایا کہ سترہ برس تک آپ اسی غار میں پرورش پاتے رہے۔

ترکی کے جنوب مشرق میں ایک شہر ہے جسے ارفا کہتے ہیں ۔ اس کا سرکاری نام شانلی عرفہ ہے ۔ اسے حضرت ابراہیم کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ شہر دنیا کا قدیم ترین شہر ہے اور تقریباً دس ہزار سال پرانا ہے۔ یہاں دنیا کی سب سے قدیم عبادت گاہ بھی ہے ۔ اسے نبیوں کا شہر بھی کہتے ہیں. مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کے مطابق یہ وہ شہر جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اس شہر کے وسط میں ایک بہت بڑا تالاب ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں پھینکا تھا۔ مقامی روایات میں درج ہے کہ اور اللّٰہ کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہو گئی اور اس جگہ پانی کا تالاب بن گیا۔ اور جلتی ہوئی لکڑیاں اور کوئلے مچھلی بن گئے ۔ اس تالاب کو خلیل کی جھیل کہتے ہیں ۔ یہاں پائی جانے والی مچھلیاں بہت مقدس خیال کی جاتی ہیں ۔ اس تالاب کے مشرقی کنارے پر مسجد ہے جسے مسجد خلیل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور قریب ہی وہ غار ہے جہاں روایات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے۔ مشہور ترک سیاح اولیاء چلیپی نے اپنی کتاب “سیاحت نامہ “میں بھی اس لکڑی کی بنی ایک بہت بڑی غلیل نما مشین (منجنیق )کا ذکر کیاہے جس پر باندھ کر کر حضرت ابراہیم کو آگ کے اس آلاؤ میں پھینکا گیاتھا۔

۱۴- عثمانی دور کے سکے ،مجسمے مہریں اور آرائشی اشیاء جن کی تعداد آٹھ لاکھ کے قریب ہے ۔

۱۵- ار نامو کے قوانین
یہ قوانین سومری زبان میں مٹی کی ایک تختی پر لکھے ہیں جو چار ہزار سال پرانی ہے۔ سومری یا سومر عراق کی ایک قدیم تہذیب کا نام ہے جو چار ہزار سال قبل مسیح سے لے کر تین ہزار سال قبل مسیح تک دریائے دجلہ و فرات ( موسمپوٹییمیا) کے درمیان موجود تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ سامی النسل نہیں تھے اور اس علاقے میں باہر سے آئے تھے۔ ان کی زبان اعلیٰ ترقی یافتہ تھی اور وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ان کی زبان سومری تھی، ان کی لکھی ہوئی تختیاں قدیم مصر سے ملنے والی تحریر سے بھی پرانی ہیں۔ یہ تہذیب کانسی دور یا بزنجی دور Bronz Age کی تہذیب تصور کی جاتی ہے، کچھ مورخین کا ماننا ہے کہ سومر 5500 اور 4000 ق م کے درمیان میں پہلی مرتبہ اس علاقے میں آ کر آباد ہوئے۔ سومیری تہذیب کا شمار دنیا کی اولین ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے، جو قدیم مصر کی تہذیب ، قدیم عیلام کی تہذیب، کارل سوپے کی تہذیب, قدیم سندھی تہذیب، میونسٹر اور قدیم چینی تہذیب کی ہم عصر تھی ۔

۱۶- سرپنٹین کے کھمبے پر ایستادہ تین منہ والے سانپ کا مجسمہ
سرپینٹین کا کھمبا۔ پیتل اور کانسی کا بنا تھا ۔ ۴۷۹ قبل مسیح میں جب یونانیوں نے ایرانیوں کو شکست دی تو اس فتح کی یاد میں یہ کھمبا اپنے سب سے مقدس مندر ڈیلفی میں نصب کیا تھا ۔ قسطنطین اوّل ۳۲۴ء میں اس کھمبے کو قسطنطنیہ لے آیا تھا اور لا کر اسے ہیپوڈوم کے میدان میں نصب کر دیا تھا۔ یہ کھمبا آج بھی ھائیہ صوفیہ کے سامنے ایک جنگلے کے اندر موجود ہے ۔ اس کھمبے کے اوپر تین منہ والے سانپ کا ایک مجسمہ تھا ۔ جو اب اس عجائب گھر میں رکھا ہے ۔

۱۷- صبا کا تعویز (تحریر)
یہ پتھر کی تختی پر لکھی تحریر ہے جو اشوریہ کے بادشاہ اداد کے دور (۷۸۳ قبل مسیح ) سے تعلق رکھتا ہے ۔

۱۸- مصری اور حتی صلح نامہ
مئی ۱۲۷۴قبل مسیح کو شام کے شہر کادش میں دریائے اورینٹس کے کنارے مصریوں اور حتی قوم کے درمیان جنگ ہوئی اس جنگ کو جنگ کادش کہتے ہیں ۔ کئی روز تک لڑائی جاری رہی ۔لیکن اس جنگ کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اور پھر جنگ کے خاتمے کے بعد بھی کئی سال تک دونوں قوموں کے درمیان کشمکش جاری رہی بالآخر ۱۲۵۸ قبل مسیح میں مصری فرعون ریمسس دوئم اور حتی شہنشاہ حتوسولی سوئم کے درمیان ایک صلح نامہ ہو ا۔ یہ معاہدہ مصری اور حتی زبانوں میں مٹی کی تختیوں پر لکھا گیا تھا۔ اس معاہدے کی حتی زبان والی تختی کی تین نقلیں تھیں جو ترکی میں حتئیوں کے دارلحکومت حتوسہ سے ملیں ۔ ان میں سے دو آجکل استنبول کے میوزیم میں ہیں ۔ اور ایک نقل برلن کے میوزیم میں ہے ۔ جبکہ مصری زبان والی تختی مصر کے شہر لکسر کے نزدیک کرنک میں ایک مندر کی دیوار میں کندہ ہے ۔ یہ مندر قدیم مصریوں کے چار مقدس ترین مندروں میں سے ایک تھا۔ اس معاہدے کی نقل نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکواٹرز کی دیوار پر نقش ہے۔

۱۹- دنیا کا سب سے قدیم محبت نامہ
اس تختی کا نام استنبول نمبر ۲۴۶۱ ہے کیونکہ ایسی تقریباً ۷۴۰۰۰ تختیاں قدیم نیپر شہر کے آثار قدیمہ سے ۱۸۸۰ء اور ۱۸۸۹۰ء کے درمیان کھدائی میں دوران ملی تھیں ۔ نیپر کے کھنڈرات عراق کے موجودہ شہر نفر کے قریب ہیں، جو کسی دور میں سمیری قوم کا گڑھ تھا۔ یہ محبت نامہ نظم کی صورت میں ہے اور تقریباً ساڑھے چار ہزار سال (۲۰۲۹- ۲۰۳۷ قبل مسیح ) پرانا ہے ۔ یہ نظم مٹی کی تختی پر قدیم فارسی زبان سہ گوشی میں لکھی گئی ہے - اسے ایرانی رسم الخط میخنی بھی کہتے ہیں ۔ قدیم انسان کے پاس لکھنے کا کافی سامان نہ تھا۔ اس لیے لکڑی کی کیل سے مٹی کی تختیوں پر تحریر نقش کر دیتا تھا۔ اس رسم الخط کی شکل میخ سے ملتی جلتی تھی۔ یہ رسم الخط ابتدا میں تصویری تھا۔ پھر تصاویر کے لیے علامات مقرر ہوئیں۔ ان علامتوں کے ذریعے جو رسم الخط وجود میں آیا۔ اسے علامت نگار کہا گیا۔ جو بعد ازاں فکر نگار اور آخر میں حرف نگار بنا۔ ایرانی میخنی رسم الخط دوسرے تمام میخنی خطوط جیسے بابلی وغیرہ سے سادہ تر اور صحیح تر ہے کیونکہ ایران کے علماء نے نہ صرف بابل کی فکرنگاری کو ابجدی حروف میں تبدیل کر دیا بلکہ ان کی شکل بھی آسان کر دی۔ انھوں نے ٹیڑھی میڑھی پیچیدہ میخوں کو ترک کر دیا اور صرف عمودی اور افقی میخوں کو اختیار کیا۔ اس رسم الخط کے حروف ابجد چھتیس (۳۶) ہیں۔ اور باقیات میں چار سو سے زیادہ اصل الفاظ نہیں ملتے ۔
اس نظم میں اکد اور سومر کے بادشاہ شوسین کو مخاطب کیا گیا ہے ۔
جس کا عنوان ہے
”شوسین کا نغمہ محبت“
یہ نظم انتیس لائنوں پر مشتمل ہے ۔ جس میں کوئی خاتون اپنے محبوب شہنشاہ شوسین کو بڑے ہیجانی اور اور رغبت دلانے والے انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے ۔
” میرے دلہا - اور میرے دل کے بہت قریب
شہد سے میٹھے -اور بہت خوبصورت
میرے شیر ۔ میرے دل کے قریب
شہد سے میٹھے -اور بہت خوبصورت
میرے دلہا رات میرے گھر پر میرے ساتھ گذارو
صبح صادق تک “

۲۰- جزر کلینڈر
یہ چار ہزار سال پرانی پتھر کی ایک تختی ہے جو ۱۹۰۸ء میں موجودہ اسرائیل کے شہر جزر میں پرانے کھنڈرات سے ملی تھی۔ یہ شہر یروشلم سے بیس کلومیٹر دور مغرب میں واقع ہے ۔ ماہرین آثار قدیم ابھی تک اس کو پڑھنے میں ناکام ہیں اور یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکے کہ یہ اس پر لکھی تحریر کس زبان کی ہے ۔

۲۱- سورگ کی تختی
اڑھائی ہزار سال پرانی یہ تختی یہودیوں کے سکینڈ ٹمپل میں بیرونی دروازے پر لگی ہوئی تھی ۔ اور اس پر مشرکوں کے لئے وارننگ ہے کہ وہ اس مقام سے آگے نہ جائیں ۔ ورنہ انہیں موت کی سزادی جائے گی ۔ اس دور میں رومی اور یونانی دونوں ہی مشرک گنے جاتے تھے۔ یہ ۱۸۷۱ء میں ایک فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ کو ماؤنٹ ٹمپل کی کھدائی کے دوران ملی جسے سلطنت عثمانی نے بحق سرکار ضبط کر لیا اور یہ آجکل اس میوزیم میں نمائش کے لئے رکھی گئی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور تعذیبی تختی کا ٹکڑا ۱۹۳۶میں یروشلم شہر کی فصیل کے لائن گیٹ کے قریب سے ملی تھی جو آجکل یروشلم کے میوزیم میں ہے ۔

۲۲- بلاوت کا گیٹ
لکڑی سے بنا یہ دروازہ جسے کانسی اور تانبے سے سجایا گیا ہے بلاوت شہر کی فصیل کا داخلی دروازہ تھا، جس کا تعلق آٹھ سو سال قبل مسیح کی آشوری تہذیب (بابل ونینوا)سے ہے۔ بلات شہر کے آثار قدیمہ عراق کے صوبہ نینوا میں موصل سے پچیس کلومیٹر دور واقع ہیں۔ اس شہر کی فصیل میں اس طرح کے تین دروازے تھے جن میں سے ایک اس میوزیم میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے ۔ یہ دروازہ اب بھی بہت اچھی حالت میں ہے ۔ یہ دروازہ ۱۸۷۸ء میں دریافت ہوا تھا۔ باقی دو دروازے برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں ۔ اس دروازے پر آشوری شہنشاہ نصیر پال دوئم اور شلمانشر سوئم کی تصاویر بنی ہیں اور ان کی تعریف میں کلمات لکھے گئے ہیں۔

۲۳- سمیرین برتن
یہ سیمرین دور سے تعلق رکھنے والے برتنوں کے ایک سو دو ٹکڑے ہیں جو ۱۹۱۰ء میں قدیم سلطنت اسرائیل کے دارلحکومت سبستیہ سے کھدائی کے دوران قدیم اسرائیل کے ساتویں بادشاہ اخیاب کے محل کے خزانے کی عمارت سے برآمد ہوئے۔ اخیاب ۸۷۱ قبل مسیح سے ۸۵۲قبل مسیح تک حکمران رہا۔ ان برتنوں پر ہیبرو زبان میں خزانے میں موجود چیزوں کا حساب کتاب لکھا ہے ۔

۲۴- سلوان کا کتبہ
یہ ہیبرو زبان میں پتھر پر لکھی گئی تحریر ہے جو دوہزار آٹھ سو سال پرانی ہے ۔ اور اب تک اسرائیل اور یہودا کے دور کی ہیبرو زبان کی سب سے قدیم ترین تحریر ہے۔ جب سے اسرائیل بنا ہے یہ تاریخی تختی ترکی اور اسرائیل کی حکومت کے درمیان وجہ تنازع بنی ہوئی ہے۔ یہ کتبہ ۱۸۸۰ء میں سلوان کی سرنگ سے ملا تھا ۔ اس سرنگ کو بھی کہتے ہیں ۔ اور اس تختی پر سرنگ کی تعمیر کی ساری تفصیل لکھی ہوئی ہے ۔ یہ سرنگ پانی کی سرنگ ہے جو آٹھ سو سال پہلے سلطنت یہودا کے تیرھویں بادشاہ ہزاکیا نے تعمیر کروائی تھی۔ حضرت سلیمان کے بعد یہودی سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ سلطنت یہودا کا دارلحکومت یروشلم تھا جبکہ سلطنت اسرائیل کا دارلحکومت سماریہ تھا جس کا موجودہ نام سبستیہ ے ۔ یہ زیر زمین سرنگ فن تعمیر کا عجوبہ ہے اور کیدرون کی وادی کے ایک چشمے سے سلوان کے تالاب تک پہاڑ کھود کر تعمیر کی گئی تھی جو اوپر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے ۔ اس چشمے کو حضرت مریم کا چشمہ بھی کہا جاتا ہے . یہ چشمہ تالاب سےکئی ہزار فیٹ نیچے کیدرون وادی میں ہے۔ اور اس سرنگ کے ذریعے پانی کو بغیر کسی موٹر یا پمپ کی مدد کے پہاڑ پر واقع تالاب تک لے جایا جاتا تھا۔ یہ تالاب سٹی آف ڈیوڈ (یروشلم ) کو پانی کی مہیا کرتا تھا ۔ یہ پانی نہ صرف پینے کے کام آتا بلکہ کھیتی گاڑی بھی اسی پانی سے کی جاتی تھی۔ اور اسی چشمے کی وجہ سے یروشلم شہر آباد ہوا کیونکہ اور دور دور تک کہیں پانی کی رمق تک موجود نہ تھی۔

یروشلم کی سیر کے دوران مجھے بھی داؤد کے شہر میں یہ سرنگ ، چشمہ اور تالاب دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اور ان کا ذکر یہودیوں کی مقدس کتابوں (بائبل ) کرونیکلز اور کنگز میں موجود ہے۔ یہ سرنگ اور اس سے وابستہ ہر چیز یہودیوں کے لئے کئی وجوہات کی بناء پر انتہائی اہم ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ کہ چونکہ اس سرنگ کا ذکر ان کی بائبل میں آیا ہے اس لئے جب ۱۸۳۸ء میں یہ سرنگ دریافت ہوئی تو پوری دنیا میں یہودی مذہب کی حقانیت اور سچائی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔ دوسری اہم ترین وجہ یہ ہے کہ بلا شبہ یہ سرنگ انجنیئرنگ اور فن تعمیر کا انتہائی شاندار نمونہ ہے اور اس کا تعلق ان کے اس سنہری دور سے ہے جب یہودی دنیا کی طاقتور ترین قوموں میں سے ایک تھے لہذا وہ اس سرنگ کو یہودی قوم کے تہذیب یافتہ ہونے اور علم وہنر میں طاق ہونے کی اعلی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور بڑے فخر سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ۱۸۸۰ء میں لندن کے ایک یہودی سکول کے طلباء سیر کے لئے اس سرنگ میں گئے اور دوران سیر ایک طالب علم پاؤں پھسلنے کی وجہ سے سرنگ کے کنارے کھڑے پانی میں گر گیا اور جب وہ باہر نکلا تو اس نے اس تختی کے بارے میں بتایا جو سرنگ کی دیوار پر چسپاں تھی۔ یہودیوں نے چوری چھپے اس تختی کو دیوار سے نکال کر چھپا لیا اور اس عمل کے دوران یہ کئی جگہ سے ٹوٹ بھی گئی۔ کئی سال کے بعد ترکی کے آرکیالوجیکل میوزیم کے منتظم نے فلسطین کے ترک گورنر (متصرف القدس) ابراہیم ہکی پاشا کی توجہ اس طرف دلائی جس نے اس تختی کی تلاش شروع کی تو پہلے یہودیوں نے اس کی نقل پیش کی، بعد میں ۱۸۹۱ء میں اصل بھی برآمد کر لی گئی اور عثمانی گورنمنٹ نے اسے سلطنت عثمانیہ کے اس قانون کے تحت بحق سرکا ضبط کر لیاکہ آثارقدیمہ سلطنت کی امانت ہوتے ہیں۔ پہلے اسے یروشلم میں نمائش پر رکھا گیا ، جہاں پوری دنیا سے یہودی اسے دیکھنے کے لئے پہنچے. ۱۸۹۶ء میں اسے قسطنطنیہ کے آرکیالوجیکل میوزیم میں منتقل کر دیا گیا ۔ اس کی ہوبہو نقل یروشلم کے میوزیم میں ہے اور ایک نقل سرنگ میں دیوار کے اس حصے میں چسپاں کی گئی ہے جہاں سے اصل تختی کو نکالا گیا تھا۔ یہ تختی پچھلے ستر سال سے ترکی اور اسرائیل کے درمیان وجہ تنازع ہے ۔ اسرائیل کی گورنمنٹ کئی دفعہ اس کی واپسی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ ۱۹۹۸ء میں اسرائیلی وزیراعظم نے پہلے ترکی کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ۔ اس کا مقدمہ عالمی عدالت میں لے کر جانے کی دھمکی دی ۔ پھر کسی بھی قیمت پر اسے خریدنے کی پیشکش کی ۔ اس کے بعد سے یہ پیشکش کئی دفعہ دہرائی جا چکی ہے لیکن ترکی کی گورنمنٹ نے جھکنے سے انکار کر دیا ہے ۔