سبز پہاڑوں کی بلندیوں پر وہاں جہاں گنگناتا چشمہ خوشی سے بہتا جاتا ہے،
نظارے آوازیں دیتے ہیں، ہوائیں سرگوشیاں کرتی ہیں،
بار بی کیو کی اشتہا انگیز خوشبوئوں اور ان سب کی ہنسی اور آوازوں میں زندگی بولتی ہے،
وہیں دل کی آنکھیں اپنے پیاروں کو ستم کی بھٹی میں جھلستا دیکھتی ہیں،
باغوں کی اس حسین بستی سے دور وہاں، جہاں گاڑھے سیاہ دھویں کے بادل اٹھتے ہیں، بارود کی بو میں زندگی کا دم گھٹتا ہے، انسانوں کا خون بہتا ہے، ان ہی جیسے انسانوں کا خون جو یہاں دریا کنارے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں، اور بار بی کیو کر رہے ہیں، اس گھنگھریالے بالوں والی بچی جیسی ایک ننھی پری وہاں دیوانوں کی طرح دوڑتے اپنے بابا کے کاندھے پر آخری سانسیں لے رہی ہے...
اور پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھی دلکش مسکراہٹ والی اس لڑکی جیسی ایک شہزادی دھویں کے بادلوں میں اپنی بڑی بڑی آنکھیں مسل رہی ہے.
وہ پانچ دریاؤں والی سرزمین جس کے سینے پر ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیاں شان سے سر اٹھائے کھڑی ہیں.. جہاں نارنجیوں اور آم کے باغات ہیں، سنہری گندم کے کھیت ہیں، جھاگ اڑاتا کئی رنگوں والا سمندر ہے..
جہاں بسوں پر شہد کی مکھیوں کی طرح لدے بے شمار انسان زندگی کا سفر کاٹتے ہیں،
جہاں سے سب دل دہلا دینے والی روتی سسکتی خبریں لاتے ہیں،
وہیں سے جہاں فٹ پاتھوں پر دوپہر اور شام دستر خوان سجا کر ستم رسیدوں کو کھانے کھلائے جاتے ہیں،
ہسپتال کے بستر پر لا وارث پڑی بڑھیا کے لیے ڈیوٹی پر موجود نو آموز ڈاکٹر پیسے جمع کر کے دوائیں اور ضروری آلات خرید کر لاتے ہیں.
جہاں درختوں کے نیچے محروم بچوں کے لیے اسکول سجائے جاتے ہیں..
جہاں وہ جان نچھاور کرنے والا سرخ چہرے والا ڈرائیور ہے، تکلیف دہ بیماری سے لڑ کر بلندیوں پرجا پہنچنے والی وہ پیاری سی لڑکی ہے، کڑوے تیل سے جلتے دیے کی لو میں اناٹومی کے پیپر کی تیاری کرتی وہ خواب دیکھنے والی شا عرہ ہے، جہاں کسی کی بھی برائی کرنے پر خفا ہو جانے والے اس دیوانے لڑکے کے سائے ہیں، جہاں میلے کپڑوں اور ٹوٹی چپل والے چوکیدار کے لیے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دینے والا وہ کم گو کنسلٹنٹ ہے..
کس کس کا ذکر ہو؟ بے شمار ستاروں کی ایک کہکشاں ہے، جو دل کی دنیا کو جگمگائے رکھتی ہے.
مانا کہ وہاں غم کے سائے ہیں، ظلم و جبر ہے، مایوسی کے بادل ہیں
مگر وہاں وہ سب بھی ہیں جو اندھیری راتوں میں اپنےحصے کے چراغ جلاتے ہیں.
ہاں، اس مادی وجود کو متحرک رکھتی روح تو وہیں تیرتی رہتی ہے..
انہی فضاؤں میں سانس لیتی ہے، ان کے آنسوؤں کی نمی اپنے رخساروں پر محسوس ہوتی ہے، ان کے غم سے اپنا کلیجہ پھٹتا ہے. اور ان کی خوشی پر اپنا دل جھومتا ہے.
یوں جیسے آئی سی یو کی کھڑکی سے جھانکتے اپنے پیارے کو بیماری کے عفریت سے لڑتا دیکھنے والا اپنے آپ کو لمحہ بہ لمحہ اسی کی طرح تڑپتا اذیتوں میں گھرا محسوس کرتا ہے.
اور اس کی زندگی کی تمنا اپنی زندگی کی قیمت پر کر لیتا ہے.
چمکتی جھلملاتی شور مچاتی دنیائوں میں کچھ دیوانے اپنے دل کے تنہا خاموش ایوانوں میں تمھارے لیے محبّت کے چراغ جلا رہے ہیں.
خدا کرے کہ یہ کچھ روشنی کریں....
اففففففف...
جویریہ سعید.....
ایک اک حرف میں گویا سانس تھمتی ہوئی محسوس ہوتی ہے....
مجھے کہیں لفظ دکھائی ہی نہیں دیا... جانے ریشم سے بنی گئی تحریر ہے یا اس سے بھی نازک تر روح سے.. ..
روشنی تو بہر کیف پھیلتی جارہی ہے!
جوڑتی جارہی ہے!
روحوں کو عہدِ الست میں باندھے والے سے اک عرضی ہے کہ نور کا اِک فوارہ اس پار دور کسی جھیلوں کی بستی میں بسنے والی روح سے جڑی ساتھی کے قلم سے باندھ دے کہ ان حیات آفریں قطروں کے بعد پیاسے من کو تیز بوچھاڑ کی چاہت ہے!
نور و سرور، راحت و آسودگی کی دعاؤں کے ساتھ.... ????