ہوم << ہمارا عمل بولے گئے لفظوں سے زیادہ گونج دار ہونا چاہیے- عاصمہ حسن

ہمارا عمل بولے گئے لفظوں سے زیادہ گونج دار ہونا چاہیے- عاصمہ حسن

خاموشی بہترین عمل ہے ـ احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خاموشی اسلام میں ایک پسندیدہ اور حکمت سے بھرپور صفت ہے ـ خاموشی ہمیں بہت ساری برائیوں اور فسادات سے بچا لیتی ہے ـ خاموش رہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم کم زور ہیں یا ہمیں جواب دینا نہیں آتا یا ہم ہار گئے ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ہم سمجھدار ہیں اور وقت آنے پر اپنا بھرپور جواب اپنے عمل سے دیں گے ـ

جو لوگ ضرورت سے زیادہ بولتے ہیں وہ اپنی قدروقیمت کھو دیتے ہیں کیونکہ اکثر ان کے پاس بولنے کو کچھ معقول نہیں ہوتا لیکن چونکہ بولنا ان کی عادت ہے اس لیے بلاجواز' بغیر سوچے سمجھے بول دیتے ہیں اور پھر بولنے کے بعد ان کو احساس ہوتا ہے کہ روانی میں یا اپنی بے وقوفی میں کیا بول گئے ہیں ـ جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑتا ہے ـ زیادہ بولنے والے کی مثال ایک طوطے کی طرح ہے جو بہت زیادہ اور چیخ دار آواز میں بولتا ہے ' بلاوجہ ادھر ادھر پھدکتا ہے ' اپنے پروں کو کھجاتا رہتا ہے ـ اس کے مقابلے میں عقاب خاموشی سے اپنے شکار پر نظر رکھتا ہے اور جھپٹتا ہے ـ اس کی نظر اپنے ہدف پر ہوتی ہے ـ وہ آسمان پر اونچی پرواز بھرتا ہے لیکن شور نہیں مچاتا ـ

حالیہ بھارتی پروپیگنڈے میں بھی یہی ہوا کہ بھارت نے بہت بڑی بڑی ڈینگیں ماریں نتیجہ کیا نکلا ؟ اس کو منہ کی کھانی پڑی ـ پوری دنیا میں جگ ہنسائی الگ ہوئی ـ اس نے نہ صرف اپنا وقار کھو دیا بلکہ خود کو پوری دنیا کے سامنے کمزور ملک بھی ثابت کر دیا ـ اس لیے کہتے ہیں کہ خاموشی ہمیں ہزار مشکلوں' پریشانیوں اور برائیوں سے بچا لیتی ہے ـ ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہئیے دوسروں کے لیے گڑھے نہیں کھودنے چاہئیے کیونکہ ان میں ہم خود گر جاتے ہیں اور اپنا ہی نقصان کرواتے ہیں ـ

قدرت نے زبان سب کو عطا کی ہے اور بولنا بھی سب کو آتا ہے لیکن کب' کس وقت اور کیا بولنا ہے یہ مہارت یا فن ہم سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے ـ اپنے منہ میاں مٹھو تو سب بن جاتے ہیں لیکن مزہ تب ہے جب ہمارے اخلاق' اعلیٰ ظرف اور کردار کی دوسرے لوگ گواہی دیں ـ اپنا آپ منوانا اور اپنی ساکھ کو برقرار رکھنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے ـ صرف ایک غلطی یا ہمارا بولا ہوا ایک غلط لفظ ہماری ساری عمر کی ریاضت کو ایک سیکنڈ میں مٹی کا ڈھیر بنا سکتا ہے ـ

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بولنے سے پہلے بات کو تولو ' سمجھو اور پھر بولوـ مولانا روم ؒ کے مطابق گفتگو کے تین دروازے ہیں ـ یعنی بولنے سے پہلے اپنی بات کو تین دروازوں میں سے گزارو ـ پہلا یہ کہ کیا یہ بات اس موقع پر کہنا ضروری ہے ؟ دوسرا یہ کہ کیا اس بات سے کسی کی دل آزاری تو نہیں ہو گی ؟ تیسرا یہ کہ کیا یہ بات سچ یا حقائق پر مبنی ہے ؟

ہمارا بولا ہوا ہر لفظ بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ ہمارے یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو دل میں اتر جاتے ہیں اور وہیں ہمیں دل سے اتار بھی دیتے ہیں ـ

ہمیشہ یاد رکھیں کہ اپنے عزائم کا یا مقاصد کا پرچار نہ کریں ' جب تک آپ اپنا ہدف حاصل نہ کر لیں ـ خاموشی سے محنت جاری رکھیں ' ہمیشہ نظر اپنی منزل پر رکھیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے عمل سے لوگوں کو شش و پنج میں ڈال دیں ـ جیسے پاکستان نے اپنی شاندار حکمتِ عملی اور کارکردگی سے پوری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا ـ ہماری نظر اپنے مقصد' اور نتائج پر ہونی چاہئیے نہ کہ بولنے' الزام عائد کرنے یا اپنے ارادوں کا پرچار کرنے پر ـ

ہمیشہ نپا تلا بولیں جس سے آپ کی شخصیت کا اچھا اور گہرا تاثر پڑے جیسے آجکل پورا پاکستان ائیر وائس مارشل اورنگزیب احمد کے بولنے کے انداز کا دیوانہ ہو چکا ہے ـ الفاظ ایسے ہوں جو پھول بن کر جھڑیں اور دل میں اتر جائیں نا کہ شیخ چلی کی بھڑکوں میں ان کا شمار ہو اور لوگوں کو ہنسنے اور مذاق بنانے کا موقع فراہم کریں ـ

بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سوچ سمجھ کر حقائق پر مبنی بات کی جائے ـ جھوٹ سے گریز کیا جائے کیونکہ جب ایک دفعہ اعتبار اٹھ جائے تو دوبارہ اعتبار حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے ـ اس لیے کبھی بھی ' کسی بھی معاملے میں زبان اس وقت تک نہ کھولیں جب تک اس بات کی سچائی پر یقین نہ ہو ـ کوئی لفظ ایسا نہ بولیں جس پر بعد میں پچھتانا پڑے یا صفائیاں دینی پڑیں' اُس بات کی وجہ سے مزید چھوٹ بولنے پڑیں ـ

کچھ لوگ خود کو کامل سمجھتے ہیں اُن کے خیال میں وہ کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتے لہذا ان کی نظر میں ان کی کہی ہر بات درست ہے لیکن جب کوئی ان سے اختلافِ رائے کرتا ہے تو ان کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے ' پھر وہ لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں ـ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اونچا بول کر یا چیخ و پکار کر کے ہم یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ہم صحیح ہیں ـ اس کے برعکس ہمیں ایسے لوگوں جو خود کو کامل سمجھتے ہیں' سے بحث نہیں کرنی چاہئیے ـ بقول سقراط " اگر کوئی گدھا مجھے لات مارتا ہے تو کیا میں اس پر مقدمہ کروں گا یا اس سے بدلہ لوں گا ؟ "

ہمیں اپنی توانائیاں' قابلیت اور تمام تر صلاحیتیں صرف اور صرف اپنے مقصد کو حاصل کرنے پر لگانی چاہئیے ' نہ کہ بحث و مباحثہ جیتنے پر اپنی طاقت کو ضائع کریں جس کا کوئی حاصل مقصد ہی نہ ہو ـ ہماری زندگی کا ہر ایک لمحہ بہت قیمتی ہوتا ہے' اسے بامقصد گزارنا چاہئیے ـ

خاموشی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے ' جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم کم تر یا کم عقل ہیں بلکہ دیکھا جائے تو خاموشی میں بھی جواب پنہا ہوتا ہے اور عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور جب بولیں تو یہ سوچ کر بولیں کہ کن کے سامنے بول رہے ہیں ' کیا ان کے سامنے اپنے دل کی بات کرنا' یا عزائم کا اظہار کرنا مناسب ہے بھی یا نہیں ؟

ہمیں یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ اعمال' الفاظ سے زیادہ بلند آواز میں بولتے ہیں ـ ہمیں کارکردگی سے اپنی اہلیت اور قابلیت کو ثابت کرنا چاہئیے ـ خود نمائی یا خود توصیفی کے ذریعے ہم لوگوں کو وقتی طور پر متاثر کرنے میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن جب ہمارے اعمال ' ہمارے کہے لفظوں کا ساتھ نہیں دے پاتے تو یہ اثر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے ـ

ہماری کامیابی کا راز ہی اسی میں ہے کہ ہم خاموشی سے خود پر کام کریں ' اپنے وقت اور صلاحیتوں کا درست استعمال کریں ' اپنی نشونما پر توجہ مرکوز رکھیں ' اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی اور محنت و لگن سے کام لیں ـ اپنی کارکردگی کا خود جائزہ لیں اسے بہتر بنانے کے لیے تگ و دو کریں ' اپنے ماضی سے سبق حاصل کریں اور تجربات سے سیکھیں' پہلے سے بہتر حکمتِ عملی تیار کریں ـ خود کو آنے والے چیلنجز کے لیے تیار کریں تاکہ مشکل وقت میں بوکھلائیں نہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرسکیں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ابھریں ـ

سچ زیادہ وقت تک چھپ نہیں سکتا ـ ہمیں دوسروں کی سطح پر آکر نہیں بلکہ اپنے معیار کے مطابق چلنا چاہئیے' اپنی ساکھ کا سوچنا چاہئیے ـ عقل مندی' بردباری ' تحمل مزاجی اور صبر سے کام لینا چاہئیے ـ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہمیں خود پر ' اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے تو ہمیں یہ سب ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ـ کیونکہ یہ وہ خوائص ہیں جو خود بہ خود سامنے آ جاتے ہیں کیونکہ ہمارا عمل ' ہمارے بولے گئے لفظوں سے زیادہ بڑا' معتبر اور گونج دار ہوتا ہے ـ

Comments

Avatar photo

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment