ہوم << بچوں کی تربیت کیسے کریں? صالحہ محبوب

بچوں کی تربیت کیسے کریں? صالحہ محبوب

بچے ماں باپ سے بدتمیزی کرتے ہیں یہ بھی ایک عام سوال ہے یہاں بھی معاشرے، سکول، اساتذہ اور رشتے داروں پر کڑھنے سے زیادہ خود کو محدب عدسے کے سامنے رکھ لیں. یقین مانیں کہ بچہ وہی الفاظ، لہجہ اور اظہار سیکھتا ہے جو اس کے والدین نے سکھائے ہیں. اپنے گھر کا ماحول درست رکھیں رویے درست ہو جائیں گے. شوہر سے زیادہ شکوے شکایات یا بیوی سے زیادہ توقعات بچوں کے ذہنوں اور زبانوں دونوں میں تھوہر اگا دیتے ہیں.

یاد رکھیں ہمارے گھر اس امت مسلمہ کی نرسریاں ہیں. یہیں سے محمد بن قاسم بھی پیدا ہوتے ہیں اور طارق بن زیاد بھی ،انبیاء نے بھی ماؤں ہی کی گودوں سے تعلیم و تربیت حاصل کی. ماں کے رتبے کو پہچانیے اس کی قدر اور محبت کریں اس ننھے سے وجود کو اپنا سارا سرمایہ سمجھتے ہوئے اسے اچھے سانچے میں ڈالنے کے لیے محنت کریں.انشاءاللہ کل آپ کے لیے وٹامن کی گولیاں ان کی موجودگی ہوگی ،آپ کی شفا ان کی محبت ہوگی، آپ کی خوشی ان کی ترقی اور خوشحالی ہوگی.

جب بچے کی اچھی عادات کی گواہی معاشرہ دیتا ہے تو ماؤں کا سر کیسے فخر اور خوشی سے بلند ہو جاتا ہے.سو یہ محاذ ہمارا ہے یہ ننھے ننھے سپاہی ہمارے ہیں ان کی تربیت کریں تاکہ وقت گزرنے کے بعد ہم ملامت زدہ نہ رہ جائیں.

بچوں کے دوستوں پر بھی ضرور نظر رکھیں. آج کل بچوں میں منشیات کے استعمال کے بارے میں خبریں خاصی گرم ہیں. اب بچوں کو سکول بھیجنا بھی ضروری ہے پھر وہاں ان پر نظر کیسے رکھی جائے.یہ یقینا ایک تشویش ناک بات ہے.

اس صورت میں پہلی بات تو سکول انتظامیہ اور اساتذہ سے مسلسل رابطہ ضروری ہے. دوسرے اس موضوع پر اپنے بچے سے ضرور گفتگو کریں. منشیات کے نقصانات پر روشنی ڈالیں پھر انہیں اس سے بچنے کی تدابیر بتائیں.بچوں کے دوستوں کے بارے میں بات کریں اگر ہو سکے تو ان بچوں کے والدین سے بھی ملیے.ہمارے والدین سالوں پہلے اس سلسلے میں خاصے محتاط ہوا کرتے تھے میری ایک نئی لڑکی سے کالج میں دوستی ہوئی تو اس کے نانا ابو نے میرے والد کو اپنے گھر چائے پر بلایا اور ملاقات کے بعد ہم دونوں کو اکٹھے آ نے جانے کی اجازت دی. اسی طرح کا اہتمام اب بھی ممکن ہے بچوں اور بچیوں دونوں کے دوستوں کے والدین سے ضرور ملاقات کریں.بہرحال یہاں بھی وقت نکالنے اور کوشش کرنے کی ضرورت ہے اگر بچے کے رویے میں کوئی تبدیلی دیکھیں تو کبھی مائیں باپوں سے چھپانے کی کوشش نہ کریں یہ پہلا غلط قدم ہوتا ہے جو بچوں کے لیے ساری زندگی کی ناکامی کا سبب بن جاتا ہے.

خود کو عقل کل سمجھنا اور شوہر کو بچوں کے معاملات سے غافل رکھنا غلط بات ہے. بچوں کو سارا دن صرف سکول کالج اور اکیڈمی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی درست نہیں. کبھی کبھار ان سے پڑھائی کے بارے میں پوچھ لینا چاہیے.مدد کے بہانے یا جائزہ لینے کے بہانے آپ بچوں کی پڑھائی سے واقف رہیں گے تو بہتری یا کمزوری سے بھی آگاہی ملتی رہے گی. بچے کے کمزور پہلو بھی آ پ کی نگاہ میں رہیں گے اور اسی طرح صحبت پر بھی نظر رہے گی. دوسرا ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ آپ کی دوست کا بچہ ایک الگ بچہ ہے اور آپ کا بچہ ایک منفرد اور الگ. کبھی دوسروں کی مثالیں تواتر سے نہ دیں کہ وہ ایک فرد جرم ہی بن جائیں.

زندگی کامیابی اور ناکامی دونوں کا مجموعہ ہے.کامیابی پر تو ساری دنیا مل کر تالیاں بجاتی ہے مگر ناکامی کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ہوتا. اگر آپ کا بچہ کسی میدان میں ناکام ہو جائے تو اس کے غم گسار مددگار اور محافظ بن جائیں. اسے تسلی دیں ،حوصلہ دیں اور دوبارہ سے مقابلے کے لیے تیار کریں.اس میرٹ میرٹ اور میرٹ کے چکر میں والدین ہی بچوں کی ناکامی کے سب سے بڑے نقاد بن کر سامنے آتے ہیں. دنیا احساس دلانے کے لیے بہت کافی ہے.آپ بچے کو دوسری صف میں کھڑے نظر آنے چاہیں. اس کے اپنوں پیاروں حوصلہ دینے والوں اور ہمت بندھانے والوں کی صف میں. اسے اپنے بہترین دوست گھر میں ہی مل جائیں.

مائیں اس ضمن میں اپنی قسمت کو کوسنے اور بچوں کو باتیں سنانے کا زیادہ حقدار سمجھتی ہیں. آپ کا بچہ پانچویں میں ناکام ہو یا ایف ایس سی میں، نوکری کے حصول میں ناکام ہو یا وظیفے کے حصول میں، ماں والا رول نبھائیں. اسے اپنا وہی معصوم پھول سمجھیے جو پہلا قدم اٹھاتے ہوئے گر جاتا تھا تو آپ اسے تھام لیتی تھیں. کبھی اسے برا نہ کہتی تھیں اس کے لیے آرام دہ جوتوں کا انتخاب کرتیں فرش پر نرم کپڑے کا اہتمام کرتیں اسے چوٹوں سے بچاتی تھیں اور اب محض 10 12 برس بعد اس گرنے پر آپ ہی اسے برا بھلا کہیں.???

اپنے پھول،جان کے ٹکڑے ،اپنے بچے کو ہمت دلائیں اگر دوبارہ کوشش بھی ناکام رہی تو اس کے جوتوں کی مانند گول آسان کر دیں. اس کا میدان عمل بدل دیں. اپنے توقعات کا لیول کم کر دیں. مگر خدارا اسے کوسیں مت خود کو بدقسمت بھی نہ کہیں. اپنے احسان بار بار مت جتائیں ہر آئے گئے کے سامنے فکرمندی کا اظہار نہ کریں. بچے کی عزت نفس اور خودداری کا احترام کریں. اس وقت بچے کو ماں کی محبت کی ضرورت ہوتی ہے بچے کے ساتھ کھڑی ہو جائیں.

Comments

Avatar photo

صالحہ محبوب

صالحہ محبوب خاتون خانہ، کہانی کار اور افسانہ نگار ہیں۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ قلمی سفر کا آغاز زمانہ طالب علمی میں کیا۔ ماہنامہ بتول، عفت اور اردو ڈائجسٹ میں کہانیاں لکھتی ہیں۔عورت، ماں، بیوی، بیٹی اور بچوں کی تربیت ان کے موضوعات ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ 'پانیوں کی بستی میں' شائع ہو چکا ہے۔ دوسرا مجموعہ اشاعت پذیر ہے۔

Click here to post a comment