ہوم << کشمیری شہداء کی بے چین روحوں کا مطالبہ آزادی - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

کشمیری شہداء کی بے چین روحوں کا مطالبہ آزادی - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

صوبے دار صاحب نے بیٹی کی شادی کے لیے چھٹی مانگی تو کرنل صاحب بولے: "ہوش کرو, حالت جنگ میں آپ چھٹی مانگ رہے ہیں"؟ صوبیدار نے منت سماجت شروع کر دی کہ بیٹی کی شادی تھی۔ کرنل صاحب بولے: "دیکھو صاحب, وہ دور دشمن کا ٹینک ہے اگر وہ لے آؤ تو چھٹی منظور". اگلے دن صوبیدار صاحب سلیوٹ جھاڑ کر بولے: "سر ٹینک حاضر ہے". کرنیل صاحب کھڑے ہو گئے۔ "واٹ؟ واٹ؟ کیا باکتا ہے؟ کدھر ہے ٹینک"؟ اب صوبیدار نے کڑاکے دار سلیوٹ جھاڑ کر باہر کو اشارہ کیا: "سر ٹینک ملاحظہ ہو". دیکھا تو بھارتی پرچم سمیت ٹینک کھڑا تھا۔ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ پھرحکم دیا: "یہ بتانے پر چھٹی دی جائے گی کہ ٹینک آیا کیسے".

آفیسر انچارج آ کر بولا: "سر آپ کنٹرول لائن پر ابھی نئے ہیں۔ ہفتہ پہلے یہی مسئلہ دشمن کے صوبیدار منگل سنگھ کو درپیش تھا تو وہ ہمارا ٹینک لے گئے تھے۔ لین دین چلتا رہتا ہے۔" یہ لطیفہ ہم اکثر سننے ہیں۔ کسی کو علم نہیں کہ پہلگام میں حالیہ خون ریزی کس نے کی۔ بھارت ہمیں ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور پاکستان تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے۔ میں تین سال سے لکھ رہا ہوں کہ ہماری قیادت نے کچھ فیصلے کر لیے ہیں جن پر وہ عمل پیرا بھی ہے۔ لیکن "دانشور" اسے کبڈی کا مقابلہ کہہ کر رننگ کمنٹری مانگتے ہیں۔ ذرا صبر!

سانحہ پہلگام بھارتیوں کا اپنا کیا دھرا ہے۔ یہ کیا دھرا "صوبیدار منگل سنگھ بھی ہمارا ٹینک لے گیا تھا" والا ہے۔ یہ لطیفہ انڈین نادرن کمانڈ کے جنرل ششندر کمار کے اس بیان سے ملا کر پڑھیں: "سانحہ پہلگام میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں. یہ ہمارے ہاں اندرونی طور پر ہوا ہے". گویا: "ہم بھی ان سے ٹینک مانگ لاتے ہیں". لیکن اس دفعہ پاکستان نے اپنا یہ نادیدہ ٹینک بڑے سلیقے سے استعمال کیا۔ پہلگام میں قتل عام بھارتی اداروں نے خود کیا۔ پاکستان نے ہوم ورک کیا، پھر اپنا ٹینک صوبیدار منگل سنگھ کو دے دیا۔ خفیہ اداروں کے کام یوںہی ہونا چاہییں۔ کابل میں چائے کی پیالی پر تصویر بنوانے والے خفیہ ادارے کے سربراہ کے فیض سے اب ہم، الحمدللہ، محفوظ ہیں۔ اور توقع ہے کہ صوابی والے باصلاحیت لیکن نرگسیت کے مارے میجر صاحب جیسے لوگوں سے بھی ہمارے خفیہ ادارے خالی ہو چکے ہوں گے۔ خود نمائی، جو خفیہ اداروں کے لیے زہر ہلاہل ہے، انہیں کیمرے کے آگے کھڑا کر دیتی ہے: "میں نے اسرائیلی ایجنٹ کا یوں سراغ لگایا، میں نے یہ کیا، وہ کیا"۔ آج خود جنرل ششندر اعترافی بیان دے چکا ہے اور کسی کو پتا نہیں کہ نادیدہ پاکستانی ٹینک اسے دیا کس نے تھا۔

1965 میں بغیر ہوم ورک کیے ہم نے مقبوضہ کشمیر میں اس امید پر چھاتہ بردار اتار دیے کہ کشمیری مدد دیں گے۔ لیکن بمشکل چند بچ پائے۔ کشمیریوں نے انہیں پکڑ کر بھارتی فوج کے حوالے کر دیا تھا۔ نہ تو تب کی فوجی قیادت پر الزام ہے کہ اس نے بغیر تیاری کے ایسا کیوں کیا۔ کام ہوگا تو غلطی بھی ہو گی۔ کشمیریوں پر بھی الزام نہیں کہ انہوں نے ہمارے گوریلوں کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیوں کیا۔ وہاں اپنے حق میں ہم نے زمین ہموار ہی نہیں کی تو کشمیری مجرم کیوں؟ پھر مرحوم بھٹو نے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ کشمیر ان کے بلڈ گروپ میں تھا۔ یاد کیجئے، انہوں نے کشمیر کے دونوں حصوں میں پہیہ جام کی اپیل کی تو ہڑتال اتنی کامیاب ہوئی کہ مقبوضہ کشمیر میں، محاورتاً کہہ لیجیے، گھونسلوں سے پرندے بھی نہیں نکلے۔ یہ کامیاب سلسلہ افغانستان میں سوویت مداخلت کے سبب معطل ہو گیا۔ لیکن جنرل ضیا اپنے آخری ایام میں تحریک آزادی کشمیر میں نئی جان ڈال کر اور تحریک آزادی شروع کر کے شہید ہوئے تھے۔

اپنے ماضی میں مضبوط جڑیں رکھنے والی قوم کا حافظہ اتنا توانا ہوتا ہے کہ اس کی قوت انجذاب اور تخیل انکسار، فکر امروز سے مطلقا بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ ایسی قوم کا اثاثہ وہ اصحاب ادراک ہوتے ہیں جو اپنی ذات اور فکر حیات و ممات کے پنجرے سے نکل کر فکر فردا کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہی لوگ قوم کا حافظہ ہوتے ہیں۔ یہ حافظہ بھٹو یا جنرل ضیا کی طرح مر جائے تو بھی زندہ رہتا ہے۔ مسلم بنگال کے "بنگ بندھو" نے زناریوں سے مل کر بزحم خود دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا۔ وہی دو قومی نظریہ، کہیں اور نہیں مسلم بنگال کے اندر، آج روہنگیا مسلمانوں کی للکار بن چکا ہے۔ اسی دو قومی نظریے نے آج مسلم بنگال کے در و دیوار سے بنگ بندھو کو نوچ کھرچ کر اتار پھینکا اور قرارداد پاکستان والے فضل حق کو زناریوں کا منہ چھڑانے کے لیے اپنے کرنسی نوٹوں پر لا بٹھا دیا۔ حالیہ پاک و ہند جنگ میں ڈھاکہ کی گلیوں بازاروں سے اسی دو قومی نظریے کی سرحد شکن آوازیں آپ نے یقینا سنی ہوں گی: "تیرا میرا رشتہ کیا؟ لا الہ الا اللہ۔ چنبیلی کے پودے پر کبھی ناگ پھنی کی پیوند کاری ہو پائی ہے؟ بدطینت کہیں کے!

مضبوط قوت مدرکہ والی ہماری قیادت مقبوضہ کشمیر میں اب ہر جگہ، ہر گھر میں دو قومی نظریہ کاشت کر چکی ہے۔ ہوم ورک مکمل ہے۔ اب وہاں ہمارے چھاتہ برداروں سے 1965 والا سلوک ہرگز نہیں ہوگا۔ اب اگر اسلحہ بردار گوریلے اتارے گئے تو نبی کے ان امتیوں کے لیے وہاں کا ہر گھر ابو ایوب انصاری کا گھر ثابت ہوگا۔ وہاں کے ہر گھر سے شہداء کے جنازے اٹھ چکے ہیں۔ لوہا گرم ہے۔ وادی کے مرد و زن ہم سے مل کر کشمیر کو سات لاکھ بھارتی فوجیوں کا قبرستان بنا کر رکھ دیں گے۔ مسلم بنگال میں بھارت نے یہی کچھ تو کیا تھا۔ مکتی باہنی بگڑے بنگالیوں پر مشتمل تھی تو ان کا سرپرست کیا بھارت نہیں تھا؟ کیا پاکستانی فوج نے مکتی باہنی کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے؟ ان غداروں سے کہیں زیادہ البدر اور الشمس کے کفن پوش پاکستان کی حفاظت کے لیے موجود تھے۔ لیکن بھارت نے ننگی جارحیت کرکے مسلم بنگال ہم سے جدا کر دیا۔ یہی کام اب مقبوضہ کشمیر کے اندر ہمارے کرنے میں کیا امر مانع ہے جہاں کا ہر گھر ہمارے "جگجیت سنگھ اروڑا" کے داخلے سے پہلے ہی وہاں کی "مکتی باہنی" سے بھرا پڑا ہے؟ جہاں بھارت کے لیے البدر یا الشمس جیسا ایک شخص بھی نہیں ہے۔

رہا بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی معاہدات تو یاد رکھیے، بھارت پچھلے آٹھ عشروں میں ان کی اتنی خلاف ورزیاں کر چکا ہے کہ اب پاکستان کو بہت زیادہ نہیں، کشمیری مجاہدین کے گرم کیے ہوئے لوہے پر بس ضرب لگانا ہوگی۔ شہداء کی روحیں چیخ چیخ کر ہمیں پکار رہی ہیں۔ انشاءاللہ اگلی دفعہ مزید گفتگو ہوگی۔