عجیب المیہ ہے کہ صدیوں سے مظلوم رہنے والی امتِ مسلمہ آج ایک ایسے بیانیے کی اسیر بنتی جا رہی ہے جسے نہ صرف اس کے دشمنوں نے گھڑا ہے بلکہ میڈیا، سامراج اور لبرل دانشوروں نے اسے اتنے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے کہ ہمارے سادہ لوح مسلمان بھی اسی زبان میں بولنے لگے ہیں۔ "حماس دہشت گرد ہے"، "فلسطینیوں کو صبر کرنا چاہیے"، "یہ سب کچھ انہوں نے خود ہی شروع کیا" — یہ وہ جملے ہیں جو اب ہمارے اپنے گھروں، تعلیمی اداروں اور منبروں سے سننے کو ملتے ہیں۔ مگر کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہم کس بیانیے کا پرچار کر رہے ہیں؟
پہلا الزام یہی لگتا ہے کہ حماس ایک "دہشت گرد" تنظیم ہے۔ لیکن دہشت گردی کی تعریف اگر انصاف سے کی جائے تو کیا وہ طاقتور ریاست جو بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر بم برساتے ہوئے کیمرے میں فخر سے قہقہے لگاتی ہے، دہشت گردی کی اصل علامت نہیں؟ اور وہ جو اپنی بقاء، اپنی سرزمین، اپنی مساجد اور اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے جان دیتا ہے، وہ کیسے دہشت گرد ہو سکتا ہے؟ یہ کیسا پیمانہ ہے کہ جسے امریکہ اور اسرائیل دشمن کہیں، ہم بھی آنکھیں بند کر کے دشمن مان لیتے ہیں؟
ہمارے سادہ لوح مسلمان اس مغربی لغت کے فریب میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ خود اسرائیل کی بنیاد ہی دہشت گردی پر ہے۔ ارگون اور ہاگاناہ جیسی تنظیمیں، جنہوں نے برطانوی اہلکاروں اور معصوم فلسطینیوں کو شہید کیا، وہ آج اسرائیل کی ریاستی تاریخ کے "ہیرو" سمجھے جاتے ہیں۔ پھر جب کوئی فلسطینی اپنے حق کے لیے لڑتا ہے تو اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے؟ آخر کب تک ہم دشمن کے پیمانے سے خود کو ناپتے رہیں گے؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حماس "عسکری تنظیم" ہے، اور اسلام میں امن اور صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ جی ہاں، اسلام صبر سکھاتا ہے، مگر ظلم سہنے پر نہیں بلکہ اپنے حق پر ڈٹے رہنے پر۔ قرآن ہمیں جہاد کا حکم دیتا ہے "ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں" (البقرہ: 190)۔ پس جو مزاحمت کرتا ہے وہ اسلامی روایت کا وارث ہے، نہ کہ دہشت گرد۔
حماس نے 2006ء کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی۔ کیا دنیا میں کوئی اور "دہشت گرد تنظیم" ہے جو جمہوری طریقے سے منتخب ہو؟ اقوامِ متحدہ کے مبصرین نے ان انتخابات کو شفاف قرار دیا۔ اگر اسرائیل حماس کو جمہوریت میں آنے دیتا، غزہ کو محصور نہ کرتا، اور ہزاروں فلسطینیوں کو قید میں نہ ڈالتا، تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔
غزہ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ حماس اس کی امید ہے، اسرائیل سے لڑنے کا ہتھیار ہے۔ اور یہی بات اسرائیل کو چبھتی ہے، کہ ایک چھوٹی سی زمین پر ایسی تنظیم موجود ہے جو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل حماس کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے، اور بدقسمتی سے ہمارے بعض مسلمان بھی وہی ہتھکنڈے دہراتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "حماس شہری آبادی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے"، حالانکہ اقوام متحدہ کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اسرائیل ہی وہ ریاست ہے جو جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسپتال، اسکول اور پناہ گزین کیمپ پر حملے کرتا ہے۔ حماس نے تو بارہا شہریوں کو نکالنے کی کوشش کی، اسرائیل نے ہی راستے بند کیے۔
کیا آپ کو یاد ہے جب یوکرین پر روس نے حملہ کیا تھا؟ مغربی دنیا نے یوکرینی مزاحمت کو آزادی کی جدوجہد قرار دیا۔ لیکن جب فلسطینی اپنی بقا کے لیے لڑتے ہیں تو انہیں دہشت گرد کیوں کہا جاتا ہے؟ اس دوغلے معیار کو بے نقاب کرنا ہمارے علماء، دانشوروں، اور عوام کی ذمہ داری ہے۔
ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جس وقت ہم مغربی میڈیا کے الفاظ دہراتے ہیں، ہم نادانستہ طور پر مظلوم کی گردن پر دشمن کی تلوار رکھ رہے ہوتے ہیں۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنے بیانیے کو قرآن، سنت، تاریخ اور عقل کی بنیاد پر خود تشکیل دیں، نہ کہ CNN یا BBC کی مدد سے۔
یہ تحریر کسی جذباتی نعروں کی دعوت نہیں، بلکہ ہوش سے سوچنے کی اپیل ہے۔ سادہ لوح مسلمان بھائیو! دشمن کے بیانیے کا حصہ نہ بنو، کیونکہ کل جب تاریخ لکھی جائے گی، تو تمہاری خاموشی اور تائید بھی اسرائیلی مظالم کے ساتھ لکھی جائے گی۔
تبصرہ لکھیے