ہوم << عالمگیر پروفیسر خورشید اور ان کی گھریلو اہلیہ- ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

عالمگیر پروفیسر خورشید اور ان کی گھریلو اہلیہ- ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

بیگم نے اچانک ایک دن 5 سالہ پوتی سے کہا: "ہاں بیٹا شروع ہو جاؤ". 10 منٹ بعد مبہوت بیٹھا میں تھا تو اسی عالم ناسوت میں لیکن ذہن کہیں عالم بالا میں بھٹک رہا تھا۔ ہماری ننھی پوتی نے تجوید کے ساتھ دو رکوعی سورت ملک پوری سنا دی۔ پوچھا: "یہ کیسے ہوا؟" بولیں: "یہ اعجاز اپنے پڑوسی افتخار احمد بھٹہ فاؤنڈیشن کا ہے جو بچوں کو حفظ و ناظرہ بھی کراتے ہیں". اس رمضان میں رات کو آنکھ کھلی تو بیگم بآواز بلند قرآن پڑھ رہی تھیں۔ذرا بیدار ہو کر دیکھا تو انہوں نے دو رکعتوں میں سورت یسین پوری ختم کر دی۔ یہ انکشاف انہونی سے کم نہیں تھا، ناقابل یقین ناقابل فہم! لہذا یہ تحریر قانون علت و معلول (cause & effect ) کو ذہن میں رکھ کر پڑھیے. دونوں کے یوں حفظ کرنے کے اس معلول کی علت 37 سالہ ماضی میں جا کر ملی۔

قارئین اتنا تو جانتے ہیں کہ میں کتنا دیندار ہوں۔ تقوی، خشیت الہی اور باطنی آلات تعارف چھوڑیے، ظواہر یوں ہیں کہ شعائر اسلام کا خیال رکھتا ہوں، نماز روزے کی پابندی کرتا ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ آپ کہیں گے کہ آج یہ ریاکارانہ نشریات کیوں شروع کر دیں، بتاتا ہوں۔ کہتے ہیں نا کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ پس میری یہی ریاکارانہ دینداری سامنے رکھ لیجئے۔ اب اس بری بھلی دینداری کو 180 درجے کے زاویہ مستقیم پر گھما کر اس میں بعد المشرقین پیدا کر دیجیے۔ 38 سال قبل آسمانوں پر میرے لیے بنے جوڑے، با الفاظ دیگر نصف بہتر، اور مجھ میں یہی بعد المشرقین تھا۔ میں اسلامی قانون والا اور برا بھلا دین دار تو بیگم اور سارا سسرال، باستثنائے چند مطلقا اس کے برعکس تھے۔ چند نیک بخت چھوڑ کر باقیوں میں نماز روزے وغیرہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔

نتیجہ یہ کہ روز اول سے مسائل نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ دوران تعلیم میں پروفیسر خورشید رحمہ اللہ کے بھائی ڈاکٹر انیس احمد میرے استاد تھے جو اب افسر اعلیٰ تھے. اپنی ازدواجی زندگی میں پیدا شدہ مسائل انہیں بتائے تو بولے: "میاں, گھر کا پتا لکھ دو. ہمارے گھر خواتین کا درس قرآن ہوتا ہے. آپ کی بیگم کے لیے گاڑی بھیج دیا کریں گے۔ اللہ بہتر کرے گا". یہ سلسلہ چند سال چلتا رہا جس کا اثر یہ ہوا کہ عندالنکاح زاویہ مستقیم پر کھڑی میری اہلیہ زاویہ منفرجہ سے زاویہ قائمہ تک آ پہنچیں (میں بھی احتیاطا زاویہ حادہ کو چل دیا). پھر ڈاکٹر انیس ملائشیا منتقل ہو گئے۔ جانے سے پہلے بولے: "میاں, اب درس قران خورشید بھائی کے گھر ہوا کرے گا"۔

ڈاکٹر انیس کے گھر والا درس سنسنی خیز تھا۔ اہلیہ کا بیان یوں تھا: "پہلے دن گئی تو میں نئی تھی۔ مسئلہ زیر بحث تھا کہ نیل پالش کے ساتھ وضو کیسا ہے۔ کسی نے کہہ دیا کہ وضو نہیں ہوتا، وضو نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی، اور نماز نہ ہو تو آدمی جہنم میں جاتا ہے۔ گویا وہاں "موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہوگا" والا ماحول بن گیا. پرانی خواتین ایسی باتیں کیا کرتی تھیں لیکن مجھ نئی کے لیے یہ کچھ بڑا خوفناک تھا کہ میں تو نماز ہی نہیں پڑھتی تھی۔ میں رونے لگی تو مسز خورشید نے مجھے گلے لگا کر خوب تسلی دی: "اری پگلی، پہلے مسئلہ سمجھ لو۔ ایسے کوئی جہنم نہیں جاتا". یوں پہلے ہی دن مسز خورشید سے خوب گہری دوستی ہو گئی جو ان کی وفات تک برقرار رہی".

ڈاکٹر انیس کے بعد درس قرآن پروفیسر خورشید کے گھر جاری رہا۔ اہلیہ کے بقول: "مسز خورشید سے میری دوستی پہلے ہی دن قائم ہو گئی تھی. اب ہم گہری سہیلیاں بھی تھیں۔ وہ مجھ سے ذاتی امور پر بھی باتیں کرتی تھیں۔ مجھے تعجب ہوتا تھا کہ معاشرتی اعتبار سے ہمارے مابین بہت فاصلہ تھا۔ پھر میں نے جان لیا کہ ان کی بڑائی فی الاصل سادگی اور فطرت پر رہ کر زندگی گزارنا ہے۔ ان کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں۔ طویل عرصہ رفاقت میں مجھے انہوں نے کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ ہماری عمروں میں فرق ہے یا معاشرتی اعتبار سے وہ قدرے بلند ہیں، ہرگز نہیں"

یوں چند ہی سالوں میں ہماری ازدواجی زندگی رواں ہو گئی۔ مسز خورشید غیر محسوس طور پر میری اہلیہ کی تربیت کرتی رہیں تاوقتیکہ بیگم نے خود خواہش ظاہر کی کہ میں بھی اپنے گھر درس قرآن رکھوں گی جو شروع ہوا تو 16 سال جاری رہا۔ اصلاح یا بربادی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی۔ کئی اسباب و علل مل کر کام کرتے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ آج میری پلٹی ہوئی ازدواجی اور سسرالی کایا صرف اس درس کے سبب ہے۔ لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ بیگم انیس اور بیگم خورشید نے ٹھنڈے ٹھار برفستان میں وہ سرخ انگارہ دہکا دیا جس کی آنچ نے میرے اور ہر سسرالی گھر کو پگھلا کر رکھ دیا۔

آج حال یہ ہے کہ میرے تقریباً تمام سسرالی عزیز جب دیکھیں کہ کچھ بچت ہو گئی ہے تو عمرے پر نکل جاتے ہیں ۔پچھلے سال تو پانچ چھ نے سال میں دو عمرے کیے۔ ایک پرخوردار مسائل میں گھرا ہونے کے باوجود ہر سال حج پرجاتا ہے۔ اور یہ سب لوگ انفاق فی سبیل اللہ میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ چنانچہ جب ہر معلول کی علت ہو تو میرے ازدواجی و سسرالی سدھار میں بھی کئی اسباب و علل کار فرما رہے ہوں گے۔ سب کا کھوج لگانا پیش نظر ہے نہ ممکن۔ ڈاکٹر انیس، مسز انیس اور مسز خورشید ہر ایک کی محنت کا حجم کتنا ہے، یہ اللہ کو پتا ہے۔ لیکن جب علت کا سراغ لگانا ہی ہے تو کیا بڑا بھائی ہونے کے ناطے پروفیسر خورشید رحمہ اللہ ہر علت کے پیچھے ایک بڑی علت نہیں تھے؟

ڈاکٹر انیس نے آغاز کیا، مسز انیس نے ایثار کیا، تعطل آیا تو مرحومہ مسز خورشید آگے آ گئیں۔ لیکن ان سب کے پیچھے پوری امت، پوری انسانیت کے لیے فکرمند اور عالمگیر کام کرنے والے پروفیسر خورشید کی تربیت اور خاموشی کام کر رہی تھی۔اب آپ سمجھ جائیے کہ سورہ یسین و سورہ ملک رٹنے کا آغاز دو بیگمات کے اخلاص و عمل سے اور عشروں قبل ہوا تھا۔ ان بیگمات نے ایک خاتون تیار کی جس نے اپنی نسل افتخار احمد بھٹہ فاؤنڈیشن کو دے دی۔ پروفیسر خورشید، ڈاکٹر انیس و بیگمات کے جلائے اس چراغ کی اگلی نسل اب افتخار احمد بھٹہ فاؤنڈیشن سے روشنی لے رہی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پروفیسر خورشید رحمہ اللہ، ان کی اہلیہ مرحومہ اور افتخار احمد بھٹہ رحمہ اللہ کو اپنے پاس جگہ دے۔ امین (افتخار احمد بھٹہ فاؤنڈیشن میں پروفیسر خورشید احمد کے لیے دعائیہ تقریب میں میرے مختصر صدارتی کلمات).