600x314

بیٹی کا خواب – ثمینہ سید

میری بیٹی کی آنکھوں میں ازل سے خواب روشن تھا
کسی کی آنکھ میں آنسو نہ دیکھوں گی

کسی کی سسکیاں سننے سے پہلے اس کے دامن کو
ہر اک نعمت سے بھر دوں گی

میری بیٹی کی آنکھوں میں ازل سے خواب روشن تھا
اندھیرے جو مقدر ہیں میری دھرتی کے لوگوں کے

انہیں خورشید کی لو سے
میں ایسے جگمگا دوں گی کہ جیسے

جگنووُں کے قافلے شب کی فصیلوں پر نئی تاریخ لکھتے ہیں
خوشی سب کے لیے ہو گی

انہی خوابوں کی جھلمل تھی میری بیٹی کی آنکھوں میں
اسی خواہش کی لو میں چلتے چلتے آج ایسا دن بھی آیا ہے

میری بیٹی کے خوابوں نے قدم پہلا اٹھایا ہے

مصنف کے بارے میں

ثمینہ سید

ثمینہ سید کا تعلق بابا فرید الدین گنج شکر کی نگری پاکپتن سے ہے۔ شاعرہ، کہانی کار، صداکار اور افسانہ نگار ہیں۔ افسانوں پر مشتمل تین کتب ردائے محبت، کہانی سفر میں اور زن زندگی، اور دو شعری مجموعے ہجر کے بہاؤ میں، سامنے مات ہے کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ رات نوں ڈکو کے عنوان سے پنجابی کہانیوں کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ مضامین کی کتاب اور ناول زیر طبع ہیں۔ پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ریڈیو کےلیے ڈرامہ لکھتی، اور شاعری و افسانے ریکارڈ کرواتی ہیں

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment