میری بیٹی کی آنکھوں میں ازل سے خواب روشن تھا
کسی کی آنکھ میں آنسو نہ دیکھوں گی
کسی کی سسکیاں سننے سے پہلے اس کے دامن کو
ہر اک نعمت سے بھر دوں گی
میری بیٹی کی آنکھوں میں ازل سے خواب روشن تھا
اندھیرے جو مقدر ہیں میری دھرتی کے لوگوں کے
انہیں خورشید کی لو سے
میں ایسے جگمگا دوں گی کہ جیسے
جگنووُں کے قافلے شب کی فصیلوں پر نئی تاریخ لکھتے ہیں
خوشی سب کے لیے ہو گی
انہی خوابوں کی جھلمل تھی میری بیٹی کی آنکھوں میں
اسی خواہش کی لو میں چلتے چلتے آج ایسا دن بھی آیا ہے
میری بیٹی کے خوابوں نے قدم پہلا اٹھایا ہے
تبصرہ لکھیے