ہوم << حج اس وقت ساقط، فقط جہاد فرض ہے - عبدالجبار سلہری

حج اس وقت ساقط، فقط جہاد فرض ہے - عبدالجبار سلہری

حج ایک عظیم الشان عبادت ہے، ایک ایسا نورانی اجتماع جو زمین پر آسمانی ہم آہنگی کی جھلک دکھاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب دنیا بھر کے مسلمان رنگ، نسل، زبان اور قومیت کے فرق کو مٹا کر ایک لباس میں، ایک صدا میں، ایک مرکز کی طرف لپکتے ہیں۔ کعبہ کا طواف، مقامِ ابراہیم، میدانِ عرفات یہ سب مظاہر وحدتِ اُمّت کے جیتے جاگتے استعارے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ جب ملتِ اسلامیہ کی روح چھلنی ہو، جب مسجد اقصیٰ کی پیشانی پر سجدہ خون میں ڈوب جائے، جب ابراہیم کے وارث خلیل اللہ کی سنت کے نام پر خود بچوں سمیت ذبح ہو رہے ہوں، تو کیا صرف روحانی سفر کافی ہے؟ کیا اب بھی ہمیں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں حج کے لیے اٹھانی چاہییں، یا یہ صدا اب میدانِ جہاد میں اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیے بلند ہونی چاہیے؟

یہ کوئی فقہی موشگافی نہیں، نہ محض مناظرانہ تضاد ہے، بلکہ ایک امت کی بقاء، ایک دین کی زندگی، اور ایک نظریے کی سچائی کا سوال ہے۔ جب دشمن تمہارے گھر کی دہلیز پر کھڑا ہو، جب تمہاری ماؤں، بہنوں اور بچوں کا لہو پکار رہا ہو، تو کیا اس وقت "استطاعت" صرف زادِ راہ کا نام ہے، یا غیرتِ ایمانی بھی اس کا حصہ ہے؟

آج دنیا کی مٹی پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کوئی خفیہ راز نہیں۔ غزہ کے بچے، برما کے جلتے ہوئے لاشے، شام کے کھنڈر، اور کشمیر کی گونجی ہوئی چیخیں یہ سب گواہی دیتے ہیں کہ آج حج سے زیادہ جہاد فرض ہے۔ حج مؤخر ہو سکتا ہے، مگر جہاد کا لمحۂ موجود مؤخر نہیں ہوتا۔

قرآن نے جس جہاد کو ایمان کی علامت قرار دیا، وہ محض شمشیر و سنان کی جنگ نہیں بلکہ ظلم کے خلاف قیام کا نام ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 216 ہماری روح کو جھنجھوڑتی ہے:
"تم پر جنگ فرض کی گئی ہے، حالانکہ تمہیں یہ ناگوار لگتا ہے"۔
یہ وہ ربانی فیصلہ ہے جو ایمان کو آزماتا ہے، اور جذبوں کو تولتا ہے۔

سورۃ التوبہ کی آیت 41 میں اللہ حکم دیتا ہے:
"نکلو! چاہے ہلکے ہو یا بھاری، اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو"۔
امام قرطبی و ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ آیت حج کے موسم میں نازل ہوئی، اور اس کا پیغام صاف تھا:
اب کوئی عذر باقی نہیں، حج مؤخر، جہاد مقدم۔

جب دین کا چراغ بجھنے لگے، تو سب سے بڑی عبادت اسے روشن رکھنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اس پر مہرِ تصدیق ہے۔ آپ ﷺ نے ہر فتنے، ہر حملے، ہر ظلم کے مقابلے میں امت کو بیدار کیا، جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ صحیح مسلم کی حدیث میں آتا ہے:
"جو شخص جہاد کے میدان سے پیچھے ہٹتا ہے، وہ نفاق کی علامت رکھتا ہے۔"
کیا آج ہم اپنی خاموشی سے اسی نفاق کے مرتکب نہیں ہو رہے؟

سنن ابی داؤد کی حدیث اور بھی لرزا دیتی ہے:
"جو نہ جہاد پر گیا، نہ تیاری کی، وہ عذاب کا مستحق ہے"۔
کیا آج امت کے نوجوان تیاری کر رہے ہیں؟ یا وہ اپنی ڈیجیٹل غفلت میں محو ہیں؟

فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ جب جہاد فرضِ عین ہو جائے تو والدین کی اجازت بھی درکار نہیں۔ امام ابن تیمیہ کا فتویٰ:
"جب دشمن حملہ کرے، تو دفاع ہر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے"
(الفتاویٰ الکبریٰ، جلد 4، ص 608)
یہ وہی درجہ ہے جو نماز اور روزہ کو حاصل ہے، بلکہ ان سے بڑھ کر۔ کیونکہ نماز اور روزہ بندے اور رب کے درمیان ہیں، جہاد بندے، رب اور پوری امت کے بیچ ہے۔

امام نووی فرماتے ہیں:
"جب جہاد فرضِ عین ہو تو وہ حج پر مقدم ہے"
(روضۃ الطالبین، جلد 4، ص 466)
یہی مؤقف علامہ شامی نے ردالمحتار میں یوں باندھا:
"اگر دشمن حملہ آور ہو، تو عورت پر بھی جہاد فرض ہو جاتا ہے، اور شوہر کی اجازت کی حاجت نہیں رہتی"۔

گویا حج میں زادِ راہ شرط ہے، جہاد میں فقط غیرت کا ہونا کافی ہے۔

آج جب دنیا کے چاروں کونوں میں مسلمان خاک و خون میں تڑپ رہے ہیں، ہم خوشبو لگائے، احرام باندھے، طواف کے چکر کاٹتے رہیں—یہ منظر حج کی روح کو مجروح کرتا ہے۔ یہ وہی منظر ہے جسے علامہ علی القرداغی نے اپنی فتویٰ میں یوں بیان کیا:
"جب جہاد فرضِ عین ہو جائے، تو حج ساقط ہو جاتا ہے، اور مسلمانوں کی مال و جان جہاد کے لیے واجب الوقوف ہو جاتے ہیں"
(الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين، 20 نومبر 2024)

شیخ علی القرضاوی نے تو برسوں پہلے کہہ دیا تھا:
"ظلم پر خاموشی، جرم ہے!"
(فتاویٰ الاتحاد، 2023، غزہ کی صورتحال پر)

تو پھر ہم کیا کر رہے ہیں؟ آج ہم وہ امت ہیں جس کا کعبہ سلامت ہے، مگر مسلمان جل رہا ہے۔ بیت اللہ کے دروازے کھلے ہیں، مگر ملت کی روح قید ہے۔ عرفات کے میدان میں لبیک کہا جا رہا ہے، مگر بدر کے وارث سولی چڑھ رہے ہیں۔

حج اور جہاد متصادم نہیں، مگر ان کی ترتیب حالات کی پکار پر طے ہوتی ہے۔ امن ہو تو حج افضل، ظلم ہو تو جہاد فرض۔ ایک میں سعیِ صفا و مروہ، دوسرے میں دوڑ خون کے چشموں کے بیچ۔ ایک میں قربانی جانور کی، دوسرے میں اپنے نفس، مال، حتیٰ کہ جان کی۔

آج اگر ہم نے حج کو ترجیح دی اور جہاد کو پسِ پشت ڈالا، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہماری نسلیں ہمیں ایک ایسے بزدل قافلے کے طور پر یاد رکھیں گی، جس نے احرام کو بچایا مگر ملت کو کھو دیا۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ایمان کو وقت کی عدالت میں پرکھیں، اور فیصلہ کریں:
کیا ہم حج کا احرام باندھ کر امت کی لاش پر طواف کرنا چاہتے ہیں،
یا اس احرام کو میدانِ جہاد میں قربانی کا کفن بنانا چاہتے ہیں؟ فیصلہ ہمارا ہے اور وقت کم ہے۔