ہوم << یکم مئی: آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟ آصف محمود

یکم مئی: آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟ آصف محمود

ابن خلدون کے جن مبینہ خلیفوں کو فلسطین کے لیے ہڑتال پر اعتراض تھا کہ قومی زندگی کا ایک دن بلاوجہ ضائع کر دیا گیا، وہ نابغے یکم مئی کی عام تعطیل پر یوں خاموش ہیں جیسے انہیں کسی اژدہے نے سونگھ لیا ہو اور ان کی زبان گدی سے کھینچ کر ساتھ لے گیا ہو۔
میرے بس میں ہو تو ان کی خدمت میں ایک قاصد روانہ کروں جو ان کا دامن کھینچ کر پوچھے: آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

میرے حلقہ احباب میں ہر طرح کے لوگ ہیں، مولوی بھی اور شدید مولوی بھی، سیکولر بھی، فرمائشی سیکولر بھی اور شدید سیکولر بھی۔ خدا جانتاہے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ دوسروں کے احساسات کا خیال رکھا جائے۔یا کم از کم اتنا ضرور ہو کہ ان کی توہین نہ کی جائے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے جواب میں دوسری صف کے دوستوں کا رویہ ہمیشہ الٹ ہی رہا ہے۔ انہیں جب بھی موقع ملا، انہوں نے ہم جیسوں کی حساسیت کو پامال کیا۔ گاہے میں حیرت سے سوچتا ہوں کہ یہ رویہ روشن خیالی اور انسان دوستی ہے یا اسے بھی انتہا پسندی کا نام دیا جا سکتا ہے۔

فلسطین پر ہم دکھی ہیں۔ اس دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ دل پھٹتا ہے۔ بیٹھے بیٹھے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ہم بے بس لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ اللہ نے قلم دے رکھا ہے تو مسلمہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ان مظلوموں کا مقدمہ پیش کر دیتے ہیں۔ یہ ہماری حساسیت ہے۔ دوستوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کس کی کیا حساسیت ہے۔ اس کا احترام ہونا چاہیے۔ اگر وہ غلط ہو تو اچھے انداز سے اصلاح کی جاسکتی ہے لیکن یہ کیا کہ طنز کیا جائے اور فقرے اچھالے جائیں؟

میں نے کبھی کسی دوست کی حساسیت پر گرہ نہیں لگائی۔ لیکن ان ڈیڑھ سالوں میں مجھے میرے روشن خیال، سیکولرا ور جدید مذہبی رجحانات رکھنے والے بعض دوستوں کے رویے نے بہت تکلیف دی۔ فلسطین پر لکھا اور مسلسل لکھا۔ بین الاقوامی قانون کی روشی میں ا س کے ایک ایک پہلو پر لکھا۔ کہیں کچھ غلط لکھا ہو تا اس کی اصلاح سر آنکھوں پر لیکن مسخروں کے سے لہجے میں، اگر کوئی دوست فقرہ اچھالتا ہے ، ارے آپ تو جذباتی ہو گئے، ارے آپ تو مولوی نکلے، توبہ توبہ آپ تو خاصے انتہا پسند ہیں، اوہو آپ تو ٹی ایل پی ہو گئے، ارے صاحب آپ تو جماعتیے نکلے، اوہ اوہ، آپ تو غیرت برگیڈ ثابت ہوئے آپ تو فلاں اور فلاں نکلے۔۔۔۔۔۔تو آدمی اس کا کیا جواب دے۔

میں نے تعلق خاطر برقرار رکھنے کو یہ فقرے تسلسل کے ساتھ سنے ا ور نظر انداز کیے۔ میں نے بحث سے اجتناب کیا لیکن دوست بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح بحث پر مائل نظر آئے۔ میرا دل دکھی ہے، میں نے کسی مکالمے تک سے اجتناب کیا کہ باہمی احترام اور تعلق پر حرف نہ آئے لیکن دوسری جانب سے لوگ بازو اور آستینیں چڑھائے تصادم پر مائل نظر آئے۔

میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانا اتنا ہی بڑا جرم ہے کہ لوگ بتیسی کو آری بنا کر آپ پر چڑھ دوڑیں۔
کیا ان احساسات اور جذبات کی کوئی قدر نہیں ہے جن کا تعلق مسلمانوں کی بچوں کے قتل عام سے ہوتا ہے؟
کیا تعلق خاطر کا سارا بار ہم نے ہی اٹھانا ہے۔کیا تعلق برقرار رکھنے کی یہی قیمت ہے کہ ہماری روح پر زخم چھڑک کر شیطانی قہقہے بلند کیے جائیں؟

فلسطین کے لیے ہڑتال کی کال دی گئی۔ مجھے درجن بھر دوست بھگتنا پڑ گئے۔ بتاؤ اس کال کا کوئی فائدہَ، بتاو اس سے اسرائیل کو کیا نقصان؟َ بتاو اس سے قومی زندگی کو کتنا نقصان؟ بتاو اس سے فلسطین کو کیا فائدہ؟ میں نے ایک ایک سے معذرت کی کہ میں اس بحث کے قابل نہیں، مجھے اس بحث سے معذور جانیے۔
میں نے اس سارے دورانیے میں کسی سے کوئی بحث نہیں کی۔ جس کے دلوں پر لگی مہریں غزہ پر بیتی قیامت سے بھی نہ پگھل سکی ہوں ان پر میرے دلائل کیا اثر کریں گے۔ جہاں جہاں حد ہی ہو گئی، وہاں وہاں بس ایک لکیر کھینچی اور خود کو دوسری طرف کھڑا کر لیا۔

آج مگر میں یہ سوچ رہا ہوں، افلاطون کی وہ اولاد نرینہ کہاں ہے، جسے فلسطین کے لیے ہڑتال پر بہت تکلیف تھی؟ جو تکلیف فلسطین کے لیے ہڑتال پر تھی وہ تکلیف یکم مئی کی تعطیل کے لیے کیوں نہیں؟
فلسطین کی ہڑتال تو ایک رضاکارانہ عمل تھا، جو چاہے اس میں حصہ لے جو چاہے نہ لے۔ مگر یکم مئی کی چھٹی تو جبر ہے۔ہر ایک کو چھٹی کرنا ہے کہ یہی حکم ہے۔
فلسطین کی ہڑتال پر جنہیں بہت تکلیف تھی کہ معیشت کا نقصان ہو گا، ابن خلدون کے وہ تمام صاحبزادے اب حساب سودوزیاں کیوں نہیں کر رہے کہ کس کا کتنا نقصان ہو گا۔
فلسطین کی ہڑتال پر تو کاروبار بند تھا آج تو بنک بھی بند ہیں۔
یہ سارے لوگ جو اس دن ’ست ربڑی‘ گیند کی طرح اچھل رہے تھے آج کدھر گئے ہیں؟
آج یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا جارہا کہ یوم مئی کی چھٹی سے مزدوروں کو کیا فائدہ؟
جو دانشوری اس روز دعوت جنگ دے رہی تھی آج کس کے ساتھ ہنی مون پر چلی گئی ہے؟

معاملہ کیا ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ یہ سب فکر کی دنیا کے غیر فقاریہ جانور ہیں۔ ان کے نزدیک انسانی تہذیب صرف وہ ہے جسے مغرب انسانی تہذیب سمجھے۔ مغرب کے سوا سب ’چھان بورا‘ ہے۔ یکم مئی کی تعطیل کا حکم چونکہ فرنگی تہذیب سے آیا ہے اس لیے ا س دن کسی احسن اقبال کے کان میں کوئی سر گوشی نہیں کرتا کہ نہیں ہے بندہ حر کے لیے جہاں میں فراغ۔اس چھٹی پر کسی دانشور کا قلم بھی برہم نہیں ہوتا۔ انہیں ساری تکلیف صرف اس وقت ہوتی ہے جب معاشرے میں مسلمانوں کے حوالے سے کوئی حساسیت دکھائی جائے۔

ان کے سارے بھاشن مسلمانوں کے لیے ہیں۔ان کے تیز دانت صرف مسلمانوں کی حساسیت پر کمال دکھاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر سے مذہبی تقسیم سے بالاتر ہو کر لوگ فلسطین کے مظلوموں کے لیے بول رہے ہیں، یہ وہ گونگے شیطان ہیں جو ایک ہڑتال پر برہم ہو جاتے ہیں۔
ان سے تو وہ یہودی بہت بہتر ہیں جو اسرائیلی وزیر کے دورہ امریکہ پر اس کے منہ پر کہتے ہیں کہ تم نے یہ مظالم کر کے ہمارے یہودی مذہب کی بھی توہین کر دی ہے۔

میری سمجھ سے باہر ہے ان لوگوں کا عارضہ ہے۔ فلسطین کا مقدمہ حقوق انسانی کا مقدمہ ہے۔ یہ انسانیت کا مقدمہ ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کا مقدمہ ہے۔ لیکن یہ لوگ بھولے سے بھی اس ظلم پر بات نہیں کرتے۔ یہ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کو سینگ مار لیں۔
یہی وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود؟
ان مسلمانوں کو یکم مئی مبارک ہو۔