جیسے جیسے اگست کا مہینہ قریب آرہا تھا اس کی آنکھوں کی چمک غائب ہورہی تھی۔ مسکراہٹ پر اداسی غالب آرہی تھی اور اس کا جھریوں بھرا چہرہ مزید لٹکنے لگا تھا . وہ پھر سے خلا میں خالی خولی آنکھوں سے دور دور تک نہ جانے کیا کچھ تلاش کرنے لگا تھا۔ اس کے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں جوان ہوگئی تھیں۔ سب تعلیم یافتہ تھے۔ ہر ایک کو اپنے دادا نانا کی اس کیفیت کا علم تھا مگر وہ غم کو اکیلے تن تنہا اٹھانے کا عادی تھا باوجود اصرار کے کبھی کسی کو اس غم میں شریک نہیں کیا۔
سب کو پتہ تھا کہ تقسیم ہند کے ہنگامے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اس کا ذہن اس کی عمر کی طرح معصوم اور نوخیز تھا۔ اس نے وحشت ناک آنکھوں سے دیکھا تھا کہ جوان لڑکیوں کی چیخوں سے آسمان کا کلیجہ پھٹ رہا تھا اور درندوں کے قہقہوں میں شیطان رقص کر رہا تھا۔ اس نے دیکھا جو لڑکیاں اس کے ساتھ مذاق کرتی تھیں وہ دیوانہ وار کنوئوں میں چھلانگیں لگا رہی تھیں۔ اس کی اپنی بہن کو درندےاس کے ننھے ہاتھوں سے کھینچ کر لے گئے۔ وہ بھی روتا بلکتا رہا، اس کی بہن کی آنکھیں بھی سرخ تھیں مگر آنسو خشک، گال گیلے اور چہرے پر خوف کے سائے چھائے تھے لیکن انسان کے روپ میں شیطانوں کے چہروں پر کمینگی کے اثرات تھے اور آنکھوں میں شیطنت ناچ رہی تھی۔
اس نے جو اندوہناک، دردناک اور کرب انگیز مناظر دیکھے تھے، وہ آج بھی اس کی آنکھوں میں مجسم تھے۔ عروہ اس کی چہیتی اور ذہین پوتی تھی اور اس کی ہمدرد اور غم گسار بھی۔ دادا پوتی پہروں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اگست میں موضوع زیادہ تر آزادی اور تقسیم کے واقعات ہوتے تھے۔ وہ خلاوں میں احساسات سے عاری آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ عروہ کے آنے کی آہٹ نے اس کو واپس زمیں پر آنے پر مجبور کیا۔
دادا جانی آپ پھر ان واقعات کو سوچ کر غم زدہ نظر آرہے ہیں جو کب کے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ عروہ نے کہا۔
نہیں بیٹا ان واقعات کے لیے ہم نے خود کو اسی روز تیار کرلیا تھا جس دن ہم اس ملک کی محبت میں سب کچھ چھوڑ کر آگئے تھے ۔ اس نے کہا .
یہ بات آپ پہلے بھی بتا چکے ہیں مگر میری الجھن کا جواب آپ نہیں دیتے؟ عروہ نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا ۔
کیسی الجھن؟ اس نے سوالیہ انداز سے عروہ کو دیکھا۔
دادو آپ کو پتہ ہے کہ میری الجھن کیا ہے۔ پھر بھی آپ انجان بن رہے ہیں۔
اچھا بتائو تو سہی۔ اس کو جیسے یاد نہیں آرہا تھا۔
یہی کہ اگر آپ سب ان واقعات کے لیے ذہنی طور تیار تھے تو پھر آج اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی اگست کے مہینے میں اتنے غم زدہ کیوں نظر آتے ہیں؟
ادھوری آزادی کا غم کھائے جارہا ہے۔ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
ادھوری آزادی کا غم؟ عروہ حیران بھی تھی اور متجسس بھی۔ دادو پہلی مرتبہ پیاز کے چھلکے کی طرح تہہ در تہہ راز کے پرت کھول رہا تھا۔
ہاں بیٹا ہم انگریز اور ہندو سے آزاد ہو کر بھی آدھے آزاد ہیں۔ اس نے کہا۔
وہ کیسے؟ عروہ کی حیرانی عروج پر تھی۔ ہم آزاد ملک میں جی رہے ہیں۔
ہمارا نعرہ کیا تھا اس وقت؟ اس نے عروہ سے پوچھا۔
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ۔ عروہ نے میکانکی انداز میں جواب دیا۔
تو کیا یہ مطلب پورا ہوگیا؟ عروہ سے جواب نہ بن پڑا۔ وہ پھر بولا۔ انگریز اور ہندو سے آزادی کی خاطر ہم نے اس سرزمین کو خون سے لالہ زار بنایا مگر ان کے طور طریقوں،
روایات اور تہذیب وتمدن کی زنجیریں آج بھی ہماری گردنوں میں طوق نہیں ہیں؟ وہ جذبات کی رو میں بہنے لگا۔
کیا ہم نے نااہل حکمرانوں سے جان چھڑالی؟ کیا ہم نے کرپشن سے آزادی حاصل کرلی؟ کیا ہم جہالت کے تنگ و تاریک کوٹھڑیوں سے علم کی آزاد اور وسیع فضا میں آئے ہیں؟ وہ مسلسل سوالات کیے جارہا تھا اور عروہ ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ اس کے لہجہ میں درد تھا۔
اس نے رکے بغیر کہا۔ کیا ہم اس ملک کو ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں لا کھڑا کیا ہے؟ کیا انصاف آج بھی کوڑیوں کے مول نہیں بکتا؟ کیا ہم آج بھی لاشیں نہیں اٹھاتے؟ کیا ہماری قوم زبان، رنگ اور نسل کی عصبیتوں سے آزاد ہے؟ کیا ہم فرقہ واریت کی آگ میں نہیں جھلس رہے؟ ہمیں ہندو اکثریت کا ڈر تھا مگر کیا ہم نے یہاں کی اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیا ہے؟ ہمارے زمیں کا جنت نظیر ٹکڑا کشمیر آزادی کے لیے نہیں ترس رہا؟ اگر یہ سب کچھ موجود ہیں تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے مکمل آزادی حاصل کرلی ہے؟
عروہ خاموشی سے سن رہی تھی اور دادو کا لہجہ اندر ہی اندر ٹپکنے والے آنسوئوں سے بھیگ گیا تھا۔ اس کی آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جارہی تھی، وہ کہہ رہا تھا نہیں یہ مکمل نہیں، ادھوری آزادی ہے ادھوری.
تبصرہ لکھیے