ہوم << قوم کیا چیز ہے؟ اسرار احمد خان

قوم کیا چیز ہے؟ اسرار احمد خان

اسرار احمد خان قوم پرستی، قومی عصبیت کوئی قابل قدر چیز ہوتی تو ہم سندھیوں، بلوچوں، پٹھانوں کو اپنی قومی عصبیت قائم رکھنے کا درس دے رہے ہوتے، اس سے باز رہنے کے مشورے نہ دیتے، جس سے محبت کا لوگوں میں ایک فطری جذبہ بھی موجود ہے بلکہ ایسے موقع پر ہم لگے ہاتھوں قوم پرستی کے خلاف اسلامی دلائل بھی لا رہے ہوتے ہیں اور آخرت کا خوف بھی دلاتے ہیں. لیکن دوسری طرف ہم وطنی عصبیت، وطن پرستی کا ہر جگہ درس دیتے نظر آتے ہیں لیکن اسی سانس میں باقی علاقائی عصبیات کا رد کروا رہے ہوتے ہیں. آخر کیوں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
وجہ اس کی یہ ہے کہ وطنیت کے عقیدے کا بنیادی دعویٰ ہے کہ تمہیں آپس میں جوڑنے والا وطن ہے. اگر تم نے صوبائی و علاقائی عصبیت پیدا کر لی تو وطن کی جڑ کٹ جائے گی، اجتماعیت کو ٹھیس پہنچے گی. وطنیت کا پہلا کلمہ ہی یہی ہے کہ اجتماعیت کے لیے بنیادی عصبیت وطن کی ہی ہو گی اس کے علاوہ ہر عصبیت قابل مذمت اور گمراہی سمجھی جائے گی، جو شرک سے کم درجے کا گناہ نہیں ہو گا.
وطن کے جو تاثرات صوبائیت کے بارے میں ہیں، ٹھیک وہی تاثرات اسلام کے وطن کے بارے میں ہیں. اوپر والا پیراگراف دوبارہ پڑھیں اور صوبوں کے نام کی جگہ ملکوں کے نام پڑھیں اور وطن کی جگہ دین پڑھیں. جیسے ایک قومی ریاست علاقائی عصبیت کو مٹانا چاہتی ہے، اسی طرح ایک امت ریاستی عصبیت کو بھی مٹانا چاہتی ہے. اب تو دنیا گلوبل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اس کنسیپٹ کو سمجھنا اور بھی آسان ہے. اب اس امت کے تصور کو سمجھنے کے لیے آپ اپنی ڈکشنری میں اسلامی قومیت کا لفظ ایجاد کر لیں تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن یہ یاد رہے یہ جغرافیائی قوموں سے اوپر کی شے ہے.
قوم، وطن، قبیلہ اور علاقے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ پہچان سے زیادہ کچھ نہیں جیسا کہ آپ کی ذات کوئی چوہدری، کوئی راجہ لیکن جب اس میں سے عصبیت نکلنے لگے تو وہ قابل مذمت ہے کہ یعنی اب معاملہ پہچان سے آگے بڑھ آیا ہے، اب وہی عصبیت جاہلیت والے نعرے لگنے لگے ہیں کہ میں تم سے بہتر، باعزت ہوں کیونکہ میں فلاں ابن فلاں ہوں.
’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، کنبے اور قبیلے بنا دیے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے‘‘ سورۃ الحجرات
نیشن یا قوم کا لفظ اسلام نے اپنے لیے کبھی استعمال نہیں کیا. قرآن جو لفظ مسلم قومیت کے لیے استعمال کرتا ہے وہ حزب ہے یعنی گروپ
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے‘‘- سورۃ آل عمران
دوسرا لفظ جو قرآن قوم کے لیے استعمال کرتا ہے وہ امت ہے، یہ ہمہ گیر لفظ ہے
’’اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ”اُمّتِ وَسَط “بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رُسول تم پر گواہ ہو.‘‘ سورۃ البقرۃ
تیسرا لفظ جو استعمال ہوتا ہے وہ جماعت ہے جیسے حدیث ہے جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے
اب اس گروہ، امت اور جماعت کا رہن سہن، شادی بیاہ، مشن، نظریہ، کلچر، نظام، مفادات سب ایک ہیں، جس کے لیے اسلامی قومیت کا لفظ محض آسانی سے سمجھانے کے لیے بولا جاتا ہے یا جا سکتا ہے.
انگریز آج کے مسلمان کو قومی عصبیت پر لگا کر خود گلوبلائزیشن کی طرف نکل پڑا ہے. دنیا سلسلہ وار ’’ون ورلڈ آرڈر‘‘ کی طرف جا رہی ہے. ناٹو، آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک، ملٹی نیشنل کمپنیاں، این جی اوز، گلوبل خوراک برگر، پیزا، جینز گلوبل کلچر،گلوبل نصاب اور ایک ہی طرز تعلیم. حد تو یہ ہے یوم آزادی منانے والے بھی انگریزی گلوبل کلچر والی سبز شرٹیں پہن کر منا رہے ہیں. نیشنلزم کا کنسیپٹ اصلی لبرلز میں بھی ختم ہو چکا ہے ان کے ہاں اس کی جگہ ہیومنزم نے لے لی ہے. مگر جب رنگ، نسل، ثقافت اور قومیت سے بالاتر ایک مسلم امہ کا تصور پیش کیا جاتا ہے تو بعض لوگوں کو بے ہوشی کا دورہ پڑ جاتا ہے. حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی نے اسی قوم، امت اور جماعت کا امام بن کر آنا ہے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئی امت کو کھڑا کرنا اور جوڑنا ہے.

Comments

Click here to post a comment