ویسے تو ایک طالب علم ہوں روز کچھ نا کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن ان دنوں ایک جگہ استاد کی حیثیت سے براجمان ہوں، اب اپنے آپ کو کتنا ہی طالب علم سمجھوں، یہاں تو ہر طالب علم مجھے استاذ ہی سمجھے گا نا!
تو میں استاذ کو کون سی ایسی مراعات میسر ہوتی جو پہلے ان کا خواب ہوتی ہیں کا مشاہدہ کر رہا ہوں، اور خود کا محاسبہ بھی۔
زمانہ طالب علمی میں کوئی بندہ ہم سے نہ جلے، ہم جو کہیں ہو جائے کی ضد ہوتی تھی، تھی تو بے وقوفانہ حرکت مگر ہوتی تھی، وہ اب پوری ہورہی ہے، ایک بیل بجانے پر دو دو طالب علم آکر "جی استاد جی" کہہ کر شرمندہ کر جارہے ہیں۔ ہم ہی سب سے نمایاں ہوں، اگرچہ کارنامہ کچھ نہ ہو بس لوگ ہمیں ہی تکتے رہیں، مگر تب "ایں خیال محال است" تھا، نالائق ہم عصر ہم ہی پر جملے کستے، اور ہم ہی مورد عتاب ہوتے، اب جب کہیں سے گزر ہورہا ہے "یہ ہمارا نیا استاد ہے" کے جملے کانوں میں رس گھول رہے ہیں، سکون اور راحت مل رہی ہے، خدا جانے ان چند لفظوں کے پیچھے ہماری کیا محنت اور خدا کا کتنا فضل پنہاں ہے!
وہ لب و لہجہ جو اب سے پانچ دن قبل تھا، یکسر بدل گیا ہے، میں بھی خوش نہیں اس سے، میرا مزاج بے تکلفانہ اور دوستانہ ہے، میں بڑوں ہی کے سامنے تھوڑا تکلف کرتا ہوں ، اپنے ہم عمر اور چھوٹوں سے اس طرح رویہ رکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے تنگ نہ ہوں۔ اتفاقاً ایک طالب علم سے مسکرا کر بات کر رہا تھا، تو محبوب دوست، جو خود ایک جگہ استاد ہیں، کہنے لگے طلبہ سے اس طرح بات کرکے خود کو آزمائش میں نہ ڈالو، یہ بہت مچلے ہوجاتے ہیں، پھر سیکھنے سکھانے کا عمل رک جاتا ہے۔ ہائے ربا، اب کہاں جائیں ؟ اپنی جبلت اور مزاج کو کہاں دفنائیں؟ کہاں کریں ہم اب لطیفانہ مزاج کا اظہار، کون ہوگا جن سے بے خوف ہوکر ہوگی اب بات؟
کیا اب یہ تمام تر عادتیں ترک کرنا پڑیں گی ؟ کیا عمر بھر اب مدرسے میں رہ کر مزاح اور شوخیاں نہیں ہوں گی؟ہم تو مدرسے میں بے تکلف اور شائستہ مذاق سے مشہور تھے، ہم تو ہر دوست کو خود سے بے تکلف کرکے ان کے تیکھے میٹھے جملے سنتے تھے، کبھی کوئی دوست مہذب انداز میں بات کرے تو ناراضی کے ڈر سے مارے پھرتے تھے، چائے کے بہانے ان سے عتاب کی وجہ پوچھتے تھے، یہاں تو سب ہی مہذب بلکہ با ادب کھڑے ہیں، ہمارے گزرتے ہی احتراماً پہلے آپ کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ سامنے سے کوئی مذاق کر بھی رہا ہے، تو ڈر کے مارے کہیں استاد کو تکلیف نہ آئے۔ ہماری خاطر تواضع ہورہی ہے جو ہمیں بالکل بھی پسند نہیں ہے۔
ہائے، کیا رنگ ہیں زمانے کے!
بہر حال میں ایک استاد ہوں اب بحیثیت استاد میں کیا کرسکتا ہوں۔ میں اپنے طالب علم ساتھیوں کو اپنا چھوٹا بھائی یا بیٹا سمجھ کر ان کی علمی ترقیات میں اضافہ کرسکتا ہوں۔ ہر مشکل موڑ جس میں اسے رہنمائی کی ضرورت ہو بلاجھجک ایک والد اور بڑے بھائی کی مانند تعاون کرسکتا ہوں۔ یہ میری ایک امانت ہیں، امانت میں خیانت جرم ہے، میں ایک امین کی حیثیت سے ان سے برتاؤ کروں گا، تیکھیا میٹھا جہان اگرچہ ہے مگر میں انہیں ان کے مزاج کے مطابق چلاؤں گا.
مجھے میرا اساتذہ نے ہمدردی محبت اور احساس سکھایا ہے. اب وقت آیا ہے کہ اپنا پڑھا ہوا سبق دوبارہ دہرانے کی کوشش کروں. اپنے اساتذہ کے مزاج میں ڈھل کر وہ حسین و جمیل مزاج ان ننہے منے شہزادوں میں منتقل کروں. خدا مجھے میرے تمام اساتذہ ساتھیوں کو اس روش چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تبصرہ لکھیے