* غزہ میں معرکہ حق و باطل برپا ہے اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل غزہ پر شدید بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں روزانہ معصوم فلسطینی بچے، نہتے مرد ،عورتیں اور نوجوان بڑی تعداد میں شہید ہو رہے ہیں۔
جنگ کے زمانے میں دشمن کی طرف سے افواہیں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ عوام کا حوصلہ پست ہو اور وہ لڑنے کا خیال دل سے نکال دیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پر تواتر سے اس قسم کی خبریں دی جا رہی ہیں کہ غزہ میں تمام مسلمان شہید ہو گئے ہیں، غزہ آخری سانسیں لے رہا ہے، اس کے ساتھ ہی امریکہ کی طرف سے اردن اور مصر کو کہا جا رہا ہے کہ غزہ کے عوام کو اپنے ملک میں رہنے کے لیے جگہ دیں ،امریکہ غزہ میں قبضہ کرنا چاہتا ہے اس طرح وہ اسرائیل کی مدد کرنا چاہتا ہے، اسرائیل جو پہلے ہی دہشت گردی کی علامت بن چکا ہے سمجھتا ہے کہ وہ امریکہ کی مدد سے مسلمان مجاہدین کو شکست دے دے گا مگر یہ اس کی خام خیالی ہے ۔
ہر چند کے مسلمان ممالک میں اتفاق نہیں اور وہ منافق حکمرانوں کی تسلط میں ہیں لیکن پوری امت مسلمہ فلسطینی مجاہدین کے ساتھ ہے، دنیا میں جب تک ایک مسلمان بھی باقی ہے اسرائیل کو چین نصیب نہیں ہوگا۔ غزہ میں اس وقت یہودیوں کو مسلمانوں کی طرف سے زبر دست مزاحمت کا سامنا ہے جو کم وسائل کے باوجود کسی طور بھی ہمت ہارنے پر تیار نہیں ہیں۔ غزہ میں آئے روز شہادتیں ہو رہی ہیں صحافی بھی قتل کیے جا رہے ہیں تاکہ وہاں کی اصل صورتحال کو چھپایا جائے اور من پسند خبریں سوشل میڈیا پر پھیلا کر مسلمانوں کے حوصلے پست کیے جائیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا. مسلمان اللہ کے حکم سے غالب رہیں گے۔ان شاءاللہ۔ فلسطینی مسلمانوں کی شہادتیں دنیا بھر میں مسئلہ فلسطین اور یہودی ظلم و ستم کو اجاگر کرنے کا سبب بن رہی ہیں، سوئے ہوئے مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ ایک تازیانہ ثابت ہوں گی۔
مسلمان ایک جسد واحد کی مانند ہیں فلسطینی عوام کا دکھ پوری دنیا کے مسلمان اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔دنیا بھر میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے دیکھنے میں آرہے ہیں ان مظاہروں کے ذریعے سے فلسطین میں مسلمانوں کو حوصلہ مل رہا ہے اور مسلم حکمرانوں کو یہ پیغام دیا جارہاہے کہ انھیں وقت کی تقاضوں کے مطابق اسرائیل کے خلاف قدم اٹھانا ہوگا اسرائیل اور اس کے حواریوں کو روکنے کے لیے جہاد کرنا ہوگا ۔
اس سلسلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟
یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہودی کسی کے دوست نہیں وہ اپنے مالی فائدے کی خاطر کسی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہیں ان کو روکنے کا بڑا ذریعہ یہودی مضموعات کا بائیکاٹ ہے کچھ شک نہیں کہ یہودی سرمایہ ہی فلسطین پر بمباری اور جنگ میں مددگار ہے۔ ہم سب مل کر اسرائیل کا معاشی بائیکاٹ کریں گے تو اس جنگ کو روک سکتے ہیں۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں کسی بھی قسم کے لسانی، نسلی اور قومی عصبیت کی بنا پر جھگڑوں سے بچے رہیں۔ صرف ایک امت مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے مسلمانوں کے مفاد کے لیے کام کریں۔
اس وقت دشمن مسلم ممالک کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر ان کے اتحاد کو ختم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کے خلاف متحد ہو کر کھڑے نہ ہو سکیں خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایسی کسی مہم کا حصہ بننے سے گریز کریں جو امت مسلمہ کے اتحاد کو ختم کرنے اور اختلافات کو ہوا دینے کا ذریعہ بنتی ہے ۔
سوشل میڈیا پر ایک مہم کے ذریعے فلسطینیوں کو تنہا کرنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی شہادتیں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ اس جنگ کا ایک حصہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا ہے جہاں اس وقت گریٹر اسرائیل کے بیانیے کو عام کیا جا رہا ہے مجاہدین کے حوصلوں کو پست کرنے کے لیے اسرائیل اپنی کامیابیاں بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے حالانکہ حماس نے جس مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی وہ ابھی بھی بیت المقدس کی حفاظت کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہمیں میڈیا پر مجاہدین کی اواز بننا ہوگا ان کو بتانا ہوگا کہ دنیا بھر کے مسلمان ان کے ساتھ ہیں وہ اپنے محاذ پر ڈٹے رہیں، اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہے۔
حقیقت میں فلسطین کا بچہ بچہ بیت المقدس کی حفاظت اور اسرائیل کے مقابلے پر یکسو ہے، وہ اپنی جان مال اولاد سب کچھ قربان کر کے بھی بیت المقدس کی حفاظت بیت المقدس سے جانے پر تیار نہیں، وہ آخری دم تک اپنی سرزمین کی حفاظت کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ ان کے ایمان شہادتوں کے نتیجے میں اور بڑھ گئے ہیں۔
وہ ظالم دشمن کے آگے جھکنے پر تیار نہیں۔ وہ غزہ کو، جو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے خود نئے سرے سے تعمیر کرنے کا عزم رکھتے ہیں وہ اپنی سرزمین کسی کے حوالے نہیں کرنا چاہتے ان کی دامے درمے سخنے مدد کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانیت کے علمبرداروں کا فرض ہے۔
تبصرہ لکھیے