ہوم << انگلی کٹے شہید - ڈاکٹر ماریہ نورین

انگلی کٹے شہید - ڈاکٹر ماریہ نورین

ہم سب وہی ہیں جو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ کل سے غزہ کی صورتحال حتمی انجام کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے اور سوشل میڈیا پر ہر شخص نے اسی حوالے سے کچھ نہ کچھ پوسٹ کیا ہوا ہے ۔ کچھ تو دھڑا دھڑا وڈیوز، تصویریں اور تحریریں شئیر کیے جا رہے ہیں۔ میں خود بھی انہی لوگوں میں شامل ہوں۔

آج صبح سے میں سوچے جا رہی ہوں کہ ہم کیسے لوگ ہیں؟ سدا سے گروہِ حق کا ذبیحہ ہوتے دیکھنا ، خاموش تماشائی بنے رہنا اور پھر سب کچھ ہو چکنے کے بعد سینہ کوبی کرنا ہمارا شیوہ ہے۔

جب وقت ہوتا ہے، جب ضرورت ہوتی ہے ، ہم لب سیے خاموشی کی بکل اوڑھے بیٹھے رہتے ہیں۔ اکثر تو مظلوم کی غلطیوں کی نشان دہی کیے جاتے ہیں ۔ یوں نہ کرتے تو یوں نہ ہوتا۔ یا چپ ، یا آدھی ادھوری نام نہاد حمایت وہ بھی پیٹھ پیچھے کہ جس کا مظلوم کو نہ فایدہ نہ نقصان۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے حکمران نااہل اور اپنے مفادات کے غلام ہیں، اس میں ذرہ برابر شک نہیں۔ پر ہم خود بھی تو ایسے ہی ہیں۔ آئی ڈی کے اڑ جانے کے خوف سے لفظوں کو توڑ توڑ کر لکھنے والے ، خود کو انتہا پسندی کے لیبل سے بچانے کے لیے اگر مگر ،چوں چنانچہ کے ہیر پھیر میں پڑنے والے۔

پھر میں سوچتی ہوں ہم بھی کیا کریں؟ ماضی کے تلخ تجربات نے ہمیں ایسے سبق سکھائے کہ اب چھاچھ بھی پھونکیں مار مار کے پیتے ہیں۔ گئے دنوں میں دکھائی حمیت و غیرت ایک ایسے تمانچے کی طرح واپس ہمارے ہی منہ پر ماری گئی کہ جس کی وجہ سے آج تک چہرہ لال ہے۔ ہم بھی کیا کریں؟

جب کبھی جہاد کے نام پر نکلے ہیں، قربانیاں دی ہیں تو بعد میں پتا چلتا ہے کہ ہم تو استعمال ہوئے ہیں۔ استعمار نے ہمارے جذبہ جہاد کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے ۔ اور ہم مظلوم کا ساتھ دیتے دیتے خود تماشا بن گئے ہیں۔ آج خود مظلوم ہمیں ظالم کا آلہ کار سمجھتا ہے۔

نقصان دوہرا ہوگیاہے اور بھرپائی بھی ممکن نہیں ہے۔

ایسے میں کیا کریں ؟ کدھر جائیں؟ ویسا ساتھ نہیں دے سکتے جیسا افغانستان والوں کا دیا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ کہنے والے کہیں گے کہ تب تو ڈالر ملا کرتے تھے۔ضرور ملا کرتے تھے پر اوپر والوں کو ، عام لوگ تو تب بھی اسلامی غیرت، بھائی چارے اور جذبہ جہاد کی وجہ سے اس سب کا حصہ بنے تھے۔

آج پھر ہمارے پاس کرنے کو یہی رہ جاتا ہے پوسٹیں لگانا، شیئر کرنا اور ان پر غمزدہ ایموجی کا ری ایکشن دینا یا پھر ایک دوسرے سے دعا کی اپیل کیے جانا۔ شاید اس طرح انگلی کٹوا کر ہم بھی شہیدوں میں شامل ہو جائیں ۔ یا کم از کم گریبان پکڑے جانے سے بچ جائیں۔ اور نہیں تو اپنے ضمیر کو ہی تسلی دے پائیں۔