غزہ کی گلیوں میں لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ لاشیں جو کبھی جیتے جاگتے انسان تھے — ماؤں کی دعائیں، بچوں کے قہقہے، باپ کی دعائیں، بیوی کی سسکیاں۔ اب وہ سب خاموش ہیں۔ مگر ان کی خاموشی سے زیادہ دہشتناک وہ منظر ہے جو دنیا دیکھتی ہے… اور نظر چرا لیتی ہے۔
لاشوں کے بیچ غ زہ کے کتے دندناتے پھر رہے ہیں۔ بےخوف، بےشرم، درندہ خصلت کتے۔ گوشت کے لوتھڑے ان کے جبڑوں میں ہیں، اور نظریں بےحیائی کے اس بلند مینار پر جہاں انسانیت دفن ہو چکی ہے۔ ان کتوں کو نہ کبھی پالنے والے کی پروا رہی، نہ مرنے والے کی حرمت۔ یہ وہ کتے ہیں جو بھونکنے کے بہانے ڈھونڈتے تھے، اور اب نوچنے کے لیے مردہ گوشت دستیاب ہے۔ وہ گوشت جو کسی کا باپ تھا، کسی کا بیٹا، کسی کا مجاہد، کسی کا مظلوم۔
اور انہی گلیوں میں، انہی اجڑی ہوئی دیواروں کے سائے میں، چند بلیاں بھی ہیں۔ سہمی ہوئی، ڈری ہوئی، خاموش بلیاں۔ ان کی آنکھوں میں خوف بھی ہے، مگر اس خوف سے زیادہ ایک عجیب سی شرافت، ایک ان دیکھی وفاداری، ایک خاموش احتجاج۔ گوشت ان کے لیے بھی دستیاب ہے۔ مگر یہ نہیں کھاتیں۔ یہ چپ رہتی ہیں۔ سونگھتی ہیں… اور پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ ان کے لیے یہ گوشت نعمت نہیں، حرمت ہے۔ کیونکہ یہ وہ لاشیں ہیں جن کے ساتھ یہ کھیلتی تھیں، جن کے آنگن میں یہ سوتی تھیں، جو کبھی دو باسی روٹیاں ڈال دیا کرتے تھے، یا پھر صرف آواز دے کر خوش کر دیتے تھے۔
انسان مر گئے۔ کتے درندے بن گئے۔ اور بلیاں… بلیاں صرف انسان رہ گئیں۔ یہ صرف غ زہ کا المیہ نہیں، یہ ایک عالمی المیہ ہے — اور اس المیے میں اگر کوئی آئینہ بن سکتا ہے تو وہ غ زہ کی بلیاں ہیں، اور اگر کوئی منافق کا چہرہ بن چکا ہے تو وہ غ زہ کے کتے ہیں۔ اور اے میرے محترم قاریو! تم خود فیصلہ کرو… تمہاری امت آج بلیوں کی مانند ہو چکی ہے یا کتوں کی؟
تم بھونکتے نہیں، بس نوچتے ہو۔ کبھی کسی امت کا نظریہ، کبھی کسی مظلوم کی امید، اور کبھی کسی مجاہد کی پشت پر خنجر۔ تم دعوے کرتے ہو کہ تم عرب ہو، ترک ہو، عجم ہو، فارس ہو، پاکستانی ہو… مگر تم وہی کتے ہو جو ہر لاش پر ایک نیا بھونکاؤ نظریہ پیش کرتے ہو۔ تم غ زہ کے کتے نہیں، مگر ان سے بھی بدتر ہو… کیونکہ تم مردہ جسم نہیں، زندہ ضمیر کھاتے ہو۔اور پھر… ان کتوں کے ساتھ ساتھ وہ بلیاں بھی موجود ہیں — جو آج بھی وفاداری سے بھوکی مر رہی ہیں، مگر لاش کا گوشت نہیں کھاتیں۔ وہ چند گمنام ڈاکٹر، وہ ماؤں کی خدمت کرنے والی نرسیں، وہ زخمی بچی کے لیے آخری انجیکشن بچانے والا فلسطینی، وہ تمہارے ملکوں میں غ زہ کے لیے روتا ہوا بچہ, عورت یا مرد… وہ بلیاں ہیں۔
بلیاں مظلوم ہوتی ہیں، مگر بےغیرت نہیں۔ بلی کبھی پیٹھ نہیں دکھاتی، نہ بھونکتی ہے، نہ دھوکہ دیتی ہے۔ اگر بھوک سے مر جائے تو مر جاتی ہے، مگر لاش کا گوشت نہیں کھاتی۔ آج امت کو فیصلہ کرنا ہے… کہ وہ کتے بن چکی ہے، یا اب بھی بلیوں جیسا حیاء، شرم، اور غیرت باقی ہے۔میرا قلم یہاں رک نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سورہ آل عمران کی وہ آیت جو کہتی ہے کہ
"لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِنۢ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ ٱلشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ لَوِ ٱسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ ۖ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ ۖ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَٰذِبُونَ" (سورہ توبہ, آیت 42)
“اگر فائدہ نزدیک کا اور سفر آسان ہوتا تو ضرور آپ کے ساتھ نکلتے، مگر ان پر مشقت کا فاصلہ بھاری پڑ گیا، اور وہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم استطاعت رکھتے تو ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔"
وہ آج کی امت پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ امت جو فلسطین کے نام پر چندہ کھاتی ہے، شہادتوں کے نام پر شہرت بناتی ہے، وہ امت نہیں… وہ گِدھ ہے۔ ہاں! غ زہ کے کتوں سے بھی بدتر گِدھ!اور یہ بلیاں؟ یہ اب بھی آسمان کی طرف دیکھ رہی ہیں، جیسے پوچھ رہی ہوں، "یا رب! ہم نے تیرا رزق کبھی چھین کر نہیں کھایا، کبھی حرام گوشت نہیں چکھا، اور آج بھی تیری بنائی ہوئی حرمت کو مانتے ہیں، پھر تو نے ہمیں ایسی امت میں کیوں رکھا جس کے افراد میں ضمیر ہے، نہ دل میں کوئی وفا؟"
غزہ کے کتے اور بلیاں اب امت کا اصل آئینہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تم کس طرف کھڑے ہو؟ بھونکنے والوں کے ساتھ یا خاموش رہنے والے باوفا کے ساتھ؟
تبصرہ لکھیے