یہ بات کہنے میں باک نہیں کہ دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور انہی کو تحفظ اور جائے پناہ ملے گا جو مقتدر اور پھتر کا جواب اینٹ سے دینا جانتے ہوں ۔ بنی نوع انسان اپنی بہتر معاشرت نیز ظالم و سرکشوں کو مات دینے کی غرض سے شروع سے تدابیر اور باہمی سمجھوتے کرتا آیا ، تاکہ دوسروں کو حق زندگی میسر رہے. ساتھ میں ان عناصر کا قلع قمع بھی ہوتا رہے جن کا کام اقوام کو مغلوب ، محکوم اور تختہء مشق بنانا ہے ۔
اقوم متحدہ کا ادارہ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد بنایا گیا تھا تاکہ آئندہ ایسی خونریزیوں سے دنیا کو بچایا جائے اور اقوام کے مابین صلح و آشتی کے رشتے کو فروغ دے کر ایک پرامن معاشرے کی داغ بیل ؒڈالی جاسکے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ ادارہ ان ملکوں کی بابت ہمیشہ خموشی اختیار کرتا ہے جن کا اثرو رسوخ ہو جن کی ہیبت اور دہشت سے دوسری کمزور قومیں سہم جاتی ہوں ، یہ دہرا اور کھوکھلا معیار دنیا میں ناجانے کتنی وحشتوں اور حقوق کی پائمالی کا موجب بنا ہو اللہ ہی جانتا ہے ان کی تعداد ان کی حدت و شدت ہماری سوچ سے باہر ہے اتنا کچھ امن و امان تاراج ہوا ہے ۔
مسلم ممالک نے جب فلسطین کا قضیہ شروع ہوا تو اپنے تئیں مذمت و زبانی کلامی سرزنش کی ان درپردرہ قوتوں اور ممالک جنھوں نے فسلطین کی سرزمین کو اسرائیل بنانے کے لیے منتخب کی اور فلسطینی سرزمین کو وہاں کے باسیوں کے لیے اجیرن بنانا شروع کیا اس کے لیے بھرپور طاقت و قوت جھونک دی گئی دنیا بھر کے یہودی بلائے گئے ان کو یہ ضمانت دی گئی کہ یہ زمین اب تمھاری ہے اس کے تم ولی وارث ہو جبکہ اس کے محافظ ہم سب بشمول دنیا کے وہ مقتدر ادارے بھی ہوں گے جو نام نہاد عدل و انصاف کے لیے تشکیل دیے گئے ۔دنیائے اسلام نے زبانی جمع خرچ سے زیادہ فلسطین کے لیے کچھ نہیں کیا اور جو چند ایک ہیں جو اصولی طور پر فسلطین کاز کا دفاع کر رہے ہیں وہ معدودے ہی ہیں مگر ان کی عزیمت اور فدا کاری فلسطینی خوب جانتے ہیں. ساتھ میں ان تمام مسلح تنظیمیں جو اسرائیلی درندگی کو روکنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور طوفان الاقصی کا معرکہ سرانجام دیا اور صیہونی رجیم کو ورطہ حیرت میں غرق کردیا وہ تمام گروہ اور جہادی یونٹس ان کو کمک پہنچانے والے ان چند ممالک کو سراہتے ہیں ان کی کھلم کھلا حمایت کو بتاتے اور شکریہ ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
حماس جہاد اسلامی اور ان کے ساتھ دیگر تنظیمیں اب بھی بھر پور استقامت اور بے مثال جذبہء شہادت کے ساتھ اسرائیلی اور ان کے ہمنوا ممالک کی درندازی کا مردانہ وار مقابلہ کررہی ہیں ۔ پچھلے سال سات اکتوبر کو جو حملہ ہوا اسرائیل کی جانب، اس نے اس فلسطین کی آزادی اور تابناک مستقبل کی ایک نئی کرن روشن کی ہے اس حملے نے حماس اور مزاحمتی قوتوں کی بے پناہ عسکری قوت اور فلسطین کے لیے ہر حد تک جانے کی اس کوشش کو اسرائیل اور ان کے مددگاروں کے لیے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ باز آئیں اور اس قتل و غارت گری کو روک دیں ورنہ اس سے بھی شدید حملے ہوں گے نیز قربانی کے لیے مسلم دنیا کے جوانوں میں نئی تحریک جنم لے گی اس صورت میں یہ جد و جہد تیز تر ہوگی جس کا خمیازہ صیہونی اور ان کے یاروں کے بھگتنا پڑے گا ۔
یہ بات اب اظہر من الشمس ہوگئی کہ دنیا کس کے ساتھ ہے کون ظالم ، سرکش اور بے لگام پھر رہا ہے اور کمزور اقوام کو ہر صورت دبوچنے اور ان کے وسائیل ہتھیانے کے لیے جنگیں مسلط کرتا ہے ۔ مظلوم فلسطینی عوام نے دنیا بھر کے مستضعف اقوام کو ساتھ ملایا ہے ایک طرف ظالم سف آرا ہیں تو دوسری جانب مظلوم اور ان کے حامی و مددگار ۔ متعدد دفعہ اسرائیلی جنایت کاریوں کی اقوام عالم کے ذمہ دار شعبوں نے مذمت کی ان کے کرتا دھرتوں کے لیے سزائیں متعین کی نتین یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا گیا فلسطین کے بچوں کا قاتل گردانا گیا اور ان کی گرفتاری کے لیے اقدام کرنے کے لیے سفارشات مرتب کیں گئی تاہم یہ محض دعوی اور کاغذی کاروائی ہی ہے اب تک وہ دہشت گرد آزاد ہے دنیا کو مزید آگ و خون میں نہلانے کے لیے ۔ آج سبھی یہ جان چکے ہیں کہ اس ساری قتل و غارت کی خونچکاں کہانی کے پیچھے اقوام متحدہ کا لولا لنگڑا ادارہ بھی ملوث ہے جن کا بنیادی کام دنیا میں عدم و انصاف اور مظالم کا سد باب تھا وہ اپنے کردار سے ظالموں کا حمایتی اور پشست پناہ بنا تماشا دیکھ رہا ہے ۔ کیوں یہ ادارہ صیہونی وزیر اعظم کو گرفتار نہیں کرتا جن کا پورا وجود ہی سفاکیت اور بربریت سے بھرا ہے اس ظالم نے حالیہ برسوں کے دوران ہزاروں بے گناہ لوگوں کو تہہ تیغ کیا ہے ہزاروں فلسطینی اس کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں لاکھوں دربدر پھرنے پر مجبور ہوئے ،اس جنگ کی بدولت بھوک و پیاس نے فلسطین کی عوام کو مفلوک الحالی کے صحرا میں بنا کسی جنگی تباہ کاری کے مرنے پر مجبور کردیا ہے ۔
دنیا بھر میں اس بربریت اور ظلم کے خلاف عوام احتجاج کررہے ہیں امریکہ برطانہ غرض باضمیر انسان جہاں بھی ہوں فلسطین کے لیے صدا بلند کررہے ہیں خود امریکی عوام جامعات کے طلبہ اساتذہ فلسطینی بچوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے سراپا احتجاج ہیں لیکن ان ممالک کی حکومتیں مسلسل اسرائیلی امداد کرنے سے ذرا برابر نہیں کترارہی نہ ہی کہیں ان کو اس پر شرمندگی اور پشیمانی ہوئی ہے ۔ سب ایک طرف اقوام متحدہ کا ادارہ ایک طرف ہے اس ادارے نے حد درجہ بے شرمی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا ۔ مسلسل عوامی آوازوں کے باوجود یہ ادارہ بالکل گونگا شیطان ہی بنا ہوا ہے واضح رہے یہ ایسا کلنک ہے اقوام متحدہ کی پیشانی پر جو کبھی بھی نہیں دھلے گا ۔ ایک وقت آئے گا جب یہ جعلی اور بدمعاشوں کے زیر تسلط عدالتی اور انسانیت کے مشترکہ مفاد کے لیے بنا ادارہ بھی ایک بڑی عدالت سے سزا پائے گا ساتھ ان خائین کو بھی قرار واقعی سزا ہوگی جنھوں نے دامے درمے سخنے قدمے صیہونی مظالم کی حمایت اور مدد کی چاہے خاموش رہ کر ہی کیوں نہ ہو۔ یوں فلسطین کے بچوں کے لیے تڑپنے والے ، دنیا کے معزز لوگ ، ملتیں جو فلسطین کے لیے پیش پیش ہیں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا
تبصرہ لکھیے