ہوم << تم کو آزادی مبارک ہو - نصیراحمد ناصر

تم کو آزادی مبارک ہو - نصیراحمد ناصر

نصیر ناصر ’’آزادی‘‘ کا ایک اور دن تمہیں مبارک ہو،’’آزادی‘‘ کا گذرا ہر سال، جس کے ہر دن کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک گھڑی تمھارے لیے عید اور ہر شب شب برات کی مانند ہے، ’’آزادی‘‘ کی اس عظیم نعمت نے تمہیں خوشیوں اور مسرتوں کا ایک ایسا وسیع جہان عطا کر رکھا ہے، جس میں تمہارے لیے ارضی جنت سجی ہے، اور دنیا جہان کی ہر نعمت تمہارے اشارۂِ ابرو کی منتظر موجودہے، یقیناً اس ’’آزادی‘‘ کا ہر لمحہ تمہارے لیے بہت قیمتی ہے، اور یہ سب آخر کیوں نہ ہو کہ یہ’’آزادی‘‘ تمہیں تمہارے ’’قابل فخر آباء‘‘ کی طرف سے تحفہ میں ملی، جس کا انہوں نے خود بھی پورا لطف اٹھایا، اور تمہیں بھی اس کے ثمرات کا پورا حصہ ہی منتقل کر کے گئے، اورتمہارے آباء کی’’وراثت‘‘ تمہاری آئندہ نسلوں کو منتقل ہونے کے بھی تمام ظاہری اسباب مکمل ہیں، ایسی سعادتیں ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتی ہیں، اسی لیے تو تمہیں آزادی کا ایک اور نیاسال مبارک ہو.
تم بلاشبہ اس مبارکباد کے مستحق ہو کہ تم نے’’آزادی‘‘ کے مفہوم کو جس قدر سمجھا، اور اس کے ثمرات کو جس انداز میں سمیٹا، حقیقت میں کوئی ہم جیسا ایسا خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتا، اور سچی بات تو یہ ہے کہ تمہارے لیے ’’آزادی‘‘ کا کوئی خاص دن منانا بھی ضروری نہیں کہ تمہاری زندگی کا تو ہر لمحہ، ہر ساعت اور ہرگھڑی اس ’’آزادی‘‘ کے پرکیف و سرور آفرین ذائقے چکھتے گذر رہی ہے، اور بھلا یہ سب کچھ لمحوں میں تو نہیں ہوگیا،اس کےلیے’’ قربانی‘‘ بھی تو بہت بڑی اور بہت ہی’’ خاص ‘‘ لگی ہے، تمہارے آباء نے اس ’’آزادی ‘‘کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے، بہت کچھ کھویا ہے، بہت کچھ داؤ پرلگایا ہے، تمہارے’’باہمت پُرکھوں‘‘ نے تمہیں اس ہفت اقلیم نعمت سے سرفراز کرنے کے لیے بہت کچھ گروی رکھا ہے، اور ایسا کچھ اس’’ آزادی‘‘ کے حصول پرخرچ کیا ہے جس کا ہم جیسے بُدھو اور کور مغز سوچ بھی نہیں سکتے.
ہمارے آباء بھی تو ایسے ہی تھے، تمہاری رائے کے مطابق ہماری طرح کوتاہ بین، وقت کی رفتار سمجھنے سے بے بہرہ، اپنا اور اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارنے اور سجانے کے فلسفے سے نابلد، خود بھی اذیت و تکالیف میں وقت گزارا اور ہمارے لیے بھی کچھ نہ بنا سکے، جس کا نتیجہ ہر کسی کے سامنے ہے. آج تمہاری بے پناہ خوشیوں کا یہ دن بھی ان کی نسلوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں، پریشان حالی اور تنگ دستی ان کا مقدر بن چکی ہے، ان کی اولادیں سکون و آشتی کے نام کو ترس رہی ہیں، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی جن کا مقدر ہے، انصاف جن کے لیے آسمان سے تارے توڑ لانے سے بھی زیادہ مشکل ہو چکا ہے، باعزت روزگار جن کی پہنچ سے ہر آنے والے دن کے ساتھ ہی دور بھاگتا جارہا ہے، جن کی کوئی قابلیت ان کے لیے راحت کاسامان فراہم نہیں کرسکتی، خوشی و خوشحالی جن سے کوسوں دور ہے، اچھے مستقبل کے سپنے جن کے لیے ڈراؤنے خوابوں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں، اب تو ان کی آزادی سے وابستہ امیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں، ماندپڑتی جا رہی ہیں، تمہاری ’’آزاد زندگی‘‘ کے مقابلہ میں یہ غلام ابن غلام پستی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں، غلامی پر موت کو ترجیح دینے کے سبق پڑھنے والے خود تو قبروں میں جاسوئے، اوراپنی اولادوں کوتمہاری طویل غلامی کی بلائے ناہنجار کے حوالے کرگئے، نہ خود سُکھ حاصل کرسکے اور نہ ہی اپنی آنے والی نسلوں کی راحت کا سامان کرسکے، آزادی کے لیے وہ بھی بڑے پُراُمید تھے اور آزادی سے ان کو بھی بڑی توقعات وابستہ تھیں، لیکن ان کے سارے خواب تمہاری خوشیوں کی دھول میں تہہ خاک خاکستر ہوگئے
ہاں تم مستحق ہو کہ ’’آزادی‘‘ کی اس بے کراں نعمت سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ، کیونکہ تمہارے آباء نے اسی دن کے لیے قربانیاں پیش کی تھیں، اپنی انا اور خود داری کی، غیرت وحمیت کی اور مِلی وفاداری کی، عزت و وقار سے سر اٹھا کر زندگی گذارنے کی، تمہارے بزرگوں نے دین و ایمان کی قربانی دی، عزت و آن کی قربانی دی، غیرت و وفاداری کے’’خود ساختہ خول‘‘سے نجات حاصل کی، اور تمہارے لیے اس دنیا کی تمام تر آسائشات کے ذخیرے اور خزانے حاصل کرکے تمہارے حوالے کردیے، کیا یہ سب آسان تھا؟ نہیں بالکل نہیں، بہت کٹھن فیصلہ تھا، اسی کے بدلے میں انگریز آقاؤں نے تمہارے لیے دھن دولت کے راستے وا کردیے، زمینوں، جاگیروں کا اختیار تمہیں تفویض کردیا، اس لیے وقتی ذلت کے بدلے گورے آقاؤں سے ملنے والی دائمی جاگیروں کی ملکیت تمہیں مبارک ہو، اپنی سطوت شاہانہ کی بدولت حکومت و ریاست کا اختیار واقتدار مبارک ہو، وسائل دنیوی پر بلاشرکت غیرے حاصل ہونے والا تصرف مبارک ہو، اپنے گردوپیش میں بسنے والے کیڑے مکوڑے نما انسانوں کی عزت، زندگی اور حقوق پامال کرنے اور غصب کرنے کی کھلی آزادی مبارک ہو
تمہیں تمہارے بزرگوں نے یہ سبق ازبر کرا دیا کہ دولت و حکومت کے لیے دین و ایمان، غیرت و خوداری اور قوم سے وفاداری جیسے ’’وقتی نعروں اور جذبوں‘‘ کے پیچھے لگ کر وقت ضائع نہ کرنا، اور اپنی راہ کھوٹی کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹنا، اور بلاشبہ تم نے حلال حرام، جائز ناجائز کے چکر میں پڑے بغیر اپنے اور اپنی اولاد کے لیے لامحدود دولت کے حصول کا ہر راستہ اختیار کرکے اپنے اجدادکی روحوں کو خوش کردیا اور اپنے خزانوں کو قارون کے خزانوں سے بھی بڑھا لیا، لیکن تم شاید یہ بات بھول گئے جو تمھارے اجداد نے بھی بھلا رکھی تھی کہ اس کائنات کے خالق و مالک نے ہر ظالم کے لیے کچھ مہلت طے کر رکھی ہے، اور پھر اس مہلت کے خاتمے کے بعد سخت احتساب کا ایک تکلیف دہ دور ظالموں پر مسلط ہونے والا ہے.
اے آزاد وطن کے ذہنی غلام حکمرانو! اقتدار و اپوزیشن کے بنچوں پر براجمان ایک ہی نسل، ایک ہی قبیل اور ایک ہی فطرت کے جاگیردارو، تمن دارو،صنعتکارو، زردارو اور لٹیرو! ہوس زر کی خاطر تمہارے آباء نے غیرت و ایمان کی قربانی دی، مگر ان کے مقابل جن لوگوں نے اپنی جان اور مال کو قربان کیا، اپنی عفت مآب عزتوں کی پامالی برداشت کی، دربدر کی ٹھوکریں کھائیں، مگر گورے آقاؤں کی غلامی سے نجات کی جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹے، اور قائداعظم محمدعلی جناح کے شانہ بشانہ آزاد وطن کے حصول میں اپنا سب کچھ لگا کے پاکستان حاصل کیا، ان کا اس وطن کی آزادی پر پورا پورا حق تھا، جو تم نے چھین لیا، غصب کرلیا، اور سیاست و ریاست کے تمام مراکز پر قابض ہو کر تم نے آزادی کے ان حقیقی وارثوں کے تمام حقوق کی راہ میں بلند فصیلیں چن دیں، مگر اپنے آباء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی نسلیں آج بھی سربلند ہیں، غربت و بدحالی، بے چارگی و محرومی کے باوجود آج بھی پرعزم ہیں کہ جیسے تمہارے آقاؤں سے آزادی حاصل کی تھی، ان شاء اللہ ایک دن تم سے، تمہاری فسطائیت سے، تمہارے اس عظیم وطن پر غاصبانہ قبضے سے آزادی کا خواب بھی پورا ہو کر رہے گا. اصل جشن آزادی اسی دن ہوگا جس دن تمہارے اقتدار اور پاک وطن کے وسائل پر تسلط کا سورج غروب ہوگا، اور عوامی جمہور کا زمانہ آئے گا. یہ دن اب زیادہ دور نہیں، ان شاء اللہ بہت جلد کہ میرے رب نے تمہیں بہت مہلت دے لی، اب تمہاری مہلت کے دن ختم ہوکر رہیں گے. ان شاء اللہ

Comments

Click here to post a comment