ہوم << مدخلی منافقین - محمد شاہ رخ خان

مدخلی منافقین - محمد شاہ رخ خان

بعض مدخلی منافقین سوال کر رہے ہیں اچھا آپ کیا کر رہے ہیں؟ تو عرض ہے کہ ہم امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے درجات میں زبان اور قلم سے برائی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آپ جیسے نفاق سے پر لوگوں کو ایکسپوز کر رہے ہیں۔

دشمن جتنا بڑا ہے اسکو ہرانا صرف اسی وقت ممکن ہے، جب سرکاری سطح پر اعلان کیا جائے، اور اگر حکمران نہیں سمجھتا تو اسے بار بار سمجھائے۔ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرنا بلکہ جو پہلے سے شہید ہورہے ہیں انکی مدد کرنی ہے، جسکے لیے سرکاری سطح کے وسائل درکار ہیں۔ امام ابن تیمیہ کے دور میں جب تاتاریوں نے اہل شام پر حملہ کر کے خون کی ندیاں بہا دی تھیں تو امام صاحب اکیلے نہیں نکل گئے تھے بلکہ حکمران کو دھمکی دی کہ اگر تم وسائل استعمال نہیں کرتے تو تمھاری جگہ دوسرا حکمران لے آئیں گے جو مدد کریں گے۔

چنانچہ آپ نے بادشاہ وقت کو للکارتے ہوئے فرمایا:
"اگر تم نے سرزمین ِشام اور اسکے دفاع سے اعراض کیا تو ہم ایک حاکم کھڑا کردیں گے جو اسکو چاروں اطراف سے محفوظ بنائے گا، اسکی حفاظت کرے گا، اور حالت ِامن میں اسے ترقی دے گا۔"

پھر امام صاحب وہی رہے جب تک کہ لشکر نہیں بھیج دیے گئے۔مزید فرمایا:
"اگر یہ فرض کرلیا جاتا کہ تم شام کے حکمران اور بادشاہ نہیں ہوں پھر بھی اھل شام تم سے مدد طلب کرتے تو تم پر مدد کرنا واجب ہوتا جبکہ تم تو شام کے حکمران اور بادشاہ ہوں، اور وہ تمھاری رعایہ ہے جسکے تم لوگ جوابدہ ہو۔"(البداية والنھاية 14/18)

اگر شہر میں جرائم بڑھ جائے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انکی ذمہ داری یاد کروائی جاتی ہے، احتجاج کیا جاتا ہے، شرم دلائی جاتی ہے۔ اور اس اثناء میں کوئی یہ کہے کہ اداروں کو کیا بولتے ہو خود کیوں نہیں جاتے تو اس سے بڑا جاھل کون ہوگا؟ کل کو خدانخواستہ انکے گھر کوئی گھس جائے تو یہ دعائیں کرتے رہیں گے یا حکمرانوں کا دفاع کتے رہیں گے البتہ اسے اسکی ذمہ داری سید نہیں دلائیں گے۔

مدخلی منافقین کا سارا عمل ہی اس طرز عمل کے خلاف ہے جو مطلوب ہے۔ وہ صرف اس فکر میں ہے کہ ہمارے معبود باطل یعنی پسندیدہ حکمران کے بارے میں یہ کیسے ثابت کیا جائے کہ یہ زمہ داری ان پر نہیں پڑتی بلکہ یہ زمہ داری تو ترکی، ایر۔ان اور مصر کی ہے۔ بھلا ہم شرک و بدعت کی تردید میں مصروف ہیں جو امت کا سب سے اولین فریضہ ہے۔ اور حکمران تو دور بلکہ جو کوئی دو سطریں قدس کے حق میں لکھ دیں اس کا یہ رد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ انکے پسندیدہ حکمران کو اگر قبض ہو جائے اسکے مدح میں یہ ایک ہفتہ تحریریں لکھیں کہ یہ تو خادم دین ہیں، توحید کے سپاہی ہیں.

لیکن یہاں ہزاروں بچے قربان ہوگئے انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، ابھی بھی انہی سے لڑ رہے ہیں جو اہل فلسطین کا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔