پچھلے تین برسوں میں فلسطین اور غزہ کی سرزمین پر جو کچھ بیتا، وہ محض انسانی حقوق کی پامالی نہیں بلکہ انسانیت کی لاش پر ناچنے والے سفاک لمحے ہیں۔ سن 2022 سے لے کر 2025 تک، ہر طلوعِ سحر لال سورج کے ساتھ ابھرا، ہر شام ماتم کی چادر اوڑھ کر ڈھلی، اور ہر رات قبروں کی سناٹوں میں ڈوب گئی۔
وہ زمین جہاں کبھی اذانیں گونجا کرتی تھیں، وہاں اب صرف دھماکوں کی گرج، بچوں کی چیخیں، اور ماں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ جس آنگن میں بچے تتلیاں پکڑتے تھے، اب وہاں بیٹے کی لاش پر ماں اپنا سر پیٹتی ہے۔ جس مسجد سے کبھی جمعہ کے روز ہزاروں نمازیوں کی صفیں بنتی تھیں، وہ آج ملبے کا ایک پہاڑ ہے، جس کے نیچے جانے کتنی دعائیں دب چکی ہیں۔
ان تین برسوں میں تقریباً 35 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 70 فیصد سے زائد بچے، عورتیں اور بوڑھے ہیں۔ ہاں، وہ بچے جو ابھی "ماما" بولنا سیکھ رہے تھے، وہ عورتیں جنہوں نے چولہے میں پہلی بار روٹی رکھی تھی، وہ بوڑھے جو صرف چھاؤں بن کر جیتے تھے — سب مٹی میں دفن ہو چکے ہیں۔ مگر ان کا خون آج بھی صدا دیتا ہے، "ہمارا قصور کیا تھا؟"
غزہ کے ہسپتال اب شفاخانے نہیں، بلکہ درد کے قبرستان ہیں۔ ڈاکٹرز دوائیوں سے نہیں، آنکھوں کے آنسوؤں سے زخم دھوتے ہیں۔ بجلی کا نام و نشان نہیں، خون میں لتھڑی ہوئی لاشیں سرد خانے کے بغیر تپتی گرمی میں سڑنے لگتی ہیں۔ آپریشن کے دوران بلب کی روشنی نہیں، موبائل کی مدھم سی ٹارچ جلتی ہے۔ ایک بستر پر تین تین بچے پڑے ہیں، جن کے جسم کا آدھا حصہ راکھ بن چکا ہے، مگر وہ پھر بھی ماں کو ڈھونڈتے ہیں۔
12 ہزار سے زائد عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں۔ وہ عورتیں جنہوں نے ابھی سہاگ کی چوڑیوں کی جھنکار سنی تھی، وہ بیبیاں جن کی گود میں ابھی ننھا بچہ دودھ کے لیے تڑپ رہا تھا، سب خاک میں لپٹ چکی ہیں۔ وہ اب خیموں میں، سرد راتوں میں، اپنے شوہر کی جلی ہوئی انگوٹھی کو چوم کر سوتی ہیں۔ ہر بیوہ کے آنسو سے بنی ہوئی لوری اب صرف یتیموں کے خوابوں میں بچی ہے۔
اور یتیم؟ وہ تو اس زمین کا سب سے زیادہ ابھرتا ہوا المیہ ہیں۔ 20 ہزار سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ وہ بچے جنہوں نے کبھی کھلونوں سے کھیلا ہی نہ تھا، اب ملبے میں اپنے باپ کی لاش کو ڈھونڈتے ہیں۔ اسکول کے بستے کی جگہ ان کے کاندھوں پر اب بھائی کی لاش اٹھانے کی طاقت آ گئی ہے۔ وہ معصوم جو رات کو ماں سے کہانیاں سنتے تھے، اب توپوں کے سائے میں نیند لیتے ہیں۔
انفراسٹرکچر؟ وہ تو لفظ بھی اب مذاق لگتا ہے۔ غزہ کے 80 فیصد گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ ہسپتال ملبے میں بدل چکے، اسکول راکھ ہو چکے، پینے کے پانی کی لائنیں کٹی پڑی ہیں، اور خوراک کے گودام خاکستر ہو چکے۔ جو باقی بچا ہے، وہ زندہ لاشوں کا شہر ہے۔
تصویر میں اگر کچھ باقی ہے تو وہ ماں ہے، جو راکھ میں سے بچے کی کھوپڑی اٹھا کر سینے سے لگا کر رو رہی ہے۔ وہ باپ ہے، جس نے اپنے بیٹے کے آخری کلمات سنے: “ابو، کیا ہم بچ جائیں گے؟”
اور وہ آخری لمحہ، جب بچہ، سانسوں کی آخری ڈور میں صرف اتنا کہہ پایا: "امی، میں ڈر رہا ہوں..."
اور ماں کے آنسو اس کا کفن بنے۔
یہ تحریر یہاں ختم ہو سکتی ہے، مگر غزہ کی چیخیں نہیں۔ فلسطین کی مائیں اب دنیا سے انصاف نہیں مانگتیں، وہ اب صرف سوال کرتی ہیں:
"جب میرا بچہ جل رہا تھا، تم کہاں تھے؟"
"جب میرے سہاگ کا سر تن سے جدا کیا گیا، تم کیوں خاموش تھے؟"
"جب میں نے لاشوں کے انبار میں اپنے بھائی کی انگلی پہچانی، تمہیں نیند کیسے آئی؟"
فلسطین جل رہا ہے، غزہ رو رہا ہے، اور دنیا اپنے مفاد کی عینک سے صرف راکھ دیکھ رہی ہے، انسان نہیں۔
لیکن یاد رکھو، ہر شہید کی آہ عرش تک پہنچتی ہے،
اور جب رب کے ہاں انصاف ہوگا،
تو نہ کوئی اسرائیلی جھوٹ بچ پائے گا،
نہ کوئی عالمی طاقت کا بہانہ
تبصرہ لکھیے