آج رات 12 بجے تاریخ کے سینے پہ 14 اگست کے نام کا ایک اور ستارہ سجے گا، کہنے کو ایک ساعت پر نجانے کتنے زمانوں کی کتھائیں اس کے کوزے میں قید. بہت سے دوستوں کی پوسٹس پڑھنے کو ملیں، بہت مایوس اور دکھ سے بھرے بیانیوں کے تذکرے، نفرت کی تلچھٹ سے بھرے لفظ، منافقت اور عیاری کے لبادے میں پاکستان کا دکھ رونے والے اداکاروں کے نوحے. نفرت، ریاکاری، بغض، دہشت گردی، منافقت، جھوٹ اور فریب کا رونا رونے والوں کو بازارِ دل کے خستہ فٹ پاتھوں پہ بیٹھے محبت، اخلاص، امن، سچائی، محبت اور وفا کے سچے موتی بانٹتے ہوئے بےلوث کشادہ جبینوں والے لوگ نظر نہیں آتے. نجانے کیوں اس کے راستوں کی ویرانی کا رونا رونے والوں کو اٹھکیلیاں کرتی ہوئی تتلیاں اور چڑیاں، رقص کرتی دھوپ، بازیب چھنکاتی چاندنی، اور دھمال ڈالتے من چلے مسافر دکھائی نہیں دیتے. خزاؤں کا بے وقت راگ الاپنے والوں کو مہندی سجے ہاتھ، ست رنگی چوڑیوں سے سجی کلائیاں، مہکتی چنریا پہ وفا کا گیت لکھنے والے سانول کے رخساروں پر اتراتی ہوئی حیا کی سرخی دکھائی نہیں دیتی.
میں جہاں بھی جاتا ہوں، اس سرزمین کا کشادہ فلک میرے ساتھ رہتا ہے. میں کبھی بے چھت نہیں ہوتا، کسی بھی شہر میں جاؤں، اجنبی نہیں ہوتا، لوگوں کی آنکھیں اور پیڑوں کی شاخیں میرا استقبال کرتی ہیں. جب فاقہ میرے در پہ دستک دیتا ہے تو پاس کے کسی دربار کے لنگر خانے پہ بیٹھ جاتا ہوں، خدا کے ہرکارے میرا رزق وہاں لے آتے ہیں. مجھے اس ملک کی فضاؤں میں محض گولیوں کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں، بلکہ ہر روز پانچ مرتبہ اذان میرے سماعتوں کے در پہ دستک دیتی ہے. میرے گلیوں میں گھومتے فقیر اپنے حصے کا رزق مجھ سے طلب کرنے میرے کانوں کے راستے مجھ تک پہنچ جاتے ہیں، انہیں کوئی نہیں روکتا. رات کے کسی پہر جب ریل کا انجن شب کی یخ بستہ حویلی سے نمودار ہوتا ہے تو اسٹیشن پہ بیٹھے قلیوں کے لرزتے وجود میں دوڑتی بے چینی اور گھڑیال کی ٹک ٹک سب میری سماعتوں اور یادوں کا حصہ ہے.
زندگی کی کتنی ہی بہاریں میری بہار کا حصہ ہیں. میں نے خود کو ہمیشہ آزاد محسوس کیا ہے . میرے سینے میں لہرانے والا علم کوئی اور نہیں پاکستان کا علم ہے۔ اس کی سنہری دھوپوں میں اپنے جسم اور سوچوں کو نمویاب ہوتے دیکھا ہے میں نے. اس کی مٹی پہ گرتے پڑتے آج میں افق کے اس پار بھی دیکھ سکتا ہوں۔ لیکن میرے قدم اس مٹی سے جدا نہیں ہوتے۔ میرا ہونا میرے وطن سے ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ جس وطن نے مجھے سب کچھ دیا میں اس کو کچھ نہ دے سکا۔ لیکن یہ جو ایک پرچم ہے میرے سینے میں کوئی بھی موسم ہو اس کا رنگ مدھم نہیں ہوتا. مجھے اس وطن سے، اس کے لوگوں سے کوئی شکایت نہیں۔ میں اس قابل بھی نہیں کہ شکایت کر سکوں کیونکہ اس وطن میں مجھے ہمیشہ رب اور ماں کی طرح ہمیشہ دیا ہی دیا ہے۔ میں پاکستان ہوں۔ کیا آپ بھی پاکستان ہیں؟ ذرا سوچیے!
تبصرہ لکھیے