ہوم << وطن عزیز کی سیاست اور گورننس کی صورتحال - محمد قاسم مغیرہ

وطن عزیز کی سیاست اور گورننس کی صورتحال - محمد قاسم مغیرہ

میرا نور چشم اسرار احمد پانچویں برس میں ہے، کارٹون دیکھنے کا شوقین ہے۔ کارٹون دیکھتے وقت وہ سوال پوچھتا رہتا ہے کہ کیا ان کرداروں کا کوئی حقیقی وجود بھی ہے یا یہ محض سکرین پر نظر آتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں اس کی معلومات میں کافی بہتری آئی ہے اور اس نے کافی حد تک جان لیا ہے کہ کن چیزوں کا حقیقی وجود ہوتا ہے اور کون سی چیزیں محض سکرین پر نظر آتی ہیں۔ اب وہ میرے بتانے سے پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ کارٹون کا فلاں فلاں کردار محض سکرین پر نظر آتا ہے جب کہ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔

وطن عزیز کی سیاست اور گورننس کی صورت حال بھی کارٹون سے کچھ مختلف نہیں ہے کہ اس کے بہت سے تصورات محض تصورات ہی ہیں اور ان کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ ان میں سب سے اہم تصور جمہوریت کا ہے۔ جمہوریت کے ترانے ہر سر میں موجود ہیں۔۔جمہوریت کے ایک سے بڑھ کر ایک مدھر نغمے موجود ہیں۔ کوئی ٹالک شو ، کوئی انٹرویو، کوئی پریس کانفرنس اور کوئی جلسہ جمہوریت کے ذکر سے خالی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے منشور لکھنے والوں نے بھی تمام زور بیاں جمہوریت کی عظمت بیان کرنے میں صرف کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت کا کوئی حقیقی وجود بھی ہے یا یہ اس کے نعرے صرف کارٹون کی طرح خوش رکھنے کا کام کرتے ہیں؟ جس طرح کارٹون بچوں کو غیر حقیقی کرداروں سے خوش کردیتے ہیں اسی طرح جمہوریت بھی ایک ناپید شے ہوتے ہوئے خوشی فراہم کرنے کا کام کرتی ہے۔ جمہوریت کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔

وطن عزیز کی سینیئر اور تجربہ کار سیاسی جماعتیں کو جمہوریت چھو کر بھی نہیں گزری۔ جمہوریت پسندی تو بہت دور کی بات ہے ، ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت سے خوف زدہ ہیں۔ حوادثِ زمانہ کی پیداوار سیاسی جماعتوں کا طرز عمل جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ہاں ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کی روش بہت پرانی ہے۔ وفاقی حکومت کا صوبائی حکومتوں پر چڑھ دوڑنا اور صوبائی حکومتوں کا وفاقی حکومتوں پر چڑھ دوڑنا جمہوری طرز عمل کا منہ چڑاتے ہوئے رویے ہیں۔ وطن عزیز کی سیاسی جماعتوں پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ وراثتی سیاست نے متبادل قیادت سامنے نہیں آنی دی۔ وراثتی سیاست کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وراثتی سیاست نے جمہوریت کو بچا رکھا ہے۔ وراثتی سیاست نے جس شے کو بچا رکھا ہے وہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سینیئر اراکین قیادت کے بچوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ قائدین کے بچوں کی عمر سے زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والے لوگ کب سے منتظر تھے کہ مہاراجہ جوان ہوں اور پارٹی کی قیادت کریں۔

صرف جماعت اسلامی ہے جس نے وراثتی سیاست کی نفی کرتے ہوئے وطن عزیز کی بہترین جمہوری جماعت بن کے دکھایا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشنز ہوں یا کسی کارکن کا محنت کے بل بوتے پر جماعت کا سربراہ بن جانا ، یہ جماعت اسلامی کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ میں گزشتہ 78 برس سے ناظم اعلیٰ کے انتخابات ہورہے ہیں۔ وطن عزیز کی کوئی دوسری جماعت ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشنز اس اصول پر ہوتے ہیں کہ جماعت کے سربراہ حسب معمول کام کرتے رہیں گے، کوئی ان کے مقابل کھڑا نہیں ہوسکتا، ایک رسمی کارروائی ہوگی، تمام اراکین اس رسمی کارروائی میں حصہ لے کر تمغہ جمہوریت وصول کرسکتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات سے بھی خوف زدہ ہیں۔ ان کے لیے یہ تصور ناقابل قبول ہے کہ کوئی میئر یا ناظم پر پرزے نکال کر جماعت کی قیادت سے آگے نکل جائے۔ ان کی بقاء اسی میں ہے کہ بونوں کا ایک ہجوم ہمہ وقت ان کے ارد گرد موجود رہے جو انہیں ان کے سروقد ہونے کے مغالطے میں مبتلا رکھے۔

اسی طرح اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ترقی کا کوئی حقیقی وجود ہوتا ہے یا یہ بھی محض ٹیلی وژن سکرین یا اخبارات کے اشتہارات تک محدود ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی یہی ہوگا کہ سر دست تو ترقی صرف ٹیلی وژن سکرین اور اخبارات کے اشتہارات تک ہی محدود ہے۔ اس کا حقیقی وجود دیکھنا ہر کسی کے نصیب کے بات نہیں ہے۔ تشہیری ترقی کے علاوہ ترقی کی صورت حال یہ ہے کہ تعلیم اور صحت نجی شعبے کے پاس چلے گئے ہیں۔ دیگر شعبوں میں اداروں کی اکثریت خسارے میں ہے۔ کچھ اداروں کی کارکردگی رشوت سے مشروط ہے۔

اسی طرح اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ملک میں سچ مچ آئین کی بالادستی ہے یا آئین کی بالادستی صرف چند خوب صورت سطروں کا نام ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہوگا کہ آئین خوب صورت اقوال کا مجموعہ ہے لیکن یہ اقوال کبھی جامہ عمل میں ڈھلتے دکھائی نہیں دیتے۔ آئین کی ایسی شقیں جن کا تعلق عام آدمی کے وقار سے ہے، عملاً معطل ہیں۔ مثلاً آئین کی وہ شقیں جن کا تعلق شہریوں کی مساوات ، علاج معالجے اور انصاف کی فراہمی اور استحصال کے خاتمے سے ہے، کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا شقوں کی عملی صورت حال محتاج بیان نہیں ہے۔ ہر ذی شعور شخص حقائق سے بہ خوبی واقف ہے۔

کیا سول سروس سچ مچ عوام کی خادم ہے؟ نہیں ، ہرگز نہیں۔ یہ عوام پر ایک جابر آقا کی طرح مسلط ہے۔ اس کا رہن سہن عوام کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ یہ ایک سفید ہاتھی ہے۔ کیا عدالتیں سچ مچ آزاد ہیں؟ نہیں، عدالتیں آزاد نہیں ہیں۔ ان کے اپنے اپنے سیاسی رجحانات ہوتے ہیں۔ یہ آئین کی من چاہی تشریح کرکے کوئی بھی فیصلہ سناسکتی ہیں۔ ان میں تعینات ججز کے انتخاب کا طریق کار ہی غلط ہے۔ کیا فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی حد تک تو ایسا ہی ہے لیکن حقائق ان پریس کانفرنسز میں کیے گئے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔ جس طرح اکثر کارٹون کیریکٹرز حقیقی وجود نہیں رکھتے، اسی طرح وطن عزیز کی سیاست اور گورننس کے بیش تر تصورات محض تصورات ہی ہیں، کوئی حقیقی وجود نہیں رکھتے۔ یہ خوش نما تصورات محض عوام کو خوش کرنے کے لیے تراشے گئے ہیں۔

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment