سیاح کو دورانِ سفر جس مسئلے کا سب سے زیادہ سامنا ہوتا ہے، وہ زبان کا مسئلہ ہے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی کی زبان نہیں آتی، تو آپ اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں سمجھ سکتے۔ زبان ہمارے جذبات و احساسات، خوشی و محبت اور غصہ و ناراضگی کے اظہار کا بنیادی ذریعہ ہے۔
اگر ہمیں کسی کی زبان نہ آتی ہو تو اس کی دیگر کئی باتوں سے بھی نا بلد رہ سکتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ مجھے فلاں قوم کی زبان بہت اچھی طرح آتی ہے، تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے؟… دانشور یہاں یہ بھی رہنمائی کرتے ہیں کہ جب تک آپ اس زبان کی ”گالیاں“ نہ جانتے ہوں، تب تک آپ اس کو پوری طرح سمجھنے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتے۔
اس حوالے سے کچھ پریشان کن تجربات بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارے پٹھان بھائیوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کسی محفل میں اگر دوسری زبان والوں کے ساتھ کچھ پشتو بولنے والے بھی جمع ہو جائیں، تو وہ باقی سب کو چھوڑ کر بس آپس میں پشتو بولنے میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ہم زبانوں کی موجودگی میں کوئی اور زبان بولنا پسند نہیں کرتے۔ ویسے تو یہ ایک اچھی بات ہے، لیکن محفل میں موجود دوسرا شخص، جو پشتو نہیں جانتا، وہ بیچارہ ہونق سا کھڑا ان کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اسے بالکل سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا بات کر رہے ہیں۔ بعض اوقات تو بڑی عجیب صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
1987ء کی بات ہے، جب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ میں اور میرا ایک دوست چترال گئے۔ اس زمانے میں مَیں ماہنامہ رابطہ کیلئے سیاحتی مضامین لکھا کرتا تھا۔ ہم نے چترال میں چند دن قیام کیا، وادئ کیلاش کی سیر کی، فوٹوگرافی کی اور تحریر کیلئے معلومات جمع کیں۔ جس دن ہمیں واپس آنا تھا، اس دن صبح کو ہم ایک ہوٹل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ ہماری برابر والی ٹیبل پر تین نوجوان بیٹھے تھے۔ ہوٹل کے باہر ان کی زبردست ٹویوٹا ڈبل کیبن گاڑی کھڑی تھی۔ ان سے تعارف ہوا۔ ہم نے بتایا کہ کراچی سے آئے ہیں اور میں رابطہ رسالے میں لکھتا ہوں اور اسی کیلئے آرٹیکل تیار کرنے آیا ہوں۔
اس پر ان میں سے ایک بولا کہ وہ رابطہ پڑھتا ہے اور اس نے میری تحریریں بھی پڑھ رکھی ہیں۔ میں بڑا خوش ہوا۔ اس نے پوچھا کہ اب ہم کہاں جائیں گے؟… میں نے جب اسے بتایا کہ اب ہمیں نوشہرہ جانا ہے تو کہنے لگا کہ ہم بھی اسی طرف جا رہے ہیں، آپ ہمارے ساتھ ہماری گاڑی میں چلیں، ہمیں بڑی خوشی ہوگی۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں … کیونکہ دوسری صورت میں تو ہم بسوں میں خوار ہوتے ہوئے جاتے۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ تھوڑی دیر بعد ہم ان کی گاڑی میں بیٹھے چترال سے نکل رہے تھے۔ ان تین دوستوں میں سے ایک پشتو بولنے والا تھا۔ لواری ٹاپ سے آگے دیر کا سارا علاقہ ہی پشتو بولنے والوں کا ہے۔
وہ ہر جگہ پٹھانوں سے سلام دعا کرتا ہنسی مذاق کرتا جا رہا تھا، لیکن ساتھ ہی پشتو میں ہم دونوں کا مذاق بھی اڑاتا جا رہا تھا۔ میں پشتو روانی سے بول تو نہیں سکتا، البتہ اچھی خاصی سمجھ لیتا ہوں کیونکہ بچپن قائد آباد کراچی کے اس محلے میں گزرا ہے جہاں پشتو بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ وہاں میرے کئی دوست پٹھان تھے جن سے میں نے پشتو سیکھی تھی۔ آج بھی اگر کچھ دیر پٹھان بھائیوں میں گزاروں تو اٹک اٹک کر پشتو بولنا شروع ہو جاتا ہوں۔ لیکن یہ بات تو اُسے معلوم نہ تھی۔
راستے میں ایک دو جگہ کسی نے پشتو میں اس سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ دونوں پینٹ شرٹ والے لڑکے کون ہیں؟
تو قہقہہ لگاتے ہوئے بولا کہ یہ کراچی والے ہیں اور ہم نے انہیں چترال سے اغوا کیا ہے۔ اب ہم انہیں راستے میں کہیں بیچ دیں گے۔ میں اس کی ساری بات سمجھ تو رہا تھا لیکن خاموش رہا۔ رات کسی وقت ہم چکدرہ پہنچے اور ایک ہوٹل پر کھانے کیلئے رکے۔ وہاں بھی کسی نے ہمارے بارے میں پوچھا تو اس نے ہنستے ہنستے یہی جواب دیا کہ وہ ہمیں اغوا کر کے لائے ہیں اور کہیں بیچ دیں گے۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو سکا۔ میں نے اس سے اردو میں کہا :
”بھائی جان آپ ہمیں کتنے میں بیچیں گے؟…“
یہ سننا تھا کہ وہ سناٹے میں آگیا۔
”یار آپ کو پشتو آتی ہے؟…“ وہ سٹپٹا کر بولا۔
میں نے کہا ہاں … تو بولا :
”یار آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا … مجھے معاف کر دیں … میں تو خواہ مخواہ آپ کا مذاق اڑا تا رہا ہوں … مجھے تو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آپ پشتو سمجھتے ہیں، میں بہت معذرت چاہتا ہوں، آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا۔“
”کوئی بات نہیں یار“ میں بولا۔”تم نے ہمارا مذاق اڑا کر مزے لئے، ہم نے تمہاری گاڑی میں سفر کر کے مزے لئے … حساب برابر ہو گیا۔“
”نہیں نہیں بھائی، حساب کدھر سے برابر ہو گیا … میں تو بہت شرمندہ ہوں … آپ مجھے کوئی خدمت کا موقعہ دیں۔“
میں نے کہا کہ اب مجھے نوشہرہ پر آرٹیکل تیار کرنا ہے۔ آپ یہ خدمت کریں کہ مہربانی کر کے ہمیں نوشہرہ میں اتار دیں۔ وہ بولا کہ میرے عزیز نوشہرہ میں رہتے ہیں، میں آپ کو ان کے گھر لے جاتا ہوں۔ آپ جب تک چاہیں وہاں قیام کریں۔ وہاں آپ کو ہر طرح کی سہولت ملے گی۔
آدھی رات کے وقت ہم نوشہرہ پہنچے۔ اس نے اپنے رشتہ داروں سے میری بڑی تعریفیں کیں اور انہیں ہماری مہمان نوازی کی خصوصی تاکید کر کے رخصت ہو گیا۔ ہم دو دن وہاں رکے۔ ان لوگوں نے واقعہ ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں نے نوشہرہ کی معلومات جمع کیں اور بعد میں اس پر آرٹیکل لکھا جو رابطہ میں شائع ہوا۔
یہ تو وہ واقعہ تھا جو خود میرے ساتھ پیش آیا، جبکہ دوسرا واقعہ میرے ایک پٹھان دوست نے خود سنایا۔ کہنے لگا کہ ایک دفعہ میں کراچی میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ٹیکسی میں کہیں جا رہا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور اردو بولنے والا تھا اور ہم دونوں پشتو بولنے والے۔ میرا دوست کچھ منہ پھٹ سا تھا۔ اس نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا آپ اردو بولنے والے ہیں؟… اس نے کہا ہاں … تو یہ بولا کہ مجھے اردو بولنے والے بہت اچھے لگتے ہیں اور میں اردو بولنے والوں میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔
ڈرائیور بولا کہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ایسی شادیاں تو ضرور ہونی چاہئیں تاکہ ہمارے معاشرے میں تعصب ختم ہو۔ یہ کہہ کر ٹیکسی والا تو اپنی ٹیکسی چلانے لگا لیکن میرا دوست پشتو میں نہ صرف اس کا مذاق اڑانے لگا بلکہ اسے خواہ مخواہ کچھ گالیاں بھی دے ڈالیں۔ لیکن ٹیکسی والے نے کوئی توجہ نہ دی۔ میں نے اپنے دوست کی سرزنش کی کہ یہ تم بدتمیزی کر رہے ہو۔ اگر وہ تمہاری زبان نہیں سمجھتا تو تم بلا وجہ بدزبانی کرو گے؟… وہ بولا کہ ڈرائیور کو کیا پتہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
میں اسے منع کرتا رہا اور سخت ناراض بھی ہوا۔ بہرحال کچھ دیر میں ہماری منزل قریب آگئی۔ لیکن ہمیں جس گلی میں مڑنا تھا، ٹیکسی والا اس سے کچھ آگے نکل آیا۔ جب میں نے اسے روکا اور کہا کہ پچھلی گلی میں جانا تھا، تو وہ مجھ سے پشتو میں بولا کہ آپ گاڑی سے اتر کر پیچھے آنے والی گاڑیوں کو اشارہ دیں تاکہ میں ریورس کروں۔ جیسے ہی اس نے یہ جملہ پشتو میں کہا، ہم دونوں دوست سناٹے میں آ گئے … یعنی وہ پشتو جانتا تھا … میرا دوست شرمندگی سے پیلا پڑگیا، کیونکہ وہ تو کب سے اسے بلاوجہ برا بھلا کہتا آرہا تھا، یہ سمجھ کر کہ وہ پشتو نہیں جانتا۔ لیکن وہ نہ صرف سب کچھ سمجھ رہا تھا، بلکہ اس نے ہمیں کوئی جواب بھی نہیں دیا۔ میں نے فوراً ٹیکسی ڈرائیور سے کہا کہ ہم جو بکواس کر رہے تھے آپ مہربانی کر کے ہمیں اس کی معافی دے دیں۔
ڈرائیور بولا کہ بیٹا مجھے بیس پچیس سال ہوگئے ہیں ٹیکسی چلاتے۔ پورا ملک دیکھا ہے اور پاکستان کی تقریباً ساری زبانیں جانتا ہوں۔ بڑی گھٹیا حرکت کی آپ کے دوست نے۔ میں چاہتا تو اس کو راستے میں ہی بے عزت کرکے اتار سکتا تھا، لیکن آپ جو اس کو مستقل منع کر رہے وہ مجھے اچھا لگا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ شریف آدمی ہیں اس لئے راستے بھر کچھ نہ بولا۔ آپ اس کو سمجھائیں کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرے۔
ہم اتر تو گئے ٹیکسی سے، لیکن اس کے بعد میں نے اس دوست کو اپنے دیگر جاننے والوں کے بیچ میں بٹھا کر ذلیل کیا تاکہ وہ آئندہ کبھی ایسی حرکت کرنے کی ہمت نہ کر سکے، بلکہ میں نے اس سے دوستی ہی ختم کر دی۔ یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ کسی شخص کو دیکھیں کہ وہ آپ کی زبان نہیں سمجھتا، تو اس کی اس کمزوری سے کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں، اس کا مذاق نہ اڑائیں، اس کی بے عزتی نہ کریں۔
پشتوکی تو بس میں نے ایک مثال ہی پیش کی ہے، ورنہ یہ ہر زبان کا مسئلہ ہے۔ میرا تعلق سندھ سے ہے اور میں نے وہاں بھی دیکھا ہے کہ اگر کوئی دوسری زبان بولنے والا آ جائے، جسے سندھی نہ آتی ہو، تو گاؤں کے لڑکے بالے ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کچھ ہتک آمیز سی گفتگو کرتے ہیں اور پھر کھی کھی کھی ہنستے ہیں۔ دیگر ممالک میں بھی دیکھا ہے کہ لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں یا ایسے انداز سے مذاق اڑاتے ہیں کہ اجنبی مسافر کو پتہ بھی نہ چلے اور یہ آپس میں مزے بھی لے لیں۔ اس لئے کہتے ہیں کہ اگر کسی کی زبان نہ آتی ہو تو آپ اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح اگر آپ کو لگے کہ کسی اور کو آپ کی زبان نہیں آ رہی تو کوئی الٹی سیدھی بات بھی نہ کریں۔ بہتری اسی میں ہے کہ خاموش رہیں۔
تبصرہ لکھیے