گزشتہ دنوں کے حالات اور سیاسی اتار چڑھاؤ کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ:
- پارلیمنٹ میں آج بھی زندگی موجود ہے
- آج بھی سچائی کا ساتھ دینے والے افراد موجود ہیں
- آج بھی انصاف کے لیے کھڑے ہونے والے افراد موجود ہیں
- آج بھی کھل کر حق کے لیے آواز اٹھانے والے افراد موجود ہیں
جبکہ دوسری جانب:
- ہم ہی زندگی سے محروم ہیں،
- ہم ہی اتحاد اور یکجہتی سے محروم ہیں،
- ہم ہی وژن اور خواب سے محروم ہیں،
- ہم ہی جرأت اور حوصلے سے محروم ہیں۔
کل کا پورا دن ہنگامہ خیزی میں گزرا،
اور آخرکار، پارلیمنٹ میں جن کی اکثریت تھی وہ اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہوگئے،
اور وہ کامیاب ہوجائیں گے اس کا اندازہ پہلے سے تھا اور سب کو تھا،
لیکن اچھی بات یہ رہی کہ ایک بڑی تعداد آخر تک کھل کر اس قانون کی مخالفت کرتی رہی.
یہ بات ہمیشہ ریکارڈ میں رہے گی کہ جہاں اس قانون کے حق میں 288 ممبران پارلیمنٹ نے ووٹ ڈالے، وہیں آخری وقت تک اس بل کے خلاف 232 ممبران پارلیمنٹ یک زبان ہوکر کھڑے رہے!
اب سوال یہ ہے کہ اس ظالمانہ قانون کو کس کس سطح پر اور کیسے کیسے چیلنج کیا جاسکتا ہے؟
گزشتہ دنوں اس بات کا اشارہ، بلکہ اعلان مسلم پرسنل لا بورڈ نے بار بار اپنے مظاہروں اور پریس کانفرنسوں میں کیا تھا کہ اگر یہ قانون پاس ہوگیا تو ہم دو محاذوں پر اس کا مقابلہ کریں گے،
ایک، اس کے خلاف قانونی لڑائی کا محاذ ہے
اور دوسرا، اسٹریٹ موومنٹ کا محاذہے۔
یعنی پوری تیاری کے ساتھ ملک کی عدلیہ کے سامنے اس قانون کو چیلنج کیا جائے گا
اور اس قانون کی واپسی کا مطالبہ لے کر ملک گیر عوامی تحریک اس کے خلاف کھڑی کردی جائے گی!
بدقسمتی سے قانون پاس ہوگیا ہے،
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں مذکورہ بالا دونوں محاذوں پر کیسے کام کرنا ہے،
یقیناً اس پر بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ اور بہت ہی گہری منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے
امید کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اس موقع پر ملت اسلامیہ ہند کی درست اور بروقت رہنمائی کے لیے فرنٹ لائن میں موجود رہے گا
اور ماضی کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے برعکس اس موقع پر پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ قیادت کے فرائض انجام دیے جائیں گے!
تبصرہ لکھیے