مجھے نہیں پتہ تھا کہ بچے ضد کر کے کیسے بات منواتے ہیں، کیونکہ احمد نے ایسا کبھی کیا ہی نہ تھا۔
وہ اتنا بے حد پیارا تھا جتنے سب بچے اپنی امیوں کو لگتے ہیں۔ اور اس کی اضافی صفت یہ تھی کہ وہ بہت خوش رہنا، بِیبا بچہ تھا۔ اسے لئے لمبی فلائٹس بھی کیں، ایک براعظم سے دوسرے کا سفر کیا، دن رات، کھانے پینے، لوگ احباب سب بدلا لیکن میرے بچے کا مزاج نہ بدلا۔ وہ سب میں خوش رہتا۔ ننھا سا تھا تب بھی جاگتا تو زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ۔
میں نے اس کی پیدائش سے بھی پہلے سے پیرنٹنگ کورسز کر رکھے تھے۔ مجھے کافی اندازہ تھا کہ کیسے کیسے چھوٹے بچوں کو ڈیل کیا جائے۔ یوں مل جل کر ہماری زندگی بڑی پیاری گزر رہی تھی۔ ہم دونوں میں کمال کی بانڈنگ تھی۔ میں اسے رنگ برنگ ایکٹیویٹیز میں مصروف رکھتی، وہ بہترین ساتھ نبھاتا۔ ہم خوب کھیلتے تھے۔ ڈھیر کتابیں پڑھتے تھے، بہت باتیں کرتے تھے۔
پھر پارک سے ماما کے لئے پرندوں کے ٹوٹے ہوئے پر، خشک پتے، اور چکنے پتھر تحفہ لاتے لاتے پتہ نہیں چلا کس دن احمد بڑا ہو گیا۔
بات مان لینے والے میرے بیٹے کی اب اپنی پرسنیلٹی بننے لگی تھی۔ وہ کچھ باتیں مانتا، اور کچھ پر رِزِسٹ کرتا تھا۔ہماری نسل کچھ یوں پروان چڑھی ہے کہ ہم کنٹرولنگ ماحول میں بڑے ہوئے ہیں۔ لامحالہ ہمارے لئے یہ انا کا مسئلہ بن جاتا کہ بچہ میری بات کو رد کر دے۔ اچھے بچے تو وہ ہوتے ہیں نا جو ہر بات مانتے ہیں؟ جن کی شاید اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ جو انسان کے جسم میں روبوٹ ہوتے ہیں۔ آپ ان کا جو بٹن آن کریں، وہ اس کی طے شدہ ہدایات کے مطابق کام شروع کر دیں۔ آپ بٹن آف کریں اور بچہ بلا کسی پس و پیش کے رک جائے۔ ہے نا؟
بس، یہیں سے ابتدا ہوئی میرے اور احمد کے بیچ تلخی کی۔
وہ کبھی بات مان لیتا، کبھی اپنی مرضی کرتا۔ میں بول پڑتی، وہ جواب دیتا، میری آواز مزید اونچی ہوتی۔ ہمارے بیچ واضح طور پر ایک پاور سٹرگل چل رہی تھی اور مجھے یہ جنگ ہر حال میں جیتنا تھی۔ میں ماں تھی آخر! نتیجتاً وہ جتنا لاؤڈ ہو گا، میری آواز اس سے زیادہ بلند ہو گی۔
"شرم نہیں آتی ماں کو جواب دیتے ہوئے؟"
"میرا دل کرتا ہے اب ایک لگا دوں گی آپ کو۔۔" (ایسا زندگی میں کبھی نہیں ہوا لیکن یہ جملہ احمد کے دس گیارہ سال کے ہونے پر میری زبان سے ادا کئی بار ہوا)
"آپ جائیں یہاں سے اور مجھے اب نظر نہ آنا کافی دیر۔۔"
مجھے یہ تو سمجھ آ رہا تھا کہ مجھ سے زیادتی ہو جاتی ہے۔ مجھے ٹھیک سے اس کا حل نہیں پتہ چل رہا تھا۔ مجھے عادت ہی نہ تھی کہ وہ من مانیاں کرتا پھرے۔ بات ماننے والے میرے "اچھے" بچے کا یہ روپ ناقابل قبول تھا۔ میں چڑچڑی ہو رہی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں نے دس سال اسے بہترین طریقے سے پالا ہے تو کیا میں کنٹرولنگ تھی؟ یا پھر یہ بد تمیز ہونے لگا ہے؟ ہفتے دس دن بعد ایک بار ماں غصہ کر دے تو یہ نارمل ہے۔ لیکن اگر ہر روز یا دو دن بعد آپس میں چپقلش ہو رہی ہے تو کہیں تو کچھ بہت ہی غلط ہو رہا ہے۔ مجھے اضافی تکلیف یہ ہوتی کہ میں اتنا فریکوینٹ لی اگر اسے ڈانٹوں گی تو کیا اسے وہ ڈھیر لاڈ یاد رہیں گے یا بچپن کی بات بچپن کے ساتھ رہ جائے گی اور اسے کوئی کنٹرولنگ، نارسسسٹ ماں یاد رہے گی؟
انہی دنوں جب میں نے اپنا بلڈ ورک کروایا تو میرا آئرن شدید لو آیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کمی میرے مزاج پر اس بدترین طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ سپلیمنٹ لینے شروع کیے تو ہفتہ بھر میں ہی حالات کی کشیدگی کم ہونے لگی۔ میرا موڈ بہت بہتر ہونے لگا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر شیفالی کا پیرنٹنگ کورس کیا۔ خریدتے وقت تو بہت مہنگا محسوس ہوا کہ پانچ لیکچر پانچ سو ڈالر کے۔ لیکن اس نے مجھے بہت سہارا دے دیا۔ ٹین ایج بچوں کے مزاج کے بارے میں بہتر آگاہی ملی۔ سب کچھ جو احمد کر رہا تھا، وہ اس کی عمر کے سبھی بچے کرتے ہیں۔ اور پھر جیسا کہ پیرنٹنگ کا مطلب بچے کی تربیت کی خاطر اپنی تربیت کرنا ہوتا ہے، اس چیز نے بہت مدد دی۔ مزید سیکھنے کے دروازے بھی کھولے۔ اسی میں ایک اینیمیٹڈ مووی "Inside Out" کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ بچے کے اندر ہارمونز کس طرح ہلچل مچائے ہوئے ہیں۔
ایک کام اور بہت اہم یہ کیا کہ میں اپنے ٹرِگرز پر نگاہ رکھنے لگی۔ ایک تو وہی ہماری اپنی پرورش جس انداز میں ہوئی ہے، وہ ہمارے اندر سے نکل کر باہر آنے لگتا ہے۔ پھر انر چائلڈ جسے ویلیڈیشن چاہیے اور اپنی بات منوانی ہے۔ پھر یہ کہ انا کو کیسے ہینڈل کریں۔ اور جب میں نے اپنے موڈ سونگز کو ٹریک کیا تو اس کا سرا خواتین کے منتھلی سائیکل کے ساتھ بھی جڑتا محسوس ہوا۔ اسی لئے ٹرگرز پہچاننا ضروری ہے۔ پتہ ہو گا کہ آخر غصہ کیوں آ رہا ہے تو بچے کو الزام دینے، یا اس پر انڈیلنے کے بجائے جڑ پکڑنا آسان ہو گا۔
ایک اہم بات یہاں والد حضرات سے بھی۔ عموماً جس وقت بچے اپنی پری ٹین اور ٹین کو ہٹ کرتے ہیں، اسی وقت مائیں اپنے پیری مینوپاز اور مینوپاز سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ یعنی ماں اور ٹین ایجر میں ہارمونز کا تپتا گولہ ایک طرف ہے، تو کھولتا ہوا مادہ دوسری جانب۔ جس دن دونوں طرف کے ہارمونز کا ٹکراؤ ہوتا ہے، لاوا پھٹ پڑتا ہے۔ ایسے میں والد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کا خیال کریں، اور اپنی اولاد کا بھی۔ میرے جیسی ماں گھر والوں سے کہہ دیا کرتی ہے کہ کچھ دن مجھ سے مت الجھیں۔ میں خود مشکل میں ہوں۔ آپ لوگ احساس کر لیں۔ نرمی سے یہ بات کہہ دینے سے بھی بہتری آتی ہے۔
بات مختصر کرنے کی کوشش میں بھی طویل ہو گئی۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھیے۔ بچوں کے ساتھ تعلق، تعلق، تعلق کی خاطر خود پر کام کرتے رہیے۔ آج کے دور میں بچوں سے تعلق بنانے کے لئے مل کر کوئی گیم کھیل لیں، یا مووی یا سیزن ساتھ دیکھ لیں۔ انہیں میمز بھیج دیں۔ مل کر کوکنگ کر لیں۔اور خدارا، کسی بھی حال میں لڑائی لٹکائیں نہیں۔ انا کو ہار جانے دیں، بچہ جیت لیں۔ خود ان کے پاس چلے جائیں۔ پیچھے سے ہگ کر لیں۔ چہرہ ہاتھ میں لئے ماتھا چوم لیں۔ ہتھیلی پر پیار کر دیں۔ ماں کے محبت بھرے لمس میں جادو ہے۔ بچوں کو (اور خود کو بھی!) اس سے محروم نہ کریں۔
اور دعا۔ بہت دعا کرتے رہیں۔ ماتھا چومتے بآواز بلند دعا بھی کریں تا کہ بچے کے دل و دماغ میں بھی کہیں نہ کہیں وہ دعا راسخ ہوتی رہے کہ والدین ہم سے کیا چاہتے ہیں، اور کیوں چاہتے ہیں۔
اس پوری چیز کو unlearn، اور relearn کرنے، پریکٹس میں لانے میں مجھے کم و بیش سال ڈیڑھ لگ گیا۔ لیکن اب الحمد للہ بہت دن بعد ہمارے بیچ کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے۔ اتنا تو پھر چلتا ہے نا۔ وہ بھی روبوٹ نہیں، اور ہم بھی عام انسان ہیں۔
بے حدخوبصورت انداز تحریر