استاد محترم ابو الحسن نعیم صاحب کی کتاب ارض مقدس اپنے موضوع پر شاہکار تصنیف ہے، بھلا ایسا کیوں نہ ہو. یہ کتاب ایسےصاحب علم کے قلم سے نکلی ہے جن کے قلم سے نکلے الفاظ ایسے ہیں گویا حرف حرف میں موتی پرو دیے ہیں. ارض مقدس اپنے نام کی طرح ان موضوعات کو سمیٹے اور احاطہ کیے ہوئے ہے، جن کو دیکھنے کے لیے ہر مسلمان بےقرار ہے، اور ہر صاحب علم اس کے بارے میں جانناسمجھنا اور اپنی تشنگی بجھانا چاہتا ہے۔
کتاب هذا میں ابتدائیہ کے بعد سب سے پہلے ظاہری اور معنوی برکات پر جس انداز سے قلم اٹھایا گیا ہے، قاری کو پڑھنے پر مجبور اور اپنے الفاظ کے سحر میں جکڑ دیتا ہے۔ استاد محترم یقینا صاحب قلم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تاریخ دان بھی ہیں، اور انھوں نے تاریخ کے دریچوں سے ان نایاب موتیوں کو جمع کیا کہ سننے والے پر ایسا سحر طاری ہوتا ہے کہ مبہوت رہ جاتا ہے۔ قبہ الصخرة کا مقام ومرتبہ، بیت المقدس کی تعمیر، فتح بیت المقدس کے تاریخی زوایہ نظر پر ایسا قلم اٹھایا ہے کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ ابن اثیر اور ابن خلدون کے صفحات میں محو مطالعہ ہے.
فقہی لحاظ سے مفتوحہ زمین کے احکام پر سیر حاصل گفتگو کی، امام ماوردی کے حوالہ جات کے ساتھ گفتگو کو ایسا مبرھن کیا ہے کہ ہر پہلو روشن ہوگیا. ہماری ذمہ داری کے عنوان سے امت مسلمہ کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا. امت مسلمہ کو کیا کرنا چاہیے، خواب خرگوش سے جگانے کے لیے کتنوں نے اپنا حق ادا کیا. مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی نے اقصی کو ظالم صہیونی شکنجے اوربے رحم دھتکارے ہوئے یہودیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا .
آخر میں امت کو ایک ایسا فکری اور روحانی شعور دیا ہے، کہ تلک الايام نداولھا کی حقیقت واضح مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ مظلومی اور اسیری کے یہ دن، ظلم وجبر واستبداد کے یہ ایام یقینا گزر جائیں گے۔ فتح کا نیا سورج طلوع ہوگا۔ ظلم کے اندھیرے چھٹ جائیں گے اور امت مسلمہ اپنے زخموں پر مرہم رکھے گی۔ پھر ان شاء اللہ نظام عالم قرآن کے نظام کا تابع ہوگا، منہاج النبوۃ پر خلافت کا سورج طلوع ہوگا، اور دنیا ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا نور دیکھے گی.
تبصرہ لکھیے