اللہ تعالیٰ کی ذات بے انتہاء عظمت اور بے شمار صفات سے متصف ہے۔ وہی خالق و مالک ہے جس نے تمام کائنات کو تخلیق کیا، جس کا علم ہر ذرہ، ہر جاندار، ہر نباتات، اور ہر کائناتی پھیلاؤ میں پوشیدہ ہے۔ اللہ کی بصیرت ایسی ہے جو ہر زمان و مکان سے بالاتر ہے، اور اس کی قدرت کی گرفت اتنی مکمل ہے کہ کوئی بھی ذرہ یا عمل اس سے باہر نہیں جا سکتا۔ اس کا علم صرف ظاہر تک محدود نہیں بلکہ اس کے علم میں ہر انسان کا چھپا ہوا ارادہ، نیت اور دل کے خیالات تک شامل ہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں ہماری محدودیت کا احساس دلاتی ہے اور اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق ایک نئی نوعیت اختیار کرتا ہے۔ ہم جیسے ہی یہ سمجھنا شروع کرتے ہیں کہ ہمارا ہر عمل اور ہر ارادہ اللہ کے علم میں ہے، تو ہماری زندگی کا مقصد اور اس کی راہ متعین ہو جاتی ہے۔
انسان کی زندگی کا اصل مقصد
انسان کی حقیقی کامیابی اللہ کی رضا کے حصول میں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ(الذاریات، 51:56)
میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد واضح کر دیا ہے، جو کہ اس کی عبادت ہے۔ عبادت کا مفہوم صرف عبادات جیسے نماز، روزہ، اور زکوٰۃ تک محدود نہیں، بلکہ ہر وہ عمل جو انسان اللہ کے احکام کے مطابق کرتا ہے، وہ عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ چاہے وہ دنیاوی کام ہوں جیسے کاروبار، تعلیم، یا گھریلو ذمہ داریاں، اگر وہ اللہ کے رضا کی نیت سے کیے جائیں تو وہ بھی عبادت کے برابر ہیں۔ زندگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے، اگر انسان ہر عمل میں اللہ کی رضا کی کوشش کرے، تو اس کا ہر قدم ایک راستہ بنتا ہے جو اُسے اللہ کے قریب کرتا ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث بنتا ہے۔
اخلاص اور نیت کی اہمیت
انسانی اعمال کی قبولیت کا راز اس کی نیتوں میں چھپاہوا ہے۔ حدیثِ نبویؐ ہے: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (صحیح بخاری: 1) یعنی، انسان کے اعمال کا انعام اس کی نیت پر منحصر ہے۔ اگر کوئی شخص دنیاوی فلاح یا شہرت کے لیے عمل کرتا ہے تو وہ عمل حقیقی کامیابی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ بلکہ جب انسان اللہ کے لیے کام کرتا ہے، تو اس کا ہر عمل ثواب اور روحانیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر ایک طالب علم علم حاصل کرتا ہے تاکہ اللہ کی رضا کے لیے اپنی زندگی گزارے اور معاشرتی خدمت کرے، تو یہ عمل اس کے لیے نیکی بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک تاجر اپنے کاروبار کو حلال طریقے سے کرتا ہے اور ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے، تو اس کا ہر عمل اس کے لیے آخرت میں کامیابی کا سبب بنتا ہے۔
فلاحِ اخروی
دنیا کی عارضی کامیابیاں، جیسے دولت، شہرت، یا طاقت، انسان کو وقتی خوشی دے سکتی ہیں، لیکن یہ فانی ہیں۔ حقیقی کامیابی وہ ہے جو انسان کو آخرت میں جنت کی بشارت دیتی ہے۔ اللہ کی رضا کی تکمیل کے بغیر دنیا میں حاصل کی جانے والی کامیابیاں آخرکار انسان کو بے اطمینانی کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے: وَمَا عِندَ اللَّہِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ (القصص، 28:60) اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ بہتر اور دائمی ہے۔ اس لیے، انسان کا اصل مقصد دنیاوی مال و دولت نہیں بلکہ اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے تاکہ وہ آخرت میں کامیاب ہو اور جنت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو سکے۔
آزمائش میں کامیابی
اللہ کی رضا کے راستے پر چلنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ اس راہ میں انسان کو بہت سے امتحانات، چیلنجز، اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کی رنگینیاں، نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر بھی جو شخص اپنے ایمان کو مضبوط رکھتا ہے اور اللہ کی ہدایت پر ثابت قدم رہتا ہے، وہ ان آزمائشوں کو اپنے حق میں مثبت تبدیل کر لیتا ہے۔ اللہ کے راستے پر چلنا صبر، عزم اور استقامت کا تقاضا کرتا ہے، اور اسی طرح انسان اپنے اندر نیکی کی صفات کو مضبوط کرتا ہے۔ جب انسان اللہ کی رضا کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو وہ دراصل اپنے روحانی درجات کو بلند کرتا ہے، اور یہی انسان کی فلاح کا راز ہے۔
رضائے الٰہی ہی کامیابی کی کنجی
انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی نگرانی میں ہے، اور اس کی رضا کے بغیر کوئی بھی عمل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں، تو ہمارا ہر عمل اس کے قریب لے جائے گا، اور ہماری زندگی میں سکون اور اطمینان آ جائے گا۔ جو لوگ اپنے دلوں میں اللہ کی محبت اور اس کی رضا کو جگہ دیتے ہیں، وہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک روشن مثال بنتی ہے، اور ان کی نیکیاں اور اعمال آنے والی نسلوں تک پہنچتے ہیں۔ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدہ، 5:50) ترجمہ: "کیا یہ لوگ اللہ کے حکم سے منہ موڑ کر جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔"
یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اللہ کے قوانین کے بجائے اگر انسان کسی غیر دینی یا جاہلی نظام کو ترجیح دیتا ہے، تو وہ اپنی حقیقت اور مقصد سے منحرف ہو رہا ہے۔ اللہ کے احکام تمام تر انسانی عقل اور فطرت کے مطابق سب سے بہترین ہیں اور جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، وہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے فیصلے دنیا و آخرت کے لیے سب سے بہتر ہیں۔ یہ آیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اللہ کی رضا کے مطابق چلنا، اس کے احکام کو اپنانا اور اس کے راستے پر ثابت قدم رہنا ہی انسان کی کامیابی کی کنجی ہے۔
اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا نصب العین بنانا ہی انسانیت کی معراج ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو—خواہ وہ ذاتی ہو یا معاشرتی—کو اللہ کے احکام کے تابع کریں۔ اس میں ہی ہماری دنیاوی آسودگی اور اخروی نجات پوشیدہ ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضا کے راستے پر چلتے ہیں، وہ ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں، اور ان کے اعمال ہمیشہ روشن رہتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے