پاکستان میں سیاسی ماحول اور نوجوانوں کی اخلاقی حالت میں ایک گہرا تضاد نظر آ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے افراد جو سچ بولنے والے، ایماندار اور اصولی ہیں، انہیں بسا اوقات منافق قرار دیا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف جھوٹ بولنے والے اور حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے افراد بڑی سیاسی جماعتوں میں اہمیت رکھتے ہیں اور انہیں عوامی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان کے نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی حمایت کرنے لگے ہیں جو حقیقت سے دور، جھوٹ اور فریب کے پلندے پیش کرتے ہیں؟
1. سیاسی شعبے کی حقیقت:
پاکستان میں سیاست کا میدان کئی دہائیوں سے مختلف سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کی سیاسی چالبازیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جو سیاسی جماعتیں بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں اور عوام کو خوشحال مستقبل کا خواب دکھاتی ہیں، ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ سیاسی رہنما جب عوامی سطح پر بات کرتے ہیں، تو اکثر ان کی باتوں میں تضاد، جھوٹ اور فریب ہوتا ہے۔ پھر بھی عوام، خاص طور پر نوجوان، ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ سیاسی شعور کی کمی اور بسا اوقات جذباتیت اور ہجوم کے اثرات کی وجہ سے نوجوانوں کی رائے متزلزل ہو جاتی ہے۔
2. سچ بولنے والوں کا استحصال:
دوسری جانب وہ افراد جو سچ بولتے ہیں، جو قوم کی بہتری کے لئے آواز اٹھاتے ہیں، انہیں زیادہ تر یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے یا پھر ان پر منافق ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سچ ہمیشہ تلخ ہوتا ہے اور اکثر لوگ حقیقت کا سامنا کرنا نہیں چاہتے۔ سچ بولنے والے افراد جب معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، تو عوام کی اکثریت انہیں شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتی ہے کیونکہ سچ کی حقیقت انہیں اپنے موجودہ مفادات کے خلاف نظر آتی ہے۔
3. نوجوانوں کی اخلاقی حالت:
نوجوانوں کی اخلاقی حالت اور ان کا سیاسی شعور دونوں بہت اہم ہیں۔ پاکستان میں جہاں معاشرتی اور اقتصادی چیلنجز ہیں، وہیں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی سیاسی شخصیات کو اپنا رہنما مانتی ہے جو دراصل جھوٹ بولنے اور عوامی رائے کو غلط طریقے سے متاثر کرنے میں ماہر ہیں۔ نوجوانوں کا یہ رویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اور میڈیا انہیں صحیح سیاسی شعور دینے میں ناکام رہے ہیں۔ جب ایک نوجوان جھوٹ اور سچ کی تمیز نہیں کر پاتا، تو وہ فریب اور حقیقت کے درمیان فرق نہیں کر پاتا اور آسانی سے غلط راہوں پر چل پڑتا ہے۔
4. میڈیا کا کردار:
پاکستان کے میڈیا نے بھی اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بعض اوقات میڈیا ادارے اور چینلز ایسے سیاسی رہنماؤں کو پروجیکٹ کرتے ہیں جو حقیقت سے زیادہ عوامی سطح پر اپیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ میڈیا کی سیاست ہے جس کے ذریعے کچھ مخصوص رہنماؤں کو طاقتور بنایا جاتا ہے، حالانکہ ان کے پیچھے کوئی مستند سیاسی یا اخلاقی بنیاد نہیں ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان میڈیا کے اثر سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور وہ اس جھوٹے نظام کا حصہ بن جاتے ہیں جس کی بنیاد فریب اور سیاست کی چالبازی پر ہوتی ہے۔
5. حل کی تجاویز:
پاکستان کے نوجوانوں کو اس صورتحال سے نکالنے کے لئے چند اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے:
تعلیمی اداروں میں سیاسی اور اخلاقی تعلیم کی فراہمی: نوجوانوں کو سچ بولنے کی اہمیت، سیاسی شعور اور اخلاقی اقدار کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے تاکہ وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکیں۔
میڈیا کی ذمہ داری: میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قوم کو سچائی دکھانے کا عزم کرنا ہوگا۔ جھوٹے دعووں اور پروپیگنڈے کے بجائے، میڈیا کو حقیقت پر مبنی معلومات فراہم کرنی چاہیے۔
سیاسی بصیرت کی ضرورت: نوجوانوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی سیاسی رہنما کو صرف اس کی باتوں سے نہیں پرکھنا چاہیے بلکہ اس کی پالیسیوں، کاموں اور عزم کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے