ہمارے قائداعظم کی شخصیت اتنی بلند ہے کہ اُس کے ایک پہلو پر لکھنا خاصا مشکل ہے۔ اُن کی دیانت‘ امانت‘ صداقت‘ غرض ہر بات اپنی جگہ مسلم ہے۔ مثلاً مسلم لیگ کے ریکارڈ میں سے ایسی چٹیں بھی ملی ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے حسابات درج ہیں۔ اگر کسی جلسے میں چائے پلائی گئی تو اُس کا حساب بھی لکھا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ قائداعظم کی راہنمائی میں مسلم لیگ کے کارکنان اور راہنمائوں میں دیانت اور امانت کا کیسا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ قائداعظم کی سب سے بڑی صفت اُن کی حقیقت پسندی ہے۔ وہ قوم کی صحیح قوت کو سمجھتے تھے۔ وہ ایسے جرنیل نہیں تھے جو فوج کی صحیح حالت اور قوت سمجھے بغیر اُسے لڑوا اورمروا دیں۔ لیڈر کاسب سے بڑا کمال یہ ہے کہ کم قوت سے بڑا مقصد حاصل کرلے۔ قائداعظم کا کمال یہی تھا کہ ہر موقع پر اتنی ہی قوت استعمال کرتے جتنی ضرورت ہوتی۔ انھیں جذبات پر بڑا قابو تھا۔ اُن کی بے لاگ منطق ہی سے گاندھی جی کے بھرم میں فرق آیا۔ ذیل میںقائداعظم کی شخصیت کے مختلف پہلو وا کرنے والی تحریریں پیش خدمت ہیں
صحافت کی آزادی
یہ واقعہ یاد کر کے میرا سر اظہار تشکر میں جھکتا اور احساس فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں ایک طویل گفتگو کے موقع پر انھوں نے میرے اخبار کے افتتاحیہ مقالوں میں آزادی رائے کی ضرورت پر زور دیا۔ میں نے ایک مضمون لکھا جسے چھپے لفظوں میں قائداعظم پر اعتراض سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس کا مطالعہ فرما چکے تھے۔ اُسی روز شام کو اُن سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے صرف اتنا کہا: ’’میںتمہارا مضمون پڑھ چکا۔‘‘
کچھ دیر بعد اُن کی زبان مبارک سے وہ الفاظ نکلے جنھیں میں تمام صحافیوں کے لیے آزادی کا منشور سمجھتا ہوں۔ انھوں نے فرمایا:
’’کسی موضوع پر غور کرکے اپنے دل میں فیصلہ کرو۔ اگر تم اس نتیجہ پر پہنچ چکے کہ ایک خاص نظریہ یا اعتراض پیش کرنا ضروری ہے تو بالکل وہی لکھ ڈالو جو حقیقتاً تم نے محسوس کیا۔ کبھی پس و پیش نہ کرو‘ اس خیال سے کہ کوئی ناراض ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ اپنے قائداعظم کی ناراضی کی بھی پروا نہ کرو۔‘‘
اس سے زیادہ قدر و منزلت ہمارے پیشے کی اور کیا ہو سکتی ہے؟ حقیقتاً ایک عظیم المرتبت ہستی ہی یہ الفاظ ادا کر سکتی ہے۔ (الطاف حسین‘ مدیر ڈان)
پہلے کام پھر طعام
محمد علی جناح دوسروں سے کام لینے میں سخت گیر واقع ہوئے تھے۔ لیکن وہ اپنے آپ کو بھی اُتنا ہی رگیدتے جتنا کہ دوسروں کو! اگر کچھ کرنا ہے تو اُسے جلد کرنا چاہیے، اُن کے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہ تھا۔ کھانا‘ آرام اور نیند‘ ان سب کواپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا۔ کام کو آگے بڑھانے کا جذبہ اور جوش ہی انھیں ٹھیک وقت پر کھانا کھانے یا آرام کرنے سے روکتا تھا۔ اِسی امر نے بعد کے برسوںمیں اُن کی جسمانی قوت کو اتنی جلد مضمحل کر دیا کہ وہ اُسے بحال نہ کر سکے۔
اپنے کمزور جسم پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالنے سے بالخصوص اپنی زندگی کے چندآخری برسوں میں وہ دق کا شکار ہو گئے جس نے انھیں قبر تک پہنچا دیا۔ مجھے یاد ہے‘ اُن کے ملازم آ کر انھیں دوپہریا رات کے کھانے کاکہتے۔ تب وہ کسی مسئلے پر بحث کر یا کوئی مسودہ یا خط لکھوارہے ہوتے۔ وہ اُن کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔
بعض اوقات ان کی بہن فاطمہ جناح اپنے بھائی کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتیں اور آ کر کہتیں کہ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ لیکن وہ بہت اخلاق سے جواب دیتے ’’بس چند منٹ اور‘‘ یا ’’جائو شروع کرو‘ ــــمیں ذرا دیر میں تمہارے ساتھ شریک ہو جائوں گا۔‘‘ انھیں پہلے اپنا کام کرنا ہوتا تھا اور بعد میں کھانے یا کسی اور چیز کا خیال کرتے۔(ایچ اے اصفہانی)
بمبئی کلاتھ ہائوس میں دعوت
قصہ یوں ہے کہ دہلی میں دوران ملاقات سیٹھ حاجی محمد صدیق‘ مالک بمبئے کلاتھ ہائوس نے قائداعظم سے عرض کی کہ اب کے آپ لاہور تشریف لائیں تو ہماری دکان کو بھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے زینت بخشیں۔ قائداعظم جو مسلمانوں کی بہتری و بہبودی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے‘ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ لاہور میں مسلمانوں اور وہ بھی میمن برادری کی ایک شایان شان دکان ہے۔ فرمانے لگے ،اب کے لاہور آیا تو تمھاری دکان بھی ضرور دیکھوں گا۔
چناںچہ اپریل ۱۹۴۴ء میں جب وہ لاہور تشریف لائے تو ایک دن بارہ بج کر دس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا۔ دکان کے منیجر مسٹر محمد عمر نے دس کروڑ مسلمانوں کے اس عظیم الشان قائد کے استقبال کے لیے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا ،کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ دکان زربفت کپڑوں سے دلہن کی طرح سجائی گئی۔ شاندار چائے پارٹی کا انتظام کر کے دیگر مسلمان تاجروں کو بھی بلا لیا گیا۔ معائنے کے دوران انھوں نے چائنہ کارڈ اورپیور ریشم کے کپڑے بھی پسند فرمائے جو ہم نے انھیں تحفتاً پیش کیے۔
لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر ان کپڑوں کابل پیش کر دیا جائے تو وہ لے لیں گے کیونکہ کپڑے انھیں پسند ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ انھیں بطور تحفہ قبول کر لیں‘ مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ آخر بل پیش کر دینے کے پختہ وعدے پر انھوں نے کپڑے رکھ لیے۔ ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ایک اچکن ہم سے سلوائی جائے۔ وہ اس شرط پر رضامند ہوئے کہ درزی اچھا ہو اور ناپ ڈیوس روڈ پر ممدوٹ ولا میں لیا جائے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ دکان پر ناپ نہیں دینا چاہتے تھے۔
دوسرے دن ماسٹر فیروز کو لے کر میں قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناپ سے فارغ ہو کر ہم واپس آنے لگے توفرمایا کہ اچکن کے لیے حیدر آبادی بٹنوں کے سیٹ لے آنا۔ فرمائش کے مطابق دوسرے دن صبح دس بجے ہم ممدوٹ ولا پہنچے۔ بٹنوں کے سیٹ جو ہم ساتھ لائے تھے‘ اُن کو ایک نظر دیکھا اور چار سیٹ پسند کرکے الگ رکھ لیے۔ باقی واپس کر دیے۔ کہنے لگے، بل لائو۔ بل کے لیے وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اصرار کر چکے تھے۔
چونکہ ہم بل نہیں دینا چاہتے تھے‘ اس لیے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے‘ مگر شاید وہ ہمارا ارادہ سمجھ گئے۔ آج بل کے لیے قدرے سخت اور درشت لہجے میں مطالبہ کیا‘ کہنے لگے ’’میںاُدھار لینے کا عادی نہیں۔ بل لائو۔ ورنہ کپڑے واپس کر دیے جائیں گے۔‘‘
میں نے منیجر سے کہا کہ یہاں ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔ بل دینا ہی پڑے گا۔ ورنہ وہ سارے کپڑے لوٹا دیں گے۔ منیجر نے خاصا رعایتی بل بنا کر دیا جو آدھے سے بھی کم قیمت پر مشتمل تھا۔ میں نے جا کر خدمت میں پیش کر دیا جسے دیکھ کر مسکرائے‘ کہنے لگے: ’’یہ بل مناسب نہیں ‘ تم نے قیمتیں جان بوجھ کر کم لگائی ہیں۔‘‘ میں نے کہا‘ منیجر نے آپ کو خاص رعایت دی ہو گی۔ کہنے لگے : ’’رعایت کی اور بات ہے۔ یہ رعایت سے مختلف صورت ہے۔ تم بل درست کر کے لائو۔‘‘ یہ کہہ کر بل واپس کر دیا۔ اس کے بعد میں نے بٹن والے کا بل پیش کیا‘ جو دس روپے کی مالیت پر مشتمل تھا۔
بل دیکھ کر فرمایا: ’’بھئی واہ۔ ایک سیٹ میں تو تین تین بٹن کم ہیں‘ لیکن بل تم نے پورے کا بنا دیا۔‘‘ یہ کہنا درست تھا۔ ایک سیٹ میں بٹن کم تھے۔ لیکن بل میں نے اس خیال سے دیکھا نہ تھا۔ دکاندار نے بھی اس کی پروا نہ کی تھی۔ بہرحال بل کو درستی کے لیے واپس لانا پڑا۔
لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ آخر کیا بات ہے کہ ایک طرف تو سیکڑوں روپے کی رعایت کو بھی یہ شخص قبول نہیں کرتا۔ دوسری جانب تین بٹنوں کے آٹھ آنے بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں؟(ولی بھائی)
سیاست میں اخلاق
۱۹۴۶ء کا اوائل تھا۔ بنگال قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے۔ میں مسلم چیمبر آف کامرس کلکتہ کی طرف سے امیدوار تھا۔ نامزدگی کی تاریخ سے صرف دو روز پہلے چیمبر کے ایک رکن نے اپنی نامزدگی کے کاغذات داخل کرا دیے۔ چیمبر کے پرانے ارکان اور راہنما سب سٹپٹا گئے۔ انھوں نے اُسے سمجھایا بجھایا اور دبائو بھی ڈالا۔ مگر اُس نے کاغذات واپس لینے سے انکار کر دیا۔
اُن دنوں قائداعظم کلکتہ میں میرے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک شام ہم گاڑی میں سیر کر کے واپس آئے تو عبدالرحمن صدیقی جو ایک آزمودہ سیاست دان اورمیرے دیرینہ دوست تھے‘ دوڑے دوڑے آئے اور بتایا کہ وہ مخالف سے ملے تھے۔ لمبی چوڑی گفتگو کے بعد وہ شخص کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ شرط یہ رکھی کہ جو دو صد پچاس روپے فیس کے جمع کرائے ہیں‘ اُسے دے دیے جائیں۔
قائداعظم اپنے کسی خیال میں مستغرق تھے۔ انھوں نے بات نہ سنی۔ صدیقی سے فرمایا کہ وہ اپنے الفاظ دہرائیں۔ صدیقی صاحب نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح قائداعظم کے ملامت بھرے الفاظ ہمارے دل و دماغ میں پیوست ہو گئے:
’’روپیہ ادا کر دو گے؟ ایک امیدوار کو بٹھانے کے لیے‘بالواسطہ رشوت؟ نہیں‘ کبھی نہیں۔اُسے جا کر یہ کہہ دو کہ تمہاری پیش کش مسترد کر دی گئی ہے۔ حسن تمہارا مقابلہ کرے گا۔‘‘
عبدالرحمن صدیقی لمحہ بھر کے لیے بھونچکا رہ گئے۔ پھر سنبھلے اور عرض کیا: ’’میں آپ کا پیغام پہنچا دوں گا۔‘‘ اور چلے گئے۔ ہم عقبی برآمدے میں چلے آئے اور آرام کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
قائداعظم مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’میرے بچے! اُسے یہی جواب ملنا چاہیے تھا۔ سیاست میں اخلاق کی پابندی نجی زندگی میں اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اگر تم نے عوامی زندگی میں کسی غلط کام کا ارتکاب کیا‘ تو اُن لوگوں کو نقصان پہنچائو گے جو تم پر اعتماد کرتے ہیں۔‘‘
(ایچ اے اصفہانی)
سفارشی رقعہ
قائداعظم سے ملنے کے لیے رائے پور کا ایک اسٹیشن ماسٹر دہلی آیا۔ وہ اُن کے سیکرٹری سے ملا اور بتایا ’’میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
سیکرٹری نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا: ’’قائداعظم ان دنوں بہت مصروف ہیں۔ اگر وہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے وقت دیتے رہے تو پھر تحریک پاکستان جیسا عظیم کام کس طرح انجام دے سکیں گے۔‘‘
سیکرٹری نے اُسے واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا، لیکن اسٹیشن ماسٹرمجھ سے ملا اور بتایا ’’میں بڑی دور سے آیا ہوں۔ قائداعظم تک پہنچنے کے سلسلے میں تم ہی کچھ میری مدد کرو۔‘‘
میں نے اُسی دن قائداعظم سے تذکرہ کیا اور انھیں بتایا ’’اسٹیشن ماسٹر کو محض اس لیے ترقی نہیں دی جا رہی کہ وہ مسلمان ہے۔ حالانکہ وہ امتحان بھی پاس کر چکا اور اصولی طور پر اُسے بی گریڈ ملنا چاہیے۔‘‘
قائداعظم اُسی وقت اُس شخص سے ملے۔ ریلوے کے ایک اعلیٰ انگریزی عہدیدار کو رقعہ لکھ کر اس دھاندلی کی طرف توجہ دلائی۔ فوری کارروائی ہوئی اور پندرہ منٹ کے اندر اندر اُسے بی گریڈ دیے جانے کے احکامات جاری ہو گئے۔
اسٹیشن ماسٹر خوشی خوشی کاندھے پر پھلوں کا ٹوکرا لادے قائداعظم کا شکریہ ادا کرنے واپس آیا۔ میں نے جب قائداعظم کواطلاع دی تو انھوں نے محض اس لیے ملنے سے انکار کر دیا ’’میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص مجھ سے کہے‘ میں آپ کا ممنون ہوں یا آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔‘‘ البتہ قائداعظم نے اُسے یہ پیغام ضرور بھجوایا: ’’خوب محنت سے کام کرو۔‘‘
(محمد حنیف آزاد)
گورنر جنرل کے منصب کا خیال
یہ اُس زمانے کا ذکر ہے جب قائداعظم علیل تھے اور کوئٹہ میں زیرعلاج۔ جب ہم نے محسوس کیا کہ کوئٹہ میں اُن کا قیام خطرے سے خالی نہیں‘ تو میں نے اصرار کیاکہ وہ کراچی تشریف لے چلیں۔ لیکن ہر بار انھوں نے تجویز رد کر دی۔ رات کو میں نے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی۔ میرے اصرار پر انھوں نے بتایا کہ قائداعظم بیماری کی حالت میں گورنر جنرل ہائوس واپس نہیں جانا چاہتے۔ پھر انھوں نے ملیر کے بارے میں میری رائے پوچھی۔ میں نے عرض کیا‘ وہ بھی اچھی جگہ ہے۔ لیکن وہاں قیام کا مسئلہ ہو گا۔
ملیر میں نواب بہاولپور کی کوٹھی تھی جس میں قائداعظم کے قیام کا اہتمام ہو سکتا تھا۔ وہاں اُن دنوں ولی عہد صاحب فروکش تھے۔ تاہم اُن سے کوٹھی خالی کرانا چنداں مشکل نہ تھا۔ طے یہ پایا کہ پہلے قائداعظم کو رضامند کر لیا جائے۔ کیونکہ وہ ۳۰ ستمبر کو لندن سے کراچی آ رہے ہیں۔
۲۸/اگست کی صبح میں نے قائداعظم کی خدمت میں تمام صورت حال رکھی اور امیربہاولپور کو تار ارسال کرنے کی اجازت چاہی۔ میری بات سن کر انھوں نے آنکھیں بند کر لیں اور قدرے توقف کے بعد فرمایا:
’’آپ نے سنا ہو گا‘ پہلے زمانے میں جب کوئی وکیل ہائی کورٹ کا جج بن جاتا تو کلبوں اور نجی محفلوں میں جانا ترک کر دیتا تھا مبادا اُس کی غیرجانب داری پر اثر پڑے۔ چناںچہ میںسمجھتا ہوں کہ مجھے گورنر جنرل کے اعلیٰ منصب کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ہم ضرورت مندہیںلیکن میں اپنی ذات کی خاطر اس عظیم منصب کی عظمت خاک میں نہیں ملا سکتا۔ اس لیے تار دینے کی اجازت دینے سے معذور ہوں۔‘‘
(کرنل الٰہی بخش)
پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں
دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کاجلسہ ہو رہا تھا۔ ایک خوشامدی نے نعرہ لگایا:’’شاہ پاکستان زندہ باد!‘‘
قائداعظم بجائے خوش ہونے کے فوراً بولے:
’’دیکھیں‘ آپ لوگوں کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں ہو گا، وہ مسلمانوں کی جمہوریہ ہو گی جہاں سب مسلمان برابر ہوں گے۔کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں ہو گی۔‘‘
(نواب محمد یامین خان)
اعتماد کاووٹ
مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب مسلمانوں نے چاہا کہ مسلم لیگ کے صدر کا سالانہ انتخاب ختم کر کے قائداعظم ہی کو مستقل صدر بنانے کی قرارداد منظور کرائی جائے۔ مگر انھوں نے جواب دیا:
’’نہیں۔ سالانہ انتخابات نہایت ضروری ہیں۔ مجھے ہر سال آپ کے سامنے آ کر آپ کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے۔‘‘(بیگم لیاقت علی خان)
میں نے بہت کچھ سیکھا
قائداعظم کے ساتھ بارہ برس کی رفاقت میں‘ میں نے چند نہایت اہم باتیں سیکھی ہیں۔ اوّل یہ کہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نہ کہو جس پر پوری طرح عمل کرنے سے قاصر رہو۔ دوسرے اپنے ذاتی تعلقات و رجحانات کوقومی مفاد میں خلل اندازنہ ہونے دو۔ اور اس معاملے میں دوسروں کے کہنے کی قطعاً پروا نہ کرو۔ تیسرے اگر تم سمجھتے ہو کہ کسی بات میں تم راستی پر ہو تو دشمن کے آگے خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو‘ ہرگز نہ جھکو۔ ( لیاقت علی خان)
ہتک
ہم طلبہ سے دوران گفتگو انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قوم کی زندگی اور ترقی کے لیے ضروری ہے‘ ہم میں سے ہر ایک بلالحاظ مرتبہ و حیثیت خود کو قوم کے مفاد کا نگہبان و محافظ سمجھے۔ اگر کسی کو ایسی حرکت کا مرتکب پائے جس سے قوم یا ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اپنا آرام و سہولت نظرانداز کر کے مرتکب کی گردن پکڑ لے۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنا ایک واقعہ بھی بیان کیا۔
فرمایا:’’مدتوں پہلے کی بات ہے میں ایک دفعہ سفر کر رہا تھا۔ اُن دنوں بہت کم لوگ مجھے جانتے تھے۔ میں نے درجہ اوّل کا ٹکٹ خریدا۔مگر وہ سہواً ملازم کے پاس رہ گیا۔ جب میں منزل مقصود پر گاڑی سے اترا‘ تو مجھے ٹکٹ نوکرکے پاس چھوڑ آنے کا احساس ہوا۔ میں ٹکٹ کلکٹر کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں ٹکٹ بھول آیا ہوں۔ تم مجھ سے کرایہ وصول کر لو۔ میں خریدے ہوئے ٹکٹ کے داموں کی واپسی کا مطالبہ کر لوں گا۔‘‘
ٹکٹ کلکٹر نے کہا: ’’تم مجھے دو روپے دو اور چلے جائو۔‘‘
اُس کا یہ کہنا تھا کہ میں وہیں ڈٹ کر کھڑا ہوگیا اور کہا: ’’تم نے میری ہتک کی ہے۔ اپنانام اور پتا بتلائو۔‘‘ لوگ جمع ہو گئے اُن میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کئی ایک نے مجھ پر فقرے بھی چست کیے مگر میں وہاں سے نہ ٹلا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسافروں کو لوٹنے والا بابو برخاست ہو گیا۔‘‘(عزیز احمد)
کم کھائو‘ آرام پائو
مسٹر محمود حسن ایک دن محمد علی جناح کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ جناح نے حسب معمول بہت تھوڑا سا کھانا کھایا۔ اُس کے بعد چھڑی اُٹھا کر اسے اپنے ناخنوں سے بچانے لگے۔ (اس عادت سے اُن کے اکثر دوست واقف ہوں گے۔) مسٹر محمود جو اب تک کھانے میں مصروف تھے‘ کچھ خفت سی محسوس کرنے لگے اور بولے: ’’آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں۔‘‘
جناح نے جواب دیا:’’دنیا والے اسی لیے تکلیفوں میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ کھاتے بہت ہیں۔‘‘
(مطلوب الحسن سید)
گورنر جنرل بھی‘ انسان بھی
ایک ہی شخص کی دو شخصیتوں کا احساس جس قدر مجھے اُن سے ۱۹۴۸ء کی آخری ملاقات کے دوران ہوا‘ اُس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس موقع پر انھوں نے مجھے ایک سرکاری کام کے لیے بلایا تھا۔ جب تک سرکاری کاغذات اُن کے سامنے رہے‘ انھوں نے مجھ سے محض اُسی معاملے پر گفتگو کی۔ میری تجویز پر کڑی نکتہ چینی کی۔
ایک سوال کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد تیسرا‘ غرض سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ آخر جب پوری طور پر مطمئن ہو گئے اور کاغذات پر دستخط فرما دیے تو اُن کے چہرے پر فی الفور تبسم نمودار ہوا۔ انھوں نے ملاقات میں پہلی بار میرا مزاج پوچھا۔ پھر ہنس ہنس کر باتیں کیں اور رخصت کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے ایک ہی ملاقات میں قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کو بھی دیکھا اور اُن سے بہت ہی مختلف ایک اور انسان یعنی مسٹر محمد علی جناح کو بھی۔(ممتاز حسن)
٭٭
لوگوں کا بابا
مجھے یاد ہے‘ ۱۹۴۸ء میں جب مجھے اپنے گائوں جانے کا اتفاق ہوا‘ تو مرد عورتیں اور بچے آ آ کر مجھ سے اُن کی صحت کے متعلق استفسار کرنے لگے۔ ’’بابے نو کی تکلیف اے۔‘‘ ’’بابے دا ہن کی حال اے۔‘‘ ’’بابے دا کی حکم اے۔‘‘ ان لوگوں کو قائداعظم کا پورا نام بھی معلوم نہ تھا‘ مگر وہ جانتے تھے کہ اُن کا ملجا دمادا ایک ایسا شخص دنیا میں موجود ہے جس کی زندگی اُن کے لیے وقف ہے۔وہ اپنے ’’بابے‘‘ کی صحت کے لیے دست بدعا تھے۔ وہ اُن کا تھا اور وہ اُس کے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ قائداعظم دولت مندوں کے حلیف تھے۔ مگر جن لوگوں نے انھیں عام مسلمانوں کے مجمعوں میں دیکھا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ غریب مسلمانوں کے لیے اُن کے دل میں کیا جذبہ موجود تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسی بے پناہ عقیدت جو غریب مسلمانوں کو اُن کی ذات سے تھی‘ یک طرفہ ہو ہی نہیں سکتی۔(ممتاز حسن)
٭٭
سکنہ منٹگمری
جب قائداعظم کا دہلی میں طویل قیام ہوتا اور وہ ہجوم کار سے گھبرا جاتے تو باغپت (ضلع میرٹھ) تشریف لے جاتے اور غالباً وہاں ڈاک بنگلے میں رہتے۔ یہ ڈاک بنگلہ دریا کنارے واقع ہے۔ منظر بہت اچھا اورجگہ بڑے سکون کی ہے۔ وہیں ایک روز نواب صاحب باغپت نے قائداعظم سے کہا: ’’آپ کا خاندان تو تجارت پیشہ ہے‘ آپ میں کڑک کہاں سے آئی؟‘‘
قائداعظم نے مسکرا کر جواب دیا: ’’نواب صاحب میں تو پنجابی راجپوت ہوں۔ کئی پشتیں گزریں میرے ایک جد کاٹھیاواڑ چلے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے ایک خوجہ کی لڑکی سے شادی کر لی اور انہی کے خاندان میں مل گئے۔ اُس وقت سے ہم خوجوں میں شمار ہونے لگے۔ میرے وہ جد جو کاٹھیاوار گئے‘ ضلع منٹگمری کے رہنے والے تھے۔‘‘(اسد ملتانی)
٭٭
جج بطور اسٹیشن ماسٹر
قائداعظم کی شخصیت کی جس خصوصیت سے لوگ عموماً ناواقف ہیں‘ وہ اُن کی لطافت مزاج ہے۔ کبھی کبھی وہ کھانے کی میز پر ہمیں مزے مزے کے لطیفے اور قصے سناتے۔ قائداعظم کا سنایا ہوا ایک لطیفہ مجھے اب تک اچھی طرح یاد ہے۔ ’’انگلستان کے کسی چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی معمول سے ذرا زیادہ ٹھہر گئی۔ ایک ہندوستانی جج نیچے اتر کر پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا۔ اتنے میں ایک انگریز بھی گاڑی سے اترا۔ سیدھا جج صاحب کی طرف آ کر اُن سے پوچھنے لگا:’’گاڑی کب چھوٹے گی؟‘‘
جج نے جواب دیا:’’مجھے کیا معلوم؟‘‘
انگریز نے کہا:’’لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہیے۔ کیا تم اسٹیشن ماسٹر نہیں ہو؟‘‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا: ’’نہیں میں اسٹیشن ماسٹر نہیں ہوں۔‘‘
انگریز بولا: ’’اگر نہیں ہو تو ویسے معلوم کیوں ہوتے ہو۔‘‘(فرخ امین)
٭٭
پہلے صحیح فیصلہ‘ پھر عمل
اپنی سیاسی زندگی میں قائداعظم نے سستی شہرت اور نام و نمود کی خواہش نہیں کی۔ قائداعظم وہی کچھ کرتے جسے وہ درست سمجھتے… قطع نظر اس امر کے کہ عوام کو وہ پسند ہے یاناپسند۔ ایک دفعہ انھوں نے پنڈت جواہر لال نہرو سے کہا: ’’تم پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہو کہ عوام کو کیا پسند ہو گا اور پھر اُن کی پسند کے مطابق عمل کرتے ہو۔ لیکن میرا طریقہ عمل بالکل مختلف ہے۔ پہلے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ صحیح کیا ہے؟ درست کیا ہو گا؟ اور پھر اُس پر عمل شروع کر دیتا ہوں۔ لوگ میرے گرد جمع ہونے لگتے ہیں اور مخالفت غائب ہو جاتی ہے۔‘‘(ھیکٹر بولائیتھو)
٭٭
قانون کا احترام
ھیکٹر بولائیتھو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے جب ایک شام قائداعظم سے اپنے چند استادوں کے خلاف شکایت کی تو قائداعظم نے دریافت کیا: ’’تم میں سے کس کس کی سائیکل پر لیمپ ہے؟‘‘
قائداعظم نے پھر انھیں تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم دوسروں پر اُس وقت تک نکتہ چینی نہیں کر سکتے جب تککہ خود قانون کا احترام نہ سیکھ لو۔
٭٭
مشورے کا جواب
جلوس کے اختتام پر اسمبلی ہال میں انتقالِ اقتدار کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستانیوں کو اپنے سفید فام جسم میں ہزار کدورتوں اور خیانتوں کی سیاہیاں چھپائے یہ مشورہ دیا کہ وہ نئی مملکت میں عدل و انصاف اور رواداری کی ایسی روایتیں قائم کریں جو مغل بادشاہ اکبر نے قائم کی تھیں۔
قائداعظم نے اپنی جوابی تقریر میں مائونٹ بیٹن کے اس مشورے کو للکارے بغیر نہ جانے دیا۔ انھوں نے بڑے باوقار انداز میں فرمایا’’ عدل و انصاف اور رواداری کی روایتیں ہمیں اس سے بہت پہلے نبی کریم ﷺ سے مل چکی ہیں۔‘‘
٭٭
دنیا کا مصروف ترین انسان
محمد یوسف آزاد
میں نے قائداعظم کے موٹر ڈرائیور کی حیثیت سے زندگی کے پانچ اہم سال گزارے ہیں۔ ان پانچ برسوں میں‘ میں نے بہت کچھ سیکھا اور دیکھا۔ مجھ پر یہ راز بھی کھلا کہ صحیح معنوں میں قوم کی راہنمائی کرنا کتنا مشکل ہے۔ میں نے قائداعظم کو رات ڈھلے تک کام کرتے دیکھا۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ وہ سونے کے لیے لیٹ گئے۔ لیکن جیسے ہی انھیں کسی کام کا خیال آیا وہ فوراًبستر سے اُٹھ کر کام میں مصروف ہو گئے۔ میں نے قومی کاموں میں انھیں جس قدر منہمک پایا ہے۔ اُسے پیش نظر رکھتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں:
’’وہ مغرور نہیں بلکہ مصروف انسان تھے‘ غالباً دنیا کے مصروف ترین انسان۔‘‘
٭٭
قول و فعل
واجد علی نے مجھے بتایا کہاکہ ایک روز قائداعظم نے کہا: ’’کیا بتایا جائے‘ ڈاک میں اتنی تعداد میں خطوط آتے ہیں کہ اُن کے جوابات دینے میں خاصا وقت صرف ہو جاتا ہے۔‘‘
واجد علی نے جواب میں عرض کیا’’آپ حکم دیں تومیں حاضر ہو جایا کروں اور خطوط کا جواب آپ کی ہدایت کے مطابق لکھ دیا کروں۔‘‘
اس پر قائداعظم نے فرمایا: ’’تم ایک بات بھول رہے ہو کہ یہ خط جناح کے نام آتے ہیں اور کسی کے نام نہیں۔‘‘
یہ نکتہ بعد میں غور و فکر سے سمجھ میں آیا کہ ہر خط لکھنے والے کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جس کو خط کے ذریعے مخاطب کرے‘ وہی اُس کا جواب دے۔
(فقیر سید وحیدالدین)
٭٭
معمولی آدمی
روزنامہ انقلاب بمبئی۔ ۲۵ دسمبر ۱۹۴۵ء
۲۴ دسمبر ۱۹۴۵ء کوای وارڈ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے چند کارکن قائداعظم کے دولت خانے پر ایک جلسہ میں شرکت کی دعوت دینے گئے۔ اُن میں سے ایک شخص نے مصافحہ کرتے ہوئے جوش عقیدت سے مجبور ہو کر آپ کے ہاتھ کو چوم لیا۔ یہ حرکت دیکھ کر قائداعظم نے فرمایا ’’لوگوں کو چاہیے کہ وہ مجھے معمولی آدمی تصور کریں۔ پیر و مرشد نہ سمجھ لیں۔ اس طرح لوگوں میں غلط اور تباہ کن طریقہ پر سر جھکانے کی عادت پڑ جاتی ہے جسے عرف عام میں شخصیت پرستی کہتے ہیں۔ یہ مرض نقصان دہ اور مضرت رساں ہے‘ اور ناروا اور ناجائز ہے۔‘‘
٭٭
دس کروڑ مسلمانوں کا تنہا وکیل
فقیر سید وحیدالدین
۴۵۔۱۹۴۴ء میں‘ میں کسی سرکاری کام سے بمبئی کے دورے پر گیا۔ وہاں اپنے عزیز سید واجد علی کے یہاں مقیم ہوا۔ واجد علی اکثر و بیشتر قائداعظم کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اندازہ ہوا کہ وہ اُن کی ذات سے خاص دلچسپی بلکہ عقیدت رکھتے ہیں۔ قائداعظم بھی اُن پر مہربانی فرماتے۔ ملاقات کے لیے عزیز موصوف کو کوئی رسمی دشواری پیش نہیں آتی… انھوں نے قائداعظم کی قیام گاہ واقع مالا بارہل پر ٹیلی فون کیا اور ملاقات کا وقت لیتے ہوئے کہا کہ میرا ایک عزیز بھی میرے ہمرہ آنا چاہتا ہے۔ قائداعظم نے جواب میں غالباً اجازت دے دی۔ میری خوشی کا کیا پوچھنا۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سب سے بڑے راہنما سے شرف ملاقات کا موقع مل رہاتھا…
تھوڑی ہی دیر میں قائداعظم کی قیام گاہ پر تھے۔ زینہ طے کرتے ہوئے بالائی منزل پرپہنچے۔ وہاں قائداعظم اپنی ہمشیرہ کے ساتھ صوفے پر رونق افروز تھے۔ بڑے تپاک سے ملے‘ مصافحہ کیا اور بیٹھنے کو کہا۔ ملاقات میں کئی موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ سب سے زیادہ اہم بلکہ گرم موضوع شملہ کانفرنس کاتھا۔ انھوں نے فرمایا: ’’میں آج ہی شملہ کانفرنس میں شریک ہونے جا رہا ہوں۔‘‘ پھر قدرے رک کر حسرت آمیز لہجے میں بولے:
’’دیکھو‘میں یہاں تنہا بیٹھا مسلمانوں کا پورا مقدمہ تیار کر رہا ہوں۔ عین اس مکان کے سامنے انڈین کانگریس کے بہترین دماغ مل جل کر جوابِ دعویٰ تیار کر رہے ہیں۔‘‘
میں نے اس مختصر ملاقات میں محسوس کیا کہ دس کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کی اتنی بھاری ذمہ داریاں اپنے منحنی کاندھوں پر سنبھالنے کے باوجود وہ پُرامید ہیں اور کسی قسم کی بے چینی اور اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ انھیں اس دن سفرکرنا تھا اور سفر بھی کس قدر ہنگامہ آفرین۔ اُن کی مصروفیات بھی غیرمعمولی تھیں۔ انھوں نے ملاقات کے دوران اپنے اضطراب ‘ عجلت اور بڑھی مصروفیات کا احساس نہیں ہونے دیا۔ کوئی دوسرا ہوتا تو اپنا اضطراب شاید نہ چھپا سکتا۔ ہم نے خود اُٹھ کر اجازت چاہی‘ تب انھوں نے رخصت دی۔
تبصرہ لکھیے