ہوم << نرسوں کے ساتھ پکنک - عبیداللہ کیہر

نرسوں کے ساتھ پکنک - عبیداللہ کیہر

2001ء میں، یعنی نئی صدی کے آغاز پر میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگیا۔ اس منتقلی کی بنیادی وجہ ملازمت کا یہاں ہونا تھا۔ اسلام آباد کا معروف ہسپتال ہے شفاء انٹرنیشنل، جس کا اپنا میڈیکل کالج بھی ہے۔ میں اس کالج میں بطور آڈیو ویژؤل انجینئر آیا تھا۔ میں اگلے تین سال شفاء کالج آف میڈیسن میں رہا اور اس نئے تعلیمی ادارے کا آڈیو ویژؤل ڈپارٹمنٹ قائم کیا، جس کے تحت میڈیکل سے متعلق ایجوکیشنل فوٹوگرافی، وڈیو فلمنگ، ڈاکومینٹریز اور پریزنٹیشنز وغیرہ کا کام ہوتا تھا۔

ہم جیسے سیاح مزاجوں کو اسلام آباد میں رہائش کا موقع ملنا بھی ایک خوش بختی ہے، کیونکہ اسلام آ باد پاکستان کا سیاحتی بیس کیمپ ہے۔ پاکستان کے اکثر معروف سیاحتی مقامات اور وادیوں، مری، سوات، کشمیر، کاغان، ناران، چترال، گلگت، ہنزہ اور اسکردو وغیرہ سب کے راستے اسلام آباد ہی سے نکلتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی کسی بھی شہر سے سیاحت کیلئے نکلے، اسے سب سے پہلے اسلام آباد ہی آنا پڑتا ہے۔ پھر یہاں سے جو جہاں آگے جانا چاہے وہاں کیلئے نکل پڑتا ہے۔ البتہ جو رہتا ہی اسلام آباد میں ہو اس کے تو مزے ہیں۔ جب ذرا فرصت ملی، ایک دو دن میں ہی جا کر حسین و دلکش مقامات کی سیر کر آئے۔ یعنی :

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

اسلام آباد سے دور رہنے والے جس طرح کے سیاحتی پروگرام سال بھر میں بنا پاتے ہیں، اسلام آباد میں رہنے والوں کیلئے وہ بس ایک چھوٹی سی پکنک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جتنا وقت لگا کر کراچی والے ٹھٹھہ میں کلری جھیل کی پکنک کرتے ہیں، اتنے وقت میں اسلام آباد والے مری نتھیا گلی اور بالاکوٹ وغیرہ کی سیر کر آتے ہیں۔

یہاں کے اداروں میں کام کرنے والے ملازم بھی اکثر ایک دو روزہ آفیشل پکنک کا اہتمام کرتے ہیں جس میں عام طور پر مری، کشمیر اور کاغان جانے کے پروگرام بنائے جاتے ہیں۔ اگر سردیوں کا موسم ہو تو کلر کہار جھیل، راج کٹاس کے آثار، کھیوڑہ کی کانِ نمک اور قلعہ روہتاس جہلم وغیرہ کے پروگرام بنتے ہیں۔

ہمارے ہسپتال اور میڈیکل کالج کے ملازمین کیلئے بھی اسی طرح کے پکنک پروگرام منعقد ہوتے رہتے تھے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کیلئے بھی سیر و تفریح کے پروگرام بنتے رہتے تھے۔ جب نرسوں کی پکنک ہوتی تھیں تو اس میں شریک تو صرف خواتین ہی ہوتی تھیں، البتہ انتظامات کیلئے مردانہ اسٹاف میں سے کچھ ایسے لوگوں کو بھی منتخب کر کے ان کے ساتھ بھیجا جاتا تھا جن کے بارے میں رائے ہوتی تھی کہ یہ ذرا شریف قسم کے ہیں اس لئے عورتوں کے ساتھ بھیجنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چنانچہ یہ شریف حضرات نرسوں کو پکنک کروا کے گھما پھرا کے لے آتے تھے۔

ایک دفعہ اسی طرح نرسوں کی ایک آفیشل پکنک طے ہوئی اور پروگرام بنا وادئ کاغان میں جھیل سیف الملوک جانے کا۔ جھیل سیف الملوک یعنی ناران کا فاصلہ اسلام آباد سے اتنا تھا کہ ایک ہی دن میں وہاں جا کر واپس آنا مشکل تھا۔ چنانچہ یہ ایک اووَر نائٹ پکنک تھی۔ اب چونکہ نرسیں جا رہی تھیں اور پکنک بھی اوور نائٹ تھی، اس لئے حسبِ دستور ان کے ساتھ بھیجنے کیلئے کچھ ”شریف“ مردوں کا انتخاب کیا گیا۔ ان میں کچھ تو وہ تھے جو شادی شدہ نرسوں کے شوہر تھے، جبکہ دیگر جو لوگ منتخب ہوئے ان میں مجھے بھی شامل کیا گیا۔ میں حیران بھی ہوا اور خوش بھی کہ چلو مجھے قابلِ اعتبار سمجھا گیا۔

پروگرام اس طرح تھا کہ ہم صبح اسلام آباد سے نکل کر شام تک بالاکوٹ پہنچیں، رات بالا کوٹ میں قیام کریں، اگلی صبح بالاکوٹ سے نکلیں، راستے میں کہیں ناشتہ کریں اور کوشش کریں کہ دو گھنٹے میں ناران پہنچ جائیں، جہاں جھیل سیف الملوک دیکھ کر اسی دن واپسی اختیار کرتے ہوئے رات تک اسلام آباد پہنچ جائیں۔ چنانچہ اسی پلان پر عمل کیا گیا۔

دو کوسٹر بسوں میں پچیس تیس نرسوں کا قافلہ لے کر ہم صبح اسلام آباد سے نکلے اور شام تک بالا کوٹ پہنچ گئے۔ ہمارے ساتھ نرسنگ اسٹاف میں جو خواتین تھیں ان میں سے اکثر بچیاں مسیحی برادری سے تعلق رکھتی تھیں۔ رات کو سب نے بالاکوٹ کے معروف مدنی ہوٹل میں قیام کیا۔ اگلے دن ہم صبح سویرے بالاکوٹ سے بغیر ناشتہ کئے نکلے اور دریائے کنہار کے کنارے بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ ایک خوبصورت قصبے ”پارس“ پہنچ کر بریک لگایا۔ یہاں ہمیں ایک چھوٹا سے ہوٹل نظر آیا جہاں انڈا پراٹھا چائے مل رہا تھا۔ طے ہوا کہ یہیں ناشتہ کیا جائے۔

ہوٹل کے واحد ہال میں ایک بڑی سی ٹیبل بچھی تھی جس کے ارد گرد دھری کرسیوں پر سینیئر نرسز اور ہم مرد حضرات بیٹھ گئے۔ باقی بچ جانے والوں کیلئے باہر میز کرسیاں لگا دی گئیں۔ کچھ ہی دیر میں انڈے پراٹھے آنا شروع ہو گئے اور چائے بھی آنے لگی۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ہاف فرائی یا ہاف بوائل انڈا بالکل نہیں کھاتا۔ میرے لئے تو انڈا فل فرائی ہونا چاہئے یا پھر آملیٹ۔ ہاف فرائی کا تو ایک لقمہ بھی نہیں لے سکتا ۔ لیکن ہوا یہ کہ ہوٹل والوں نے بس چند ہی انڈے فل فرائی کئے، باقی سارے ہاف فرائی بنائے اور میرے سامنے بھی ہاف فرائی انڈا ہی لا کر رکھ دیا۔ میں نے جب ہوٹل والے سے کہا کہ مجھے تو فل فرائی ہی چاہئے، تو معذرت خواہانہ لہجے میں بولا : ”صاحب ہمارے پاس تو جتنے بھی انڈے تھے وہ سب ہم نے بنا دیے ہیں۔ اب تو ایک بھی انڈا نہیں بچا۔ آپ مہربانی کر کے یہی کھا لیں۔“
”نہیں نہیں بھائی“ میں جلدی سے بولا۔ ”تم یہ ہاف فرائی انڈا لے جاؤ اور اسے ہی فل فرائی کر کے لے آؤ“
اسی وقت میرے سامنے جو دو کرسچن نرسیں بیٹھی تھیں ان میں سے ایک بولی :
”سر یہ ہمارے پاس جو انڈا ہے یہ فل فرائی ہے، یہ آپ چاہیں تو لے کر ہمیں اپنا ہاف فرائی دے سکتے ہیں، لیکن ایک مسئلہ ہے“
”وہ کیا؟…“ میں بولا۔
”سر ہم تو کرسچن ہیں اور ہم اس کا ایک نوالہ کھا چکے ہیں، آپ مسلمان ہیں پتہ نہیں ہمارا کھایا ہوا انڈا لیں گے یا نہیں؟“ وہ معصومیت سے بولی۔

میں نے یہ سن کر ایک قہقہہ لگایا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے سامنے سے اس کا کھایا ہوا انڈا اٹھا کر اپنی طرف کھینچ لیا اور اپنا ہاف فرائی انڈا ان کی طرف بڑھا دیا۔ پھر میں نے سب کے سامنے مزے مزے سے وہ انڈا کھا لیا۔ وہ دونوں نرسیں جو آپس میں سہیلیاں تھیں بار بار کنکھیوں سے میری طرف دیکھتی رہیں اور شاید دل ہی دل میں یہ کہتی رہیں کہ یہ انہوں نے ہمارا کھایا ہوا انڈا کیسے کھالیا؟… سب مسلمان تو ایسے نہیں کرتے۔

بہرحال ناشتہ کر کے ہم پارس سے نکلے، گھنٹہ بھر میں ناران پہنچے اور وہاں سے جیپوں میں سوار ہو کر پہاڑ کے اوپر بلندی پر جھیل سیف الملوک پہنچ گئے۔ جھیل پر پہنچتے ہی سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہو گئے۔ کچھ تو جھیل کنارے چہل قدمی کرنے لگے، کوئی ساحل پر بنے چھپر ہوٹلوں میں پکوڑوں کے ساتھ چائے نوش کرنے میں لگ گیا تو کچھ لوگ کشتی میں بیٹھ کر جھیل کی سیر کرنے لگے۔ ان مصروفیات کے ساتھ ساتھ ہر ایک اپنے ساتھ لائے ہوئے کیمروں سے اپنی اور دوسروں کی تصویریں بھی کھینچ رہا تھا۔ گروپ فوٹو بھی خوب بن رہے تھے۔ وہ دونوں نرسیں بھی کہ جن سے میں نے انڈا لے کر کھایا تھا اپنی سہیلوں کے ساتھ گروپ بنا بنا کر تصویریں لے رہی تھیں۔ کچھ دیر میں بعد دونوں سیدھی میری طرف آئیں اور بڑی محبت سے بولیں :
”عبید بھائی … ہمیں آپ سے ایک کام ہے“
میں حیران ہوا کہ یہ انہوں نے مجھے عبید صاحب یا سَر کہنے کی بجائے عبید بھائی کیوں کہا، کیونکہ نرسیں عام طور پر کسی کو بھی بھائی کہہ کر مخاطب نہیں کرتیں۔
”جی بہن حکم کریں“ میں خوشدلی سے بولا۔
” جی آج سے آپ ہمارے بھائی ہیں، ہمیں آپ کے ساتھ ایک تصویر بنانی ہے“ وہ بولیں۔
”ضرور ضرور، کیوں نہیں“ میں نے خوش ہو کر کہا۔
یہ سنتے ہی وہ دونوں میرے دائیں بائیں کھڑی ہو گئیں۔ ایک اور نرس کو کیمرا تھمایا جس نے جھٹ سے ہماری کئی تصویریں لے لیں۔ پھر انہوں نے مجھے اکیلا کھڑا کر کے بھی کچھ تصویریں لیں۔ شام ڈھلے تک ہم ناران واپس آ گئے اور وہاں سے اپنی بسوں میں بیٹھ کر رات تک اسلام آباد پہنچ گئے۔

اس دن کے بعد میں سال بھر مزید شفاء ہسپتال میں رہا۔ اس دوران وہ دونوں لڑکیاں تقریباً ہر ہفتے میرے آفس میں مجھ سے ملنے آتی رہیں اور اکثر میرے لئے کچھ نہ کچھ کھانے کی چیز بھی لاتی رہیں۔ وہ میرے کمرے کا دروازہ کھول کر اپنے سر اندر کرتیں اور دونوں ساتھ مل کر کورس میں کہتیں :
”ہمیں عبید بھائی سے ملنا ہے“
میں بھی ان کو دیکھ کر کھل اٹھتا اور کہتا :
”آئیے آئیے … عبید بھائی آپ سے ملنے کیلئے تیار ہیں“
اور وہ کھکھلاتی ہوئی میرے سامنے آ کر کرسیوں پر بیٹھ جاتیں اور دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہتیں۔

اب مجھ سے یہ محبت ان کو کیوں تھی؟… میں اچانک ان کیلئے بھائی کیوں بن گیا تھا؟… اس کی وجہ غالباً وہی تھی کہ اُس پکنک والے دن جب انھیں یقین تھا کہ میں بھی عام لوگوں کی طرح ان کے ساتھ چھوت چھات کا رویہ رکھوں گا اور ان کا کھایا ہوا انڈا نہیں کھاؤں گا، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ وہ کیا جو میری تعلیمات کے مطابق تھا۔ میں نے ان کا کھایا ہوا انڈا بلا کراہت جس شوق سے کھایا اس کا ان کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے مجھے اپنا بھائی ہی بنا لیا۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ نرسیں کسی کو بھائی نہیں بناتیں۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment