ہوم << کیا آپ تنہائی سے ڈرتے ہیں؟ - ولی اللہ

کیا آپ تنہائی سے ڈرتے ہیں؟ - ولی اللہ

کبھی غور کیجیے، زندگی کی سب سے بڑی فکریں، سب سے انمول خیالات اور سب سے شاندار ایجادات کب اور کہاں پیدا ہوئیں؟ کیا یہ کسی بھیڑ میں، کسی بازار میں، کسی شور میں ممکن ہوئیں؟ یا وہ لمحات جب انسان نے خود کو دنیا کی ہلچل سے الگ کر لیا، جب اس نے تنہائی کے سکون میں خود کو پایا، اپنی سوچوں کو سنا، اور اپنے اندر کے رازوں سے پردہ اٹھایا؟

ہم تنہائی سے کیوں بھاگتے ہیں؟
آج کا انسان مسلسل مصروف ہے۔ موبائل کی گھنٹیاں، سوشل میڈیا کی فالتو بحثیں، دفتر کی ذمہ داریاں، دوستوں کے پیغامات—ہر طرف شور ہے، مگر سکون کہیں نہیں۔ آج کا انسان اکیلے بیٹھ کر صرف "ہونا" بھی نہیں جانتا۔ جیسے ہی فرصت ملتی ہے، موبائل نکال لیتا ہے۔ جیسے ہی خاموشی ہوتی ہے، کان میں ہیڈ فون ڈال لیتا ہے۔ جیسے ہی تنہائی کا لمحہ آتا ہے، کوئی کام ڈھونڈ لیتا ہے۔ مگر کیوں؟ کیونکہ تنہائی ہمیں اپنے اصل چہرے سے ملواتی ہے۔ اور یہی سب سے زیادہ خوفناک حقیقت ہے۔ ہم دوسروں کی باتیں تو ساری زندگی سنتے ہیں، مگر خود سے بات نہیں کرتے۔ ہم دوسروں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں، مگر خود کو بھول چکے ہیں۔ تنہائی ہمیں وہ سچائی بتاتی ہے جو شاید ہم سننا نہیں چاہتے۔ اسی لیے ہم شور میں رہنا چاہتے ہیں، تاکہ یہ آواز ہمیں سنائی نہ دے۔

تنہائی کیوں ضروری ہے؟
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ہر عظیم انسان نے کسی نہ کسی مقام پر تنہائی کو اپنایا۔
صوفیوں نے حق کی تلاش تنہائی میں کی۔ دنیا کے شور سے دور، کسی درخت کے سائے میں، کسی ویرانے میں، کسی پہاڑ پر بیٹھ کر خود کو اور خدا کو پایا۔
بادشاہوں نے اپنے بڑے فیصلے تنہائی میں کیے۔ تاریخ کے عظیم حکمران، جنگی حکمتِ عملیوں، انقلابی پالیسیوں اور سلطنتوں کی بنیادوں پر غور تنہائی میں کرتے تھے۔
مصوّروں نے اپنی شاہکار تصویریں تنہائی میں بنائیں۔ وین گوگ، لیونارڈو ڈاونچی، صادقین جیسے فنکاروں کی تخلیقات تنہائی کی گہرائیوں سے نکلیں۔
مذہبی ریفارمرز نے اپنی تحریکوں کا آغاز تنہائی میں کیا۔ خواہ وہ بدھ مت کے گوتم بدھ ہوں یا اسلام کے صوفیاء، سب نے اپنی سچائی تنہائی میں دریافت کی۔
ادیبوں نے اپنی لازوال تحریریں تنہائی میں لکھیں۔ علامہ اقبال، غالب، شیکسپئر، دوستوئیفسکی—سب نے الفاظ کا جادو اس وقت تخلیق کیا جب وہ دنیا سے کٹ کر اپنے خیالات میں غرق ہوئے۔
موسیقاروں نے اپنی شاہکار دُھنیں تنہائی میں بنائیں۔ بیتھوون، موزارٹ، نصرت فتح علی خان جیسے عظیم موسیقاروں نے اپنی بہترین کمپوزیشنز تنہائی میں ترتیب دیں۔
موجدوں نے دنیا بدلنے والے خیالات تنہائی میں سوچے۔ آئن سٹائن کا "Theory of Relativity" ہو یا نیوٹن کا "Laws of Motion"—یہ سب تب ممکن ہوا جب وہ خود سے محوِ گفتگو تھے۔
قلندروں اور درویشوں نے اپنی باطنی دنیا تنہائی میں دریافت کی۔ حضرت بایزید بسطامی، مولانا رومی، اور بابا بلھے شاہ جیسے لوگ جب دنیا کے ہنگامے سے نکلے، تبھی وہ اندر کی حقیقتوں سے روشناس ہوئے۔
انقلابی رہنماؤں نے اپنی جدوجہد کا راستہ تنہائی میں چنا۔ نیلسن منڈیلا نے جیل کی تنہائی میں اپنی تحریک کو پروان چڑھایا۔
ذہنی سکون اور سچائی ہمیشہ تنہائی میں دریافت ہوئی۔ گوتم بدھ نے روشن ضمیری حاصل کرنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر تنہائی اختیار کی، اور وہیں سے نروان کا راز پایا۔

یہ تمام مثالیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اگر آپ اپنی زندگی میں کوئی انقلابی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، کوئی بڑا کام کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو شور سے نکل کر تنہائی میں جانا ہوگا۔ تنہائی ہمیں سوچنے کا موقع دیتی ہے۔ یہ ہمارے دماغ کو سکون دیتی ہے، ہماری تخلیقی صلاحیت کو جگاتی ہے، اور ہمیں وہ علم دیتی ہے جو کسی کتاب میں نہیں لکھا، مگر ہمارے اندر موجود ہے۔ اگر آپ زندگی میں کبھی سچ مچ کے گہرے خیالات میں نہیں گئے، اگر آپ نے کبھی خود سے سوال نہیں کیے، اگر آپ نے کبھی خاموش بیٹھ کر اپنے دل کی سنی ہی نہیں—تو آپ نے زندگی کا سب سے بڑا راز کھو دیا ہے۔ آج کی دنیا نے ہم سے تنہائی چھین لی ہے. ہم خود بھی قصوروار ہیں، مگر اس دنیا نے بھی ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا۔

پہلے لوگوں کے پاس فرصت ہوتی تھی، وہ کھلی چھت پر بیٹھ کر چاند دیکھ سکتے تھے۔ اب ہم اسکرین دیکھتے ہیں۔
پہلے لوگ درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچ سکتے تھے، اب ہم واٹس ایپ چیک کرتے ہیں۔
پہلے لوگ ندی کنارے بیٹھ کر اپنے خیالات کو پروان چڑھاتے تھے، اب ہم یوٹیوب پر فضول ویڈیوز دیکھتے ہیں۔
پہلے لوگ کتاب کے ساتھ وقت گزارتے تھے، اب انسٹاگرام پر سکرول کرتے ہیں۔
پہلے لوگ خط لکھ کر جذبات کا اظہار کرتے تھے، اب ایموجیز سے کام چلا لیتے ہیں۔
پہلے لوگ تنہائی میں بیٹھ کر زندگی کے معنی پر غور کرتے تھے، اب نیٹ فلکس پر سیریز دیکھ کر وقت گزار دیتے ہیں۔
پہلے لوگ اپنے والدین کے پاس بیٹھ کر ان کی کہانیاں سنتے تھے، اب ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔
پہلے لوگ مسجد یا مزار میں جا کر دل کا سکون تلاش کرتے تھے، اب فیس بک پر مصنوعی خوشیوں کی تصاویر دیکھ کر اپنی زندگی کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔
پہلے لوگ چہل قدمی کرتے ہوئے اپنی زندگی پر غور کرتے تھے، اب ایئر فون لگا کر دوسروں کی باتوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
پہلے لوگ شام کے وقت گھر کی چھت پر بیٹھ کر سوچتے تھے، اب بیڈ پر لیٹ کر یوٹیوب کی ریلس میں کھو جاتے ہیں۔
پہلے لوگ دیر رات اپنے خوابوں کے بارے میں سوچتے تھے، اب سوشل میڈیا پر دوسروں کی زندگیوں کو دیکھ کر حسد کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پہلے لوگ خاموشی میں بیٹھ کر دل کی سنتے تھے، اب ہر وقت شور میں رہ کر اپنی ہی آواز سننے کے قابل نہیں رہے۔
پہلے لوگ حقیقت کی دنیا میں جیتے تھے، اب ورچوئل دنیا میں کھو چکے ہیں۔

ہم نے اپنی سب سے بڑی طاقت—تنہائی—کو کھو دیا ہے، اور بدلے میں ذہنی بے سکونی حاصل کر لی ہے۔ آج کا انسان دماغی غلام ہے۔ وہ ایک لمحہ بھی خود کے ساتھ نہیں گزار سکتا، کیونکہ اسے سکھایا ہی نہیں گیا کہ تنہائی کتنی خوبصورت ہو سکتی ہے۔

ہم تنہائی کیسے اپنائیں؟

1. روزانہ کچھ وقت مکمل خاموشی میں گزاریں۔ یہ وقت صرف آپ اور آپ کے خیالات کے لیے ہو۔ کوئی موبائل، کوئی کتاب، کوئی ٹی وی نہیں۔
2. چلتے پھرتے غور و فکر کریں۔ واک کریں، چہل قدمی کریں، مگر سوچتے رہیں۔ خیالات کو بہنے دیں، انہیں روکیں نہیں۔
3. اپنے اندر کے سوالوں کا جواب دیں۔ ہم دوسروں کی کہانیاں تو جانتے ہیں، مگر خود سے یہ نہیں پوچھتے: میں کون ہوں؟ مجھے کیا کرنا ہے؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
4. ہفتے میں ایک دن "ڈیجیٹل فری" رکھیں۔ موبائل بند کریں، سوشل میڈیا سے دور رہیں، اور دیکھیں کہ آپ کا دماغ کیسے بدلتا ہے۔

کیا آپ تنہائی سے ڈرتے ہیں؟
اگر ہاں، تو جان لیں کہ تنہائی میں کچھ بھی غلط نہیں، بلکہ یہ آپ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اگر آپ اسے اپنا لیں تو شاید زندگی کا سب سے قیمتی راز آپ کے ہاتھ آ جائے۔ وہ راز جو دنیا کے بڑے بڑے لوگ جانتے تھے—کہ اصل سکون، اصل ذہانت، اصل تخلیق، اصل دانائی، تنہائی کے بغیر ممکن نہیں۔ خود کو وقت دیں۔ خود سے ملیں۔ تنہائی میں جائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے عظمت پیدا ہوتی ہے۔
اس مصروف دور میں ہر شخص بے سکونی کا شکار ہے، جبکہ تنہائی اس کے لیے سکون اور خود شناسی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔