ہوم << ترقی کے تین ستون: صبر، شکر اور علم - عاطف ہاشمی

ترقی کے تین ستون: صبر، شکر اور علم - عاطف ہاشمی

صبر، شکر اور علم تین ایسی قوتیں ہیں جو انسان کی زندگی میں نہ صرف کامیابی اور سکون لاتی ہیں، بلکہ اسے مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی طاقت بھی فراہم کرتی ہیں۔ قرآن مجید میں ان تینوں خصوصیات کی اہمیت کو بار بار بیان کیا گیا ہے، اور ان کا صحیح استعمال انسان کی روحانی اور مادی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ ان تین طاقتوں کی اصل حقیقت کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا انسان کو اللہ کی رضا اور زندگی میں کامیابی کی جانب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

سورہ احزاب، سورہ سبا، اور سورہ فاطر تین ایسی سورتیں ہیں جو صبر، شکر گزاری، اور علم کی روشنی میں انسان کے لیے کامیابی کا راستہ واضح کرتی ہیں۔ یہ سورتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ مشکلات میں صبر، نعمتوں میں شکر، اور جہالت کے اندھیروں میں علم کی روشنی ہی انسان کو حقیقی کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔

صبر: مشکلات میں استقامت کی راہ:
سورہ احزاب میں صبر کی طاقت کا بیان غزوہ احزاب کے تناظر میں کیا گیا ہے، جہاں مسلمان بدترین محاصرے اور سخت ترین آزمائشوں کا شکار ہوئے۔ دشمن نے انہیں ہر جانب سے گھیر لیا تھا، یہاں تک کہ قرآن کریم نے اس کربناک صورتِ حال کو یوں بیان کیا: إذ جاؤوكم من فوقكم ومن أسفل منكم، وإذ زاغت الأبصار، وبلغت القلوب الحناجر (الاحزاب: 10) یعنی دشمن ہر طرف سے حملہ آور ہوا، خوف اس قدر شدید تھا کہ کلیجے منہ کو آ گئے۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب حقیقی مؤمنین کی پہچان ہوئی۔ کچھ لوگ شک و شبہ میں بھی مبتلا ہو گئے اور اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، جیسا کہ مسلمانوں پر مشکل حالات آنے پر ہر دور کے کمزور ایمان رکھنے والوں کا وطیرہ رہا ہے، لیکن آزمائش کی اس مشکل ترین گھڑی میں بھی سچے ایمان والوں کی زبان پر تھا: هذا ما وعدنا الله ورسوله وصدق الله ورسوله (الاحزاب: 22) کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدہ کیا ہے وہ سچا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنی مدد نازل کی، کفار کے دلوں میں خوف ڈالا، اور انہیں بغیر کسی جنگ کے پسپا کر دیا۔

یہ تاریخی حقیقت صرف غزوہ احزاب تک محدود نہیں، بلکہ ہر دور میں اہل ایمان کو ایسے ہی آزمائشوں کا سامنا رہا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا تھا، دشمن ایک نہیں تھا بلکہ متعدد تھے اور چاروں طرف سے حملہ آور تھے، معاشی اور عسکری وسائل محدود تھے، اور نام نہاد مسلمانوں میں کمزوری اور بزدلی نمایاں ہونے لگی تھی۔ مگر ان سب کے باوجود صبر، ثابت قدمی اور اللہ پر بھروسے نے مسلمانوں کو فتح عطا کی۔

آج بھی صورتِ حال مختلف نہیں، فکری اور نظریاتی محاذ پر امت مسلمہ کو شدید چیلنجز درپیش ہیں۔ مغربی افکار کی یلغار، الحاد کی ترویج، اور خود مسلمانوں کے اندر پیدا ہونے والی فکری کمزوریاں ایک نئے غزوۂ احزاب کی یاد دلاتی ہیں۔ آج بھی کئی لوگ دین پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں، ایمان کو بوجھ سمجھتے ہیں اور تشکیک اور جدیدیت کے نام پر اپنی اسلامی شناخت کھو رہے ہیں۔ مگر اللہ کا وعدہ ہمیشہ سچا رہا ہے کہ: "آخر کار عزت اللہ، اس کے رسول اور ایمان والوں ہی کے لیے ہے، مگر منافقین یہ جانتے نہیں۔" (المنافقون)

یہ سورت صرف فکر و عقیدہ کی آزمائش کےبارے میں رہنمائی نہیں کرتی، بلکہ کئی اہم عملی ومعاشرتی امور میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات کو امہات المؤمنین (مؤمنوں کی مائیں) قرار دیا گیا (الاحزاب: 6)، اور خواتین کے لیے پردے کے احکام نازل کیے گئے تاکہ وہ معاشرتی برائیوں سے محفوظ رہیں (الاحزاب: 59)۔ ساتھ ہی منہ بولے بیٹے (متبنی) کے اسلامی حکم کو واضح کیا گیا کہ وہ حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا (الاحزاب: 4-5)۔

شکر گزاری اور قوموں کا عروج و زوال:
سورہ سبا میں اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج و زوال کی بنیادی وجوہات بیان کی ہیں۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو بےپناہ نعمتیں عطا کی گئیں، لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی شکر گزاری تھی۔حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کی قوم کو جدید ترین صنعت و حرفت، مضبوط دفاعی نظام اور بے مثال معاشی استحکام حاصل تھا۔ لیکن ان کی کامیابی کا راز محض مادی ترقی میں نہیں تھا، بلکہ وہ اللہ کے شکر گزار بھی تھے۔ قرآن نے ان کی نعمتوں کے ذکر کے بعد واضح فرمایا: اعملوا آل داوود شكرا (سبا: 13) یعنی اے داؤد کے گھر والو! اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نیک عمل کرو۔ مزید برآں حضرت سلیمان کو ہوا، جنات، اور جانوروں پر حکمرانی دی گئی، لیکن وہ ہر موقع پر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرتے اور شکر ادا کرتے رہے۔ اس کے برعکس قوم سبا کو ہر طرح کی معاشی خوشحالی میسر تھی، ان کو بےپناہ زراعت، باغات، اور وسائل دیے گئے، لیکن انہوں نے ناشکری کی اور تکبر میں مبتلا ہو گئے۔ اللہ نے انہیں تنبیہ کی اور شکر بجا لانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: كلوا من رزق ربكم واشكروا له (تم اپنے رب کے رزق سے کھاؤ پیو اور اس کا شکر ادا کرو) (سورہ سبا، 34:15) لیکن وہ باز نہ آئے، جس کے نتیجے میں ان پر ایک عظیم سیلاب (سیل العرم) مسلط کر دیا گیا: فأرسلنا عليهم سيل العرم ... ومزقناهم كل ممزق (سبا: 16-19) یعنی ہم نے ان پر بند توڑنے والا سیلاب چھوڑ دیا، اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے منتشر کر دیا۔ یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کی جائے، تو وہی نعمتیں زوال اور تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

علم: ترقی کی راہ:
سورہ فاطر میں اہل علم کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ : إنما يخشى الله من عباده العلماء(فاطر: 28) یعنی علم رکھنے والے ہی اللہ سے حقیقی خشیت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ کائنات، تخلیق، اور قدرت کے مظاہر کو دیکھ کر اللہ کی عظمت کو پہچانتے ہیں۔ یہاں علم کی جو تعریف بیان کی گئی ہے، وہ محض دنیاوی معلومات یا ٹیکنالوجی تک محدود نہیں، بلکہ وہ علم جو انسان کو حقیقت کی گہرائیوں تک پہنچا دے، اور جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی اور معاشرے کو بہتر بنا سکے۔ آج کے دور میں بھی ترقی یافتہ اقوام کی کامیابی کا راز ان کا مضبوط تعلیمی نظام اور تحقیق و جستجو کا جذبہ ہے۔ مسلمانوں کی تاریخی ترقی کا دور بھی اسی وقت تھا جب انہوں نے علم کو اولین ترجیح دی، سائنس، فلسفہ، طب، ریاضی اور دیگر شعبوں میں حیران کن ترقی کی۔ لیکن جب علم سے دوری اختیار کی گئی، تو زوال مقدر بن گیا۔ لہٰذا اگر کوئی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے، تو اسے تعلیم و تحقیق کو اپنی بنیاد بنانا ہوگا۔ قرآن کے الفاظ میں یہ واضح ہے کہ بینا (علم والے) اور نابینا (جاهل) کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

یہ تینوں سورتیں زندگی کے تین اہم اصول سکھاتی ہیں: آزمائش میں صبر، نعمتوں میں شکر، اور جہالت کے مقابلے میں علم کا حصول۔
صبر مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی طاقت دیتا ہے، جس کے بغیر کوئی بھی فرد یا قوم اپنی موجودہ صورتحال کو بہتر نہیں بنا سکتی۔
شکر نعمتوں اور تجربات کی قدر سکھاتا ہے، جو فرد یا قوم کو مایوسی سے بچاتا ہے اور ترقی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
علم مستقبل کی راہوں کو روشن کرتا ہے، کیونکہ جو فرد یا قوم سیکھنے اور تحقیق کے عمل میں مصروف رہتی ہے، وہی آنے والے وقت میں ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔

اگر آج کی مسلم دنیا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ہماری کمزوری کی بڑی وجہ انہی تین اصولوں سے دوری ہے۔
1. صبر کی کمی: ہم فوری نتائج چاہتے ہیں، مشکلات کا سامنا کرنے کی بجائے جذبات میں بہک جاتے ہیں۔
2. شکر کی ناقدری: جو وسائل اور مواقع ہمیں ملے ہیں، ہم ان کی قدر نہیں کرتے، بلکہ ہمیشہ شکوہ کناں رہتے ہیں۔
3. علم سے غفلت: جدید سائنسی، فکری اور دینی علوم میں ہماری کمزوری ہمیں پیچھے دھکیل رہی ہے۔

اگر امت مسلمہ دوبارہ ترقی کرنا چاہتی ہے، تو اسے صبر، شکر اور علم کے ان تین ستونوں کو اپنی زندگی اور معاشرت میں مرکزی حیثیت دینا ہوگی۔ یہی وہ اصول ہیں جو ہمیں قرآن اور نبی کریم ﷺ کی سنت میں واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، یہی وہ پیغام ہے جو ان سورتوں میں دیا گیا ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی قوم کو ترقی، عروج اور بلندی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

Comments

Avatar photo

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment