ہوم << ناران کاغان کا یادگار سفر - محمد عدنان

ناران کاغان کا یادگار سفر - محمد عدنان

یوں تو انسان کی زندگی میں بہت سارے واقعات ہوتے ہیں جن کے ساتھ بہت ساری یادیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بھی کچھ چیدہ چیدہ لمحات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ایسا ہی ایک سفر ہے جس کی روداد میں مختصراً تحریر کرتا ہوں۔

یونیورسٹی میں ایڈمشن کے بعد جب کلاسز شروع ہوئیں تو جہاں باقی کلاس فیلوز تھے وہی تین چار ایسی شخصیات سے تعارف ہوا۔ جن سے ملنے کے بعد ایسا لگا جیسے کوئی بہت ہی اپنا بڑے عرصے سے بچھڑا ہوا اچانک کہیں مل جائے تو دل کو قرار آ جاتا ہے۔ ایسے ہی بھائیوں کی طرح چاہنے والے دوست نقاش ایوب،عاصم شہزاد ،یاسر محمود اور مفتی شاہد عمران یونیورسٹی ہی کی بدولت ملے۔

شروع کی کلاسز میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مزاح کرتے وقت الفاظ کے چناؤ کا انتخاب کرتے تھے۔ لیکن مفتی صاحب (شاہد عمران)نے اپنے مخصوص انداز گفتگو سے ہماری اس جھجک کو بھی دور کر دیا۔جوں جوں کلاسز کا سلسلہ بڑھتا گیا اسی رفتار سے یہ رفاقت ایک بہترین بھائی چارے کی صورت سے مزید آگے دوستی کے بہترین اور مضبوط رشتے میں بندھ گئی۔

ہم چونکہ اس گروپ میں پانچ افراد تھے تو آپس میں رابطے کے لیے ایک وٹس ایپ گروپ ترتیب دیا گیا۔پھر یہ بحث چل پڑی کہ گروپ کا نام کیا رکھا جائے تو ایک ساتھی کی رائے آئی کہ ہم اس گروپ میں پانچ ممبر ہیں تو پنجہ گروپ ہی نام رکھ دیتے ہیں اس پر باقیوں نے بھی اتفاق رائے دی تو اس طرح پنجہ گروپ نام تجویز کر دیا گیا جو کہ ابھی بھی اسی طرح چل رہا ہے۔

بہت ساری باتیں اور یادیں ہیں سب کا تذکرہ کرنے لگ جاؤں گا تو تحریر بہت لمبی ہو جائے گی اسی لیے اس تحریر کے عنوان کی طرف آتا ہوں۔

کلاس فیلوز کے درمیان دو تین بار اس بات پر مشاورت ہوئی کہ سب ساتھی مل کر گھومنے پھرنے چلتے ہیں لیکن ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے پروگرام بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا تھا۔

لیکن اس بار پنجہ گروپ نے ٹھان لی کہ سمسٹر کے آخر میں سفر کی ترتیب بناتے ہیں۔ سمسٹر مکمل ہونے کے بعد ایک نئی بحث شروع ہوگئی کہ جائیں کہاں کسی نے گلگت کا کہا کسی نے سوات کی خواہش کا اظہار کیا تو کوئی جھنگ کی طرف کھینچ رہا تھا بالآخر گروپ میں وٹس ایپ کے ذریعے پولنگ کی جس کے مطابق ناران کاغان کا سفر طے پایا۔

ایک بات جو کہ بہت اہم تھی وہ تحریر کرنا یاد نہیں رہی کہ اس سارے کام میں ہم ساتھیوں نے مل کر ایک امیر(نقاش ایوب) مقرر کیا تھا جو ہر لحاظ سے(جسامت کے ) امیر کہلانے کا حق بھی رکھتا تھا.

امیر صاحب کی ہدایت کے مطابق سب ساتھی اپنی ضرورت کا سامان لے کر طے شدہ جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے اس خوبصورت سفر کا آغاز کیا گیا جوں جوں ناران کاغان کی طرف بڑھ رہے تھے ہر ایک ساتھی اپنے اپنے اندازے لگا رہا تھا ۔
موسم بہت ٹھنڈا ہو گا؟
بارش بھی ہو سکتی ہے؟
سفر بہت لمبا ہے رات تک پہنچ پائیں گے کہ نہیں؟

دوران سفر پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہوئی سڑک ، سڑک کے کنارے بہتا ہوا دریا ، پہاڑوں کی چوٹیوں کو مس کرنے والے سر سبز درخت ، کیا خوبصورت نظارہ پیش کر رہے تھے۔ ان علاقوں کی طرف جب بھی رخت سفر باندھیں کوشش کریں گاڑی اپنی ہو تاکہ ان علاقوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکیں اور ہر پوائنٹ کو صحیح انجوائے کر سکیں۔

اکثر تحریر پڑھتے وقت یونہی لکھا ہوا ملتا ہے کہ ناران کاغان لیکن سفر کرتے وقت آپ اس کے برعکس دیکھیں گے کیونکہ پہلے کاغان آتا ہے اس کے بعد ناران۔

تین دن کے اس سفر میں ہمارا پہلا پڑاؤ کاغان میں ہوا جہاں ہم نے شام کا کھانا خود بنایا اور بہت محظوظ ہو کر کھایا اس کے بعد مفتی صاحب نے زبردست کڑک سی چائے پلائی جس کے بعد آرام کیا۔

اگلے دن صبح سویرے ناران کے لیے نکل پڑے جہاں پہنچتے ہی زبردست ٹھنڈ کا احساس ہوا اور جگہ جگہ برف کے تودے پڑے ہوئے دیکھے جبکہ انھی دنوں میں پنجاب میں لوگ پسینے میں شرابور تھے۔ ناران پہنچنے کے بعد اگلا پوائنٹ بابو سر ٹاپ تھا جو سطح زمین سے کافی بلندی پر ہے جہاں کی ٹھنڈی ہواؤں کے بارے سن رکھا تھا لیکن پہنچنے کے بعد احساس ہوا کہ جو سن رکھا تھا وہ کم ہے یہ اس سے کہیں زیادہ ٹھنڈی ہیں۔

بابوسر ٹاپ پر پہنچ کر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی لمبے سفر کا مسافر تھک ہار کر خدا خدا کر کے منزل مقصود پر پہنچتا ہے لیکن وہاں کی ٹھنڈی ہوا نے ہمیں زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیا امیر صاحب نے گرما گرم پکوڑوں اور چپس سے ہماری خاطر تواضع کی وہ علیحدہ بات ہے کہ امیر صاحب ہمیں باتوں میں لگا کر ہماری عدم توجہ کا خوب فائدہ اٹھاتے۔

تھوڑی دیر ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ آنکھ مچولی کے بعد بالآخر امیر صاحب کے حکم پر واپسی کے لئے رخت سفر باندھا راقم اور مفتی صاحب کو فرنٹ پر بٹھا دیا گیا امیر صاحب اپنے ہم پلہ اور ہم وزن ساتھی کو لے کر پچھلی سیٹ پر برا جمان ہو گئے۔

واپسی کا سفر شروع ہوا سارے ساتھی خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس نے سارے سفر کا مزا چکنا چور کر دیا فوٹو گرافی کی ڈیوٹی میری لگی ہوئی تھی میں باہر کے خوبصورت مناظر کو کیمرے میں محفوظ کر رہا تھا کہ اچانک موبائل ہاتھ سے نکل کر روڈ پر جا گرا جہاں پیچھے آنے والی بس نے اس کا کام تمام کر دیا تھوڑی دیر گاڑی میں سوگ جیسا سماں پیدا ہو گیا سب پریشان ہو گئے جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی موبائل کے مالک ڈرائیونگ سیٹ پر برا جمان تھے اس لئے سب نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔

ایک بات جس کا ذکر کرنا یاد نہیں رہا مفتی صاحب اس سے پہلے دریا کے ٹھنڈے پانی سے محظوظ ہوتے ہوئے کچھ زیادہ ہی جوش میں آئے اور حوش کھو بیٹھے اپنا موبائل دریا کی ٹھنڈی موجوں کی نظر کر دیا اس طرح ہمارا اس سفر میں یہ دوسرا نقصان ہوا تھا۔

رات ہم نے ایک ہوٹل میں قیام کیا جہاں پر سروس وغیرہ کہ کوئی آثار نہیں تھے ہوٹل کے سٹاف کے ایک ساتھی سے فون لے کر سب ساتھیوں نے گھر میں اطلاع دی کہ ہم بخیروعافیت سے ہیں امیر صاحب کی معیت میں کھانا کھایا اور پھر آرام کے لئے اپنے روم میں چلے گئے ٹھنڈ کی وجہ سے برا حال تھا جلد ہی سب ساتھی گہری نیند کی وادیوں میں چلے گئے۔

صبح سویرے بیدار ہوئے فجر کی نماز ادا کی اور جلدی سے اپنا سامان اٹھا کر گاڑی میں بیٹھ گئے امیر صاحب کا حکم تھا کہ ناشتہ اگلے سٹاپ پر کرنا ہے دو تین گھنٹے کے سفر کے بعد ناشتے کے لئے رکے خوب سیر ہو کے پیٹ پوجا کی اور پھر سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ایک پوائنٹ جو جاتے وقت چھوڑا تھا کہ واپسی پر جائیں گے جوں جوں جھیل سیف الملوک کا سٹاپ قریب آتا گیا ساتھی مختلف طریقوں سے اظہار کرتے رہے رکنے کا لیکن ڈرائیونگ سیٹ والے کے سامنے بے بس تھے کیونکہ ان کا نقصان ہو چکا تھا بس پھر جھیل سیف الملوک کا خواب ادھورا رہ گیا۔

واپسی پر ہمارے یونیورسٹی کہ بہت ہی اچھے دوست شمس العارفین منتظر تھے جو دریائے کنہار کے ساتھ بہت کشادہ اور خوبصورت گھر میں رہتے ہیں جاتے وقت ہم تھوڑی دیر کے لئے رکے کچھ عکس کیمرے میں محفوظ کیئے اتفاق سے یہ جگہ ان کے گھر کے سامنے تھے بس اسی وجہ سے حاضری لازمی ہو گئی جس کو ہم ساتھیوں نے مل کر یقینی بنایا شمس بھائی نے اپنے ڈیرے کی تفصیلات وغیرہ بتائیں بہت پر تکلف کھانا پیش کیا کھانے کے بعد چشمے پر لے کر گئے بہت میٹھا اور ٹھنڈا پانی تھا سب ساتھیوں نے وضو کر کے نماز ادا کی اپنے رب کا شکر ادا کیا اپنے میزبان سے اجازت مانگی اور اپنے اپنے گھروں کو ہو دیئے۔

امید کرتا ہوں آپ سب اس سفرنامہ کو پڑھ خوب لطف اندوز ہوئے ہوں گے آپ بھی اپنی مصروفیات سے اپنے لئے وقت نکالیں۔
ان علاقوں کی طرف سفر کرنے کے لیے جون جولائی کے مہینے سب سے زیادہ بہتر ہیں جس میں بھرپور طریقے سے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment