ہوم << بھیک اسلام کا نظام نہیں - الطاف جمیل شاہ

بھیک اسلام کا نظام نہیں - الطاف جمیل شاہ

مدارس اسلامیہ اسلامی علوم و معارف کے قلعے ہیں جہاں علوم اسلامیہ اور معارف اسلامیہ پر تحقیق و تدوین کا کام ہوتا ہے، اس لیے مدارس ہماری نگاہوں کی رونق اور قلب کی تسکین ہیں ۔ مساجد اللہ تعالٰی کا گھر ہیں اور امت مسلمہ کے لئے مقامات مقدسہ جن کی تعظیم کے ساتھ ساتھ ان کی تعمیر بھی باعث اجر و ثواب اور فلاح و کامرانی کا سرچشمہ ہے۔ غریب و نادار لوگ اہل ایمان کے لیے امتحان ہیں کہ ان کی غربت و ناداری میں ان کی معاونت کرنا اسلامی فرائض سے ہے اور اس سے اعراض نعمت ایمانی سے اسباب محرومی سے ہے۔

کل شام مسجد میں عشاء پر ایک معصوم صورت بچہ دس بارہ سال کا مسجد میں ملا،چمپارن بہار کی کسی جگہ کا رہنے والا.
مجھ سے کہا مولبی صاب ہم چندہ مانگتا ہے
پوچھا کس لیے
بولا ہمرا مدرسہ ہے، جہاں بچہ لوگ پڑھتا ہے
میں نے پوچھا کہ تصدیقات ہیں کیا
بولا ہیں نا اور اس کے ساتھ ہی مدرسے کی کوئی تصدیق اور ایک عدد رمضان چاٹ دیکھائی
میں نے بولا بیٹا یہ تصدیق نہیں کچھ اور ہے
بولا نہیں
اوہ اچھا آپ اکیلے ہیں یا کچھ اور بھی ہیں آپ کے ساتھ
بولا ہمرا باپ بھی ہے نا جو شام میں چندہ مانگتا تھا

تھوڑا سا بچے کو کریدا تو بولا صاب معافی کردو ،ہم کو ہم کو پتہ نہیں ہے کچھ بھی، یہ تو بابو بولا چندے کا ، ورنہ ہم نہیں کرتا. میں نے پوچھا مدرسہ ہے کیا؟ بولا ہے مگر وہ ہمرے سے بہت دور ہے، بابو رسید لایا مگر کاغذ نہیں. ان کے والد صاحب کسی دوسری مسجد میں گئے تھے. بعد عشاء میں نے کوشش کی کہ مل جائیں، مگر وہ ملے نہیں. واپس آکر مسجد میں دیکھا تو بچہ بھی نہیں ملا. آج صبح دیکھا کہ ہائے وے پر جارہے تھے. جوں ہی مجھے دیکھا سومو پکڑی اور نکل گئے .

اب اصل بات عرض ہے
مدارس اسلامیہ کا کام ہی ان کا اصل سفیر ہے، یہ معروف ہیں اور وادی اور بیرون وادی لوگ ان سے بخوبی واقف ہیں. ان کا نام ہی ان کا تعارف ہے. لیکن المیہ یہ ہے کہ غیر معروف ادارے جن کی کوئی پہچان ہی نہیں، وہ اس ڈھٹائی سے چندہ کر رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ . آپ بس میں جائیں، ریل میں سڑک پر چلیں، کہیں بھی ہوں، یہ انجانی مخلوق یتیموں اور بیواؤں کا رونا شروع کردیتے ہیں، اور ہر جگہ چندہ کرتے ملتے ہیں. ثبوت کے لیے چند بچوں/بچیوں کی تصاویر ہوتی ہیں اور انھیں یتیم گردانتے ہیں، پھر التجائیں کرتے ہیں کہ خدا کے لیے ان کی مدد کریں اور لوگ بھی بنا سوچے سمجھے ہی تعاون کے لیے جیب خالی کرتے ہیں.

اس سلسلے میں میری ذاتی رائے ہے جس سے آپ کو اختلاف کا حق ہے کہ ہم نے بھکاری پن کو بام عروج بخشا ہے، ورنہ شائستہ لوگ ایسے عوام کے لیے درد سر بننا پسند نہیں کرتے،کجا کہ بس ریل پٹری پر چندہ کرنے علماء جائیں. ایسا نہیں ہے. عوام جو مدارس سے واقف ہوتی ہے، وہ از خود بھی جاتے ہیں اور اہل مدارس حساسیت کے ساتھ مدارس کے لیے چندہ وغیرہ کرتے ہیں. اب یہ جو بس، ریل یا پٹری پر چندہ کرتے ہیں، اکثریت ان کی چندہ خور قسم کی ہوتی ہے۔ ایسے کہ بہت بڑی مساجد کا سنگ بنیاد رکھا جاتا ہے، پھر قصبہ و دیہات میں دہائی دی جاتی ہے کہ اللہ کا گھر منتظر ہے، اس کی معاونت کیجیے، بےشک اللہ کے گھر کو وہی تعمیر کرتے ہیں جو یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں. عجیب منطق ہے کہ مساجد کی تعمیر ان نمازیوں کے ذمہ ہے، جو اس مسجد کے مصلی بننے والے ہوں. وہ اپنی وسعت و استعداد کے مطابق ہی مساجد تعمیر کرائیں. اس میں ہر جگہ شور شرابہ کرنے کی کیا تک ہے اور مسلمانوں سے زبردستی چندہ لینے کی کیا وجہ ہے؟ یہ عجیب منطق ہے. ہاں یہ الگ بات ہے کہ کوئی پسماندہ گاؤں انتہائی تنگدستی کا شکار ہو، وہ ایسا کرے تو بات سمجھ آسکتی ہے، مگر شہر ،قصبہ و دیہات میں ایسی وبا تو اصول و ضوابط سے متصادم ہے کہ کسی جگہ اہل شہر کو ایک بہت بڑی وسیع و عریض مسجد تعمیر کرنے کی سوجھی، اس لیے کہ ان کا نام ہو اور وہ بقیہ جگہوں پر چلا چلا کر کہیں کہ مسجد کی تعمیر میں مدد کریں. یہ تو میرے خیال میں صحیح نہیں ہے. علماء اس جانب توجہ دیں، رہنمائی کریں۔

یتیموں اور بیواؤں کی حالت زار سے بھلا کون واقف نہیں. ان کی بے بسی تو آدمی کا قلب و جگر چیر دینے کو کافی ہوتی ہے. وادی میں بھی یتیموں بیواؤں کی کثیر تعداد ہے، اللہ تعالٰی ان کا کفیل ہو . یتیم فاونڈیشن ہو یا راحت منزل، دونوں ادارے اس سلسلے میں جو کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں، واللہ جی چاہتا ہے کہ ان کے ذمہ داران کی قدم بوسی کی جائے. یہ دونوں ادارے سالہا سال سے اس سلسلے میں سرگرم عمل ہیں. کچھ اور ادارے بھی اس سلسلے میں خوب کام کر رہے ہیں، لیکن ان سب کا ایک نام ہے، کام کرنے کا ایک طریق کار ہے. یہ نہیں کہ یہ سب از خود اپنی جیب سے سب کچھ کرتے ہیں، عوام بھی ان کی خوب مدد کرتی ہے، وادی کشمیر کے لوگ اس سلسلے میں وسعت قلبی کا اعزاز رکھتے ہیں. یہ تو افلاس و غربت کے دیار میں مکین لوگوں کی خوب مدد کرتے ہیں. ایسا بھی ہوا ہے کہ اپنے منہ کا نوالہ کسی غریب و ضرورت مند کو کھلا دیا اور اپنی ضروریات پر کسی ضرورت مند کو ترجیح دی، مگر ان یتیموں اور بیواؤں کے نام پر کچھ لوگ خوب لوٹ مار کر رہے ہیں. رمضان کی مبارک ساعتوں میں جس قدر ایسے اداروں کے نمائندے ظاہر ہوتے ہیں، اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی پوری وادی یتیموں اور بیواؤں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، اور انھیں کھانے کو کچھ میسر ہی نہیں ہے. اس پر مستزاد کہ اب باضابطہ گاڑیاں رکھی جاتی ہیں اور بھیک کے اسباب و علل ریکارڈ کرکے مائیک پر چلائے جاتے ہیں. ساتھ ساتھ ان مائکوں پر خوب نعت شریف کی ریکارڈنگ بھی چلائی جاتی ہے، اور معاونت کی اپیلیں زور و شور سے ہوتی رہتی ہیں. بیماروں کی ایسی ہاہا کار لگائی جاتی ہے کہ الاماں والحفیظ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید میں کسی طاعون زدہ شہر کا مکین ہوں.

مجھے نہیں پتہ آپ کیا محسوس کر رہے ہوں گے، لیکن میں نے یہی محسوس کیا کہ ایک بہت بڑا گروہ یہ سب کام انجام دے رہا ہے، اور دن بہ دن اس میں ترقی ہورہی ہے. شاید آنے والے ایام میں ان کی آرگنائزیشنز بن جائیں اور از خود ہی یہ علاقے بانٹ لیں، اور یہ بھی طے کر لیں کہ کن سے کتنی رقم وصول کرنی ہے. پھر وادی کا نام پوری دنیا میں اس طرح نمایاں ہوجائے کہ بھکاریوں کی سرزمین جہاں ہر جگہ آپ کو بھکاریوں کے کارواں سے منسلک عظیم نمائندے مل جائیں گے. اگر آپ بھی اس پیشہ سے فیض یافتہ ہونا چاہتے ہیں تو وادی کا رخ کریں.

2020ء کی بات ہے. ایک صاحب آئے کہ میرا بچہ کینسر کا مریض ہے، آپ جمعہ پر اس کے لیے چندہ جمع کرائیں. میں نے اعلان کیا اور چندہ جمع ہوگیا. مگر وہ جناب دوسری مسجد میں گئے ہوئے تھے، ان کی واپسی ہوئی، رقم میرے ہاتھ میں تھی. میں نے پوچھا کہاں کے ہیں؟ اس نے جس بستی کا نام بتایا، میرے ساتھ بیٹھا ایک شخص اس بستی سے بہت حد تک واقف تھا. اس نے جب پوچھا تو یہ صاحب بولتے ہی چلے گئے. دونوں گردے خراب ہیں، کھانے کو کچھ بھی نہیں، زمین تھی فروخت کردی. اب مسلمانوں سے ہی مدد کی امید ہے، باقی کچھ بھی نہیں۔ مہینے کی دوائی اتنے کی آتی ہے وغیرہ. خیر میرے ساتھ بیٹھے شخص نے وہاں کسی ساتھی پہچان والے کو فون کیا. اس نے بتایا کہ ہاں ایسا ایک بچہ تھا ہماری بستی میں، جس کا انتقال 2010ء میں ہوا ہے، مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ تو اس نے کہا بس ایسے ہی. وہاں سےجواب ملا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہاں کے چند لوگوں نے جعلی کاغذات بنائے ہوئے ہیں، اور وہ اس معصوم بچے کے نام پر پیسہ جمع کر رہے ہیں، خدا کے لیے انھیں کچھ مت دینا .اب یہ جناب اب منتیں کرنے لگے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی .

ایسے ہی کئی باتیں ہیں. آپ یقین کریں کہ امسال دارالعلوم دیوبند کے سفر کے دوران میں نے کئی خواتین کو دیکھا جو کشمیری نام پر چندہ مانگ رہی تھیں. اطراف مدرسہ میں کئی ساتھیوں نے ان کے بارے میں بتایا کہ یہ کئی سال سے یہاں ایسا کام کر رہی ہیں. چلتے چلتے التماس ہے کہ آپ مدد کریں تعاون دیں یہ آپ کے لئے خیر دارین کا سب ہوگا اس کی ضرورت ہے اور حکم بھی ہے ہر صاحب ایمان کو مگر ایک بات کا خیال رکھا کریں کہ جو کچھ میں خرچ کر رہا ہوں اس کا صحیح استعمال بھی ہورہا ہے یا نہیں یا صرف میں بھیک مانگنے کو فروغ دے رہا ہوں آپ مدارس اسلامیہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں اللہ زیادہ سے زیادہ توفیق دے لیکن اس کے لئے بہترین صورت ہے کہ ان مدارس کے مشتہر شدہ کھاتوں میں از خود رقم منتقل کریں یا وہاں جاکر وہاں کے ذمہ داران کے حوالے کریں ایسا ہی ان یتیموں بیواؤں کے ساتھ کریں جو آپ کے آس پاس ہیں ان کی معاونت کریں خوب مدد کریں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا کریں یہی ایمانی اوصاف میں سے ہے باقی یہ گلی نکڑ کے بھکاری اللہ بچائے ان کے شور و غل سے
بھیک مانگنے کو رواج نہ ملے اس کے لئے اسلام نے بیت المال کا نظام متعارف کرایا تھا کاش امت یکسوئی کے ساتھ ہر مسجد کے ساتھ اس کا بھی اہتمام کرتے کہ بیت المال کا ایک منظم انتظام ہوجائے جہاں اہل محلہ کی مدد و معاونت ہوتی رہتی شاید یہ مصیبت ٹل جاتی
تم سلامت رہو
فی امان اللہ